آڈیو لیک: یہ مچھر نہیں، اونٹ ہے/محمد مشتاق

اور وہ بھی عربوں کا جو ایک دفعہ خیمے میں سر گھسیڑ لے تو خیمے کے مکینوں کو نکال کر خود خیمے پر ہی قبضہ کرلیتا ہے۔
قانونی لحاظ سے بھی پہلا سوال یہی ہے اور اور اخلاقی لحاظ سے بھی کہ جو آڈیو/وڈیو پیش کی جارہی ہے، وہ قانونی طور پر حاصل کی گئی ہے، یا غیر قانونی طور پر۔
اس معاملے کی حساسیت معلوم کرنی ہو، تو ذرا اس پر غور کریں کہ جب “سیکیورٹی ادارے” اپنی “حراست” میں “دہشت گردوں” سے “تشدد” کے ذریعے “اقبالِ جرم” کروائیں، تو عدالت کیوں اس اقبالِ جرم کو قبول نہیں کرسکتی؟ قبول کرنا تو دور کی بات، اس پر بحث کی اجازت بھی نہیں دے سکتی۔
قانونی اور اخلاقی لحاظ سے ان دونوں افعال (تشدد کے ذریعے دہشت گردوں سے اقبالِ جرم حاصل کرنا، یا غیر قانونی طریقے سے کسی کی گفتگو ریکارڈ کرنا) میں کوئی فرق نہیں ہے، بلکہ شاید کہنے والا یہ بھی کہہ دے کہ دہشت گردوں پر تشدد جائز ہے کیونکہ وہ بہت سارے لوگوں کی زندگیوں سے کھیلتے ہیں
لاکن
قانون اور اخلاق کے معاملے میں حساس فرد یہ نہیں مان سکتا۔ وہ کہے گا کہ میں کیسے مان لوں کہ یہ دہشت گرد ہے، اگر اس کا اقبالِ جرم ہی اس کے دہشت گرد ہونے کا ثبوت ہے اور وہ اقبالِ جرم تم نے اس سے تشدد کے ذریعے حاصل کیا ہے۔
بالکل اسی طرح غیر قانونی ذرائع سے حاصل کیے گئے تمام شواہد ردی کی ٹوکری میں پھینکے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔ ان پر یہ بحث کی ہی نہیں جاسکتی کہ ان کو مستند اور قانونی فرض کرکے دیکھ لیتے ہیں کہ ان سے ثابت کیا ہوتا ہے؟ نہیں، یہ تب تک نہیں کرسکتے، جب تک پہلے یہ ثابت نہ کیا جائے کہ یہ شواہد قانونی طریقے سے حاصل کیے گئے ہیں۔
ایسے شواہد کو امریکی قانون میں “زہریلے درخت کا پھل” کہا جاتا ہے اور ایسے امور کے متعلق اسلامی قانون کا اصول “المبنی علی الفاسد فاسد” کا ہے۔
پچھلی حکومت نے غیر قانونی طریقے سے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے ٹیکس ریکارڈ تک رسائی حاصل کی تھی۔ میں نے اس پر بھی تنقید کی تھی اور کہا تھا کہ ٹیکس ریکارڈ میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے، اس پر بات کی ہی نہیں جاسکتی (سپریم کورٹ نے بھی 4 کے مقابلے میں 6 کی اکثریت سے یہی فیصلہ سنایا تھا)۔ آج اگر مبینہ طور پر چیف جسٹس کی ساس کی گفتگو غیر قانونی طور پر ریکارڈ کی گئی ہے، تو اس کے متعلق بھی میں یہی کہوں گا (خواہ مجھے خود چیف جسٹس پر یا ان کے ساتھیوں پر کتنے ہی اعتراضات ہوں) کہ اس گفتگو کے متن پر بات کی ہی نہیں جاسکتی اور اس کے بجاے ان لوگوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے جو یہ غیر قانونی کام کرتے ہیں۔
یاد رکھیے کہ اس طرح کے حربے فاشسٹ حکومتیں ہمیشہ استعمال کرتی آئی ہیں اور آپ نے اس کےلیے تھوڑی سی بھی گنجائش چھوڑ دی، تو سارے معاشرتی نظام کو درہم برہم کرکے رکھ دیں گے۔
باقی رہا یہ سوال کہ اگر واقعی یہ باتیں درست ہوں، تو ان سے نمٹنے کا کیا طریقہ ہے، تو اس کےلیے آئین اور قانون میں پورا ضابطہ موجود ہے۔ اس ضابطے پر عمل کرکے ہی کسی کی گفتگو ریکارڈ کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ حب الوطنی کے نام پر اس ضابطے کو پامال کررہے ہیں، تو یہ بعینہ وہ عذر ہوا جو مبینہ دہشت گردوں سے تشدد کے ذریعے اقبالِ جرم حاصل کرنے کےلیے پیش کیا جاتا ہے۔
ویسے سوال یہ بھی ہے کہ غیر قانونی طور پر یہ گفتگو ریکارڈ کرنے والے اس ریکارڈنگ کو متعلقہ محکموں میں پیش کرکے گفتگو کرنے والی خواتین کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتے اور اس کے بجاے “لیک” کرنے میں ہی کیوں ان کی دلچسپی ہوتی ہے؟
نہیں، حضورِ والا!
جو لوگ اس طاقتور خفیہ ہاتھ کی صریح لاقانونیت کے خلاف بات کرنے کے بجاے اس لاقانونیت سے چسکے لے رہے ہیں، وہی ہیں جو مچھر چھان رہے ہیں اور اونٹ نگل رہے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply