تخلیق اور سائبان/اقتدار جاوید

رتنوں اور نو رتنوں کو شمار کرنا ہو یا انہیں تلاش کرنا ہو تو اب وہ ادبا میں ہی سے دستیاب ہو سکتے ہیں۔اکبر کے نو رتنوں میں شامل جنگجو سپہ سالار مرزا عزیز کوکلتاش تک شعری ذوق سے متصف تھے۔ جو حدیث مبارکہ ہے کہ علم مومن کی میراث ہے اس میراث کا بیشتر حصہ شاعروں اور ادیبوں کو بھی تفویض ہوا ہے۔فیضی کی شہرت تو شاعر کی ہے مگر ان کی مشہور تفسیر سواط الا الہام بے نقطہ تھی جو ان کے تبحر علمی کا بین ثبوت ہے۔تب شاعری دہلی کے قرب و جوار میں ہی ہوتی تھی اپنے وطن پنجاب میں ایسی کسی علمی کاوش کا تصور بھی ناپید تھا۔مگر زمانہ تبدیل ہوا اقبال آئے تو انہوں نے نہ صرف اردو ادب کا دھارا ہی بدل دیا اور اردو شاعری پر پنجاب نے اپنی مہر بھی ثبت کر دی۔
اب اردو کا سارا بوجھ اور کام پنجاب اور اہل پنجاب کے ذمہ ہی سمجھیں۔یہ جوت اقبال نے جگائی تو میرا جی، فیض، راشد، مجید امجد، منیر نیازی، اختر حسین جعفری، وزیر آغا، شہزاد احمد، گلزار، ظفر اقبال، بلونت سنگھ، راجندر سنگھ بیدی، جوگندر پال، بانو قدسیہ، غلام الثقلین نقوی، مظہرالاسلام، خالد فتح محمد، سعادت حسن منٹو، احمد ند یم قاسمی، مرزا ادیب، اطہر بیگ، عبداللہ حسین، انور سجاد، خالدہ حسین، سعادت سعید، محمد اظہار الحق، علی اکبر عباس، سرمد صہبائی، نذیر قیصر، فرخ یار اور بہت سارے نامور شعرا اور ادبا کی ایک کہکشاں ہے جو پنجاب کی دھرتی سے اٹھی اور اپنی ماں بولی کی قیمت پر اردو کو سینے سے لگایا۔طرفہ تماشا کہ ان میں بہت سارے شاعروں کی تحاریر اور شاعری سے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اردو ان کی مادری زبان ہے بھی یا نہیں۔تنقید میں ناصر عباس نیر اور نوجوان نسل سے الیاس بابر اعوان سرگرم کار ہیں۔ادبی جرائد کی بات کی جائے تو بھی پنجاب کے ادیب صف اول میں ہی نظر آتے ہیں۔آج کل تو جیسے پنجاب میں اردو جرائد پر بہار آئی ہوئی ہے۔اس شہر سے ہی الحمرا شاہد علی خان کی ارادت میں، ادب لطیف مظہر سلیم مجوکہ اور شہزاد نیر، سائبان حسین مجروح، تخلیق سونان اظہر اور سویرا محمد سلیم الرحمان کی ادارت میں شائع ہو رہا ہے۔اول الذکر چار جرائد تو باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں اور اردو ادب کی پرورش میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔چند دن قبل سونان اظہر نے گیارہویں تخلیق ایوارڈ کی تقریب منعقد کی۔زیر نظر پرچہ برائے مارچ تئیس میں اس کی روداد شامل ہے جس میں شہر کے نمائندہ ادیبوں نے شرکت کی۔ ” تخلیق” ہمارے مہربان اظہر جاوید کی علمی میراث ہے جس کی حفاظت کی ذمہ داری اب سونان اظہر کر رہے ہیں۔انہوں نے بجا طور پر لکھا ہے کہ یہ مجلہ اظہر جاوید نے اس عہد کے ساتھ جاری کیا تھا کہ اسے اپنی زندگی کے آخری سانس تک جاری رکھیں گے۔انہوں نے اپنا عہد پورا کیا اور چودہ فروری 2012 کو اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی تو اس ماہ کا تخلیق شائع کر چکے تھے۔ایسی مثال کم کم ہی ملتی ہے۔ان کی وفات کے بعد سونان اظہر کی کمٹمنٹ اور بڑھ گئی اور اسے تا زندگی جاری رکھنے کا عہد کیا ہوا ہے۔یہ والد کی میراث ہے
اقبال نے سچ کہا تھا
باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
پھر پسر صاحبِ میراثِ پدر کیوں کر ہو
تخلیق کی پچپن سال تک کا سفر اور اس کی باقاعدہ اشاعت ںے سونان کو صاحب ِ میراث پدر ثابت کیا ہے۔سونان کو جہاں یہ سہولت ہے کہ اظہر جاوید کے دوست ادیبوں کو اب بھی تخلیق سے انس ہے وہیں سونان نے پرانے اور نئے لکھاریوں اضافہ کر کے ان کو ایک وسیع پلیٹ فارم مہیا کیا ہے۔اس شمارے میں گوشہ حنیف باوا میں انہیں خراج تحسین پیش کرنے والوں میں سرفراز سید، ہارون الرشید تبسم اور نسیم سحر شامل ہیں۔ڈاکٹر غافر شہزاد نے اونگا تکار چک کے ناول پرواز کا خوبصورت تعارف کروایا ہے۔گوشہ موسیقی میں ڈاکٹر امجد پرویز کے مضمون منیر حسین ایک سریلا گلوکار نے اس پرچے کو یادگار بنا دیا ہے۔
” سائبان” ایک ادبی پرچہ نہیں فی الاصل ایک ادبی تحریک ہے کہ اس سائبان تلے تمام فنون لطیفہ کو برابر اہمیت کو بنیاد بنایا گیا ہے۔یہ شاعری اور افسانہ نگاری تک محدود نہیں بلکہ سائبان کے تلے مصوری ، موسیقی اور دیگر فنون لطیفہ کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔حسین مجروح لاہور کے ادبی سماج کے روح رواں ہے۔سائبان کتابی سلسلہ ہے اور زیر نظر اس کی تیسری اشاعت ہے۔مدیر حسین مجروح اور سائبان تحریک کے مقاصد میں کتاب کے کلچر کو فروغ ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت اور فروخت کا نظام ادیبوں اور جرائد کے معاشی و سماجی استحصاک کی مختلف صورتوں کی بیخ کنی اور ان کے مقام و اعتراف کے باب می عملی اقدام اور اس طرح کے دیگر اہم امور ہیں۔ جہاں کتاب خرید کر پڑھنے کا کہا جاتا ہے وہاں اس سلسلے میں پرچے میں شامل لکھاری ادیبوں اور شاعروں کا اعزازیہ جاری کرنا بھی ضروری ہے۔
یہ منصوبے اور خاکے کاغذ پر تو بہت خوش نما لگتے ہیں مگر اس کو عملی جامہ پہنانے میں بہت سارے مشکل مقام آتے ہیں۔ہماری دعا ہے کہ مدیر اس آگ سے بخیر و بعافیت گزرے کہ اصل میں یہ حکومتی ادبی اداروں کا کام ہے جس کا بیڑا سائبان تحریک اپنے ذمہ لینے کی آرزومند ہے۔اگر حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے سفید ہاتھی فصل اجاڑنے کے علاوہ کچھ کر سکتے تو اور کیا درکار تھا۔خود من و تو یا اداریے کا عنوان ہر کہ خدمت کرد او معدوم شد ہمارے موقف کی تائید کر رہا ہے۔سردوگرم چشیدہ شاعر اور ادیب مجروح نے بہت کچھ سوچ کر ہی اس کام کو شروع کیا ہو گا۔
مجید امجد نے کہا تھا کہ میں جہاں بھی رہا ہوں دیار ِ جھنگ کی دی ہوئی وارفتگی میرے ساتھ رہی ہے۔ یہی معاملہ حسین مجروح کا ہے کہ ان کا خمیر اسی دھرتی سے اٹھا ہے۔سائبان اپنی معنوی اور صوری ہر دو اعتبار سے ایک نمائندہ ادبی پرچہ ہے۔نیا ادبی پرچہ جاری کرنا اور ایک دو شماروں اپنا نقش قائم کرنا کار دیگرے ہے اسے مدیر کی محبت نے آسان کر دیا ہے۔

Facebook Comments

اقتدار جاوید
روزنامہ 92 نیوز میں ہفتہ وار کالم نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply