ابتر مخالفین جمہوری اسلامی/ڈاکٹر ندیم عباس

رہبر کبیر امام خمینی (رہ) کی قیادت میں ایران میں انقلاب برپا ہوا اور وہ اسلامی انقلاب تھا۔ عوام نے امام خمینی (رہ) کی ولولہ انگیز اور دیانت دار قیادت پر اعتماد کیا اور امام نے انہیں اس وقت کے طاقتور ترین ڈکٹیٹر سے نجات دلائی اور ایک مکمل جمہوری نظام دیا۔ اس وقت ایران کی اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد شاہ ایران کے فیض یافتگان میں سے تھی۔ یہ لوگ ایرانی عوام کی دولت کی بے تحاشہ لوٹ کھوسٹ کرتے تھے اور ساتھ میں امریکہ، یورپ اور اسرائیل کے ساتھ ایرانی عوام کے مفادات کی سودے بازی بھی کرتے تھے۔ اسی لیے ان لوگوں نے بڑی تعداد میں ایرانی دولت بیرون ملک منتقل کر رکھی تھی۔ یہ لوگ اکثر وہاں جاتے رہتے تھے۔ بہت سوں کی اولاد وہیں پر مقیم تھیں، ان کے لیے ایران کے وسائل مفت میں ملنے والا دودھ تھا، جسے یہ لوٹ رہے تھے۔

انقلاب اسلامی کی تحریک کے کامیاب ہونے کے بعد ان لوگوں کی بڑی تعداد راتوں رات ایران سے فرار ہوگئی۔ بیوروکریسی اور دیگر انتظامی عہدوں پر فائز رہنے والوں میں سے بھی جو بھاگ سکتے تھے، وہ جو ہاتھ میں آیا لے کر بھاگ گئے۔ یوں اس عوام دشمن اشرافیہ نے جو ویسے ہی ایران دشمن خیالات رکھتے تھے، یورپ کی شہریت لے لی۔ اسی طرح ایک گروہ کا خیال تھا کہ انقلاب کے بعد امام خمینی (رہ) حکومت ان کے حوالے کریں گے اور ہم حکومت چلائیں گے، یہ گروہ بعد میں انقلاب مخالف ہوا اور ایران سے بھاگ گیا۔ یہ گروہ ایرانی عوام کے سمندر کو دیکھ کر ایسے ہی مایوس ہوگیا، جیسے قرآن کے مطابق بہت سے لوگ غدیر خم پر اعلان ولایت سننے کے بعد مایوس ہوگئے تھے، ذرا اس خوبصورت اسلوب بیان کو دیکھیے: “اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ”(المائدہ) “آج کے دن کافر لوگ تمہارے دین سے مایوس ہوگئے۔”

یہ لوگ ایران کی عوام سے مایوس ہوگئے، یہ لوگ یورپ میں اپنی نوکریاں پکی کرنے کے لیے چھوٹے موٹے انقلاب مخالف کام کرنے لگے۔ ان کی اکثریت ایسی ہے، جو پچھلے پنتالیس سال میں ایران گئی ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ ایران سے مغربی یونیورسٹیز آنے والے جوانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو یہ ہر دوسرے دن نئے انقلاب کی نوید سناتے ہیں۔ یہ عظمت رفتہ کے مریض ہیں، جو ردعمل میں اعتدال سے ہٹ چکے ہیں اور مایوسی کی آخری حدوں کو پہنچ رہے ہیں۔ ایران میں کسان پانی کی تقسیم کے مسئلے پر احتجاج کریں تو انہیں انقلاب مخالف مظاہرے لگتے ہیں، ملازمین تنخواہیں بڑھانے کے لیے احتجاج کریں تو بھی یہ اپنے آقاوں کو پرامید کر دیتے ہیں۔ حالانکہ یہ ایک دوسرے کے دشمن ہیں، ان کا آپس میں کوئی اتحاد نہیں ہے، ہر کوئی لیڈر بننے کے چکر میں دوسرے کو تسلیم نہیں کرتا۔

ان تمام جماعتوں کو ایک جگہ اکٹھا کیا گیا تھا، اس پر بہترین تبصرہ یہ تھا کہ وہاں ایسی جماعتیں سب کی لیڈر بننے کی کوشش کر رہی تھیں، جن کے کارکنوں کی تعداد کم ہے اور لیڈروں کی تعداد زیادہ ہے۔ ان جماعتوں کے کسی ترجمان نے نام نہاد ایران انٹرنیشنل پر کہا کہ تمام گروہوں کا اتفاق ہے تو اس کی میزبان نے ہنستے ہوئے کہا کہ اچھا لطیفہ ہے۔ نام نہاد اپوزیشن کے گروہوں کے اجلاس کی ناکامی کے بعد رضا شاہ کا بیٹا مدد کے لیے اسرائیل پہنچا ہے۔ میڈیا کے مطابق رضا شاہ پہلوی کا بیٹا اسرائیل میں بھی بے توقیر رہا۔ میڈیا نے اہمیت نہیں دی، اسی طرح ایک یونیورسٹی میں اس کا خطاب تھا، وہ بھی نہ ہوسکا۔ خریدے ہوئے میڈیا کے لوگ اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ سرخ قالین نہیں بچھایا گیا بلکہ بعض تو کہہ رہے ہیں کہ انہیں وی آئی پی لاوئنج سے ہی نہیں لایا گیا۔ اگر اسرائیل کے ائیرپورٹ سے باہر آنے کی ویڈیو ملاحظہ کریں تو پورے پانچ لوگ استقبال کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کسی کی ذلت نہیں ہوسکتی۔

اسرائیل کے سابق سفیر نے کہا کہ پہلوی کا آنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، وہ ماضی بعید میں طاقت رکھنے والے ایک خاندان کا فرد ہے، ایران میں اس کے طرفدار تو معلوم ہی نہیں ہیں اور باقی سب خود ساختہ جلاوطن ہیں۔ یہ اسرائیل کے لیے ایک پتہ ہے، مگر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ رضا شاہ کا بیٹا اس قابل ہو جائے کہ ایران میں کوئی کردار ادا کرسکے، بعید ہے۔ اگر وہ امریکہ اور اسرائیل کی حمایت کے ساتھ آنے کا خیال رکھتا ہے تو اسرائیل اور امریکہ میں خود اتنی طاقت نہیں ہے کہ ایران کی ایک مضبوط حکومت کو تبدیل کرسکیں۔ مغرب کے دہرے معیارات دیکھیں شاہ کی آمریت کو عوامی قوت کے ساتھ ختم کرکے جمہوری نظام قائم کیا گیا اور اب یورپ اور اسرائیل ایسے شخص کی حمایت کر رہے ہیں، جو اکیسویں صدی میں ماضی کی بادشاہت کی وراثت کا دعویدار ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیرون ملک کچھ کرائے کے لوگ موجود ہیں، جو یورپ میں مظاہرے کرتے ہیں اور کمپین چلاتے ہیں کہ جمہوری اسلامی کو نقصان پہنچائیں۔ کچھ لوگوں نے پاسداران کو یورپی پارلیمنٹ سے دہشتگرد گروہ قرار دلانے کی کمپین شروع کی ہوئی تھی، جس میں انہیں شدید ناکامی ہوئی۔ اس گروپ کا ترجمان بڑی مایوسی سے ٹی وی پر بتا رہا تھا کہ یورپ اپنے مفادات کے لیے کام کرتا ہے، وہ کبھی ہمارے کہنے پر پابندی نہیں لگائے گا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ بات تو انہیں سمجھ میں آگئی کہ اس معاملے میں یورپ اپنے مفاد کے لیے کام کرے گا، انہیں یہ سمجھنا چاہیئے کہ یورپ کا ہر کام اس کے اپنے مفاد کے لیے ہوتا ہے۔ انہیں انسانی حقوق اور دیگر نعروں میں لگا کر وہ استعمال ہی کر رہا تھا۔ یہ لوگ ابتر ہیں، نہ یہ کسی نظریہ پر متفق ہیں اور نہ ہی کسی ایک شخصیت پر متفق ہیں، جب بھی انہیں طاقت کے زور پر اکٹھا کیا جائے گا، یہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بدکلامی کرکے ہی اٹھیں گے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply