وقتِ فراغت اور تفریح /ڈاکٹر مختیار ملغانی

پیٹ پالنے کو انسان جو بھی کام کاج کرتا ہے وہ عمومآ اس کی روحانی اور جمالیاتی تشفی کا باعث نہیں بنتا، اصل خوشی کا حصول تب ہی ممکن ہے جب فرد کو فراغت کے اوقات اور تفریح کے مواقع میسر ہوں، بلکہ تہذیب ، ثقافت، تخلیق، فن، ایجادات اور منفرد تخلیات کیلئے فراغت یا تفریح لازم شرط ہے، ارسطو نے جب غلامی کی حمایت کی تو اس کے پیچھے یہی نکتہ کارفرما تھا، یورپ میں پب (بار ) کا کلچر اسی لئے متعارف کرایا گیا کہ غیر رسمی ماحول میں ہم خیال لوگ باہم دلچسپی کے امور پر گپ شپ کریں ، یہیں سے تخلیق و فنون کے دروازے کھلتے ہیں۔
ہوش سنبھالتے ہی انسان کو جو تعلیم و ہنر کی ترغیب دی جاتی ہے، اس کا مقصد بلوغت کی عمر کو پہنچ کر کسی کام دھندے کو اپنانا ہے، اس بارے والدین اور سماج اس قدر فکر مند رہتے ہیں کہ گویا یہ ایک مقدس قدر کی شکل اختیار کر چکا ہے، اس کے برعکس فراغت اور تفریح کو نہ صرف نظر انداز کیا جاتا ہے بلکہ اسے منفی سرگرمی جتلاتے ہوئے فرد کو باقاعدہ کوسا جاتا ہے ، حالانکہ آج ہماری اجتماعی تہذیب اسی فراغت و تفریح کی مرہونِ منت ہے، فلسفیانہ نکتۂ نگاہ سے انسان کے سامنے یہ سوال اہم ترین ہیں کہ میں کون ہوں اور میری زندگی کیا ہے؟ اس سوال کا جواب ایک دوسرے سوال میں پنہاں ہے کہ آپ کو فرصت اور تفریح کے کتنے لمحات میسر ہیں اور ان لمحات کو آپ کیسے گزارتے ہیں۔
یونانی زبان کا ایک لفظ schole ہے، جس کا مطلب فارغ وقت ہے، بعد میں یہ لفظ علمی مباحث اور دوستوں کے درمیان گپ شپ کیلئے متعین مقام کی جگہ استعمال ہونے لگا، school کا لفظ یہیں سے اخذ ہوا، scholar کا ماخذ بھی یہی ہے۔
لاطینی زبان کا ایک لفظ licere ہے، جس کا مطلب آزاد ہونے، یا اجازت پانے کے ہیں، یہ آزادی یا اجازت درحقیقت ان امور کی ہے جو آپ کو پسند ہیں، آپ کی مرضی کی مصروفیات، یہ لفظ انگریزی میں آکر leisure بنا، جس کا مطلب فارغ یا تفریحی اوقات کے ہیں۔
اوقاتِ فراغت کی اہمیت کو سب سے پہلے افلاطون نے اجاگر کیا، ان کا کہنا تھا کہ وہ نوجوان جن کے پاس فراغت و تفریح کیلئے وقت میسر ہے، اپنی تخلیقات و غیر معمولی تخلیات میں وہ ایسے نواجوان سے کہیں آگے ہیں جو اس مقصد کیلئے مختلف اداروں کی دھول چاٹتے رہتے ہیں ، ثانئ الذکر کو انہوں نے غلام ذہنیت سے تشبیہ دی ہے، اسی فلسفے کو ارسطو نے خوبصورت تسلسل دیا، اس بات کی اہمیت اس نکتے سے واضح ہے کہ ارسطو نے اپنی معروف ترین کتابوں ( میٹافزکس، ایتھکس، پولیٹکس )میں اس فلسفے پر بحث کی ہے۔ ان کے نزدیک انسانی سرگرمیوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، ایک وہ جو ضروریات کو پورا کرنے کیلئے ہیں، یہ بیرونی دنیا سے منسلک ہیں اور یہ غلامانہ سرگرمی ہے، دوسری سرگرمی کا تعلق فرد کی اپنی ذات سے ہے، جو آپ اپنی خوشی کیلئے کرتے ہیں، ایسی سرگرمی آزاد ذہن کی علامت ہے اور اس کیلئے زیادہ سے زیادہ وقت نکالنا چاہئے کہ خوش بختی کیلئے زندگی کے جام کو انہی فارغ اوقات سے بھرنا ضروری ہے۔ یہیں انہوں نے کام کاج کی اہمیت پر بھی لطیف اشارہ دیا ہے کہ جیسے امن کیلئے جنگ ضروری ہے ویسے ہی تفریح و فراغت سے لطف اندوز ہونے کیلئے کچھ، غلامانہ اوقات، بھی گزارنے پڑتے ہیں۔ لیکن تفریح کو کوئی شخص کھیل تماشہ نہ سمجھ لے، انہوں نے آگے چل کر بات واضح کردی کہ جنگ کی سختیاں اس لئے جھیلی جاتی ہیں کہ امن کے دوران کوئی تعمیری کام کیا جا سکے، نہ کہ اس لئے کہ غل غپاڑہ مچایا جائے، اسی طرح فراغت کے اوقات کی قدر ضروری ہے کہ تمام تخلیقی عناصر کی ترتیب انہی لمحات میں میسر آتی ہے۔
ایمانوئیل کانٹ دن میں ایک ہی دفعہ کھانا کھاتے، لیکن یہ طعام تین چار گھنٹے جاری رہتا، کھانے پر کم از کم تین اور زیادہ سے زیادہ دس افراد مدعو ہوتے، کھانے کی پہلی ڈش ، جو کہ سوپ یخنی وغیرہ ہوتی ، پر ہلکی پھلکی سماجی سیاسی گفتگو ہوتی ، دوسری ، بنیادی ، ڈش پر گہرے فلسفیانہ مباحث ہوتے، جب میٹھا آتا تو لطیفہ گوئی اور مزاح کو چھیڑ دیا جاتا، انسان کے اندر کیا پوٹینشل موجود ہے اور اسے کیسے بروئے کار لانا ہے، اس کا سراغ صرف فارغ اوقات کے دوران خوبصورت اذہان کے ساتھ مباحثوں میں لگایا جا سکتا ہے، یہ رسم ہمارے ہاں بڑے شہروں میں معدوم ہو چکی، ان شہروں کے باسی تخلیق کی نعمت سے نابلد ہوتے جا رہے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کسی دیہات سے کوئی نوجوان (جو محافل خانقاہ، ہجرے، ڈیرے وغیرہ کا عادی تھا) جب کسی بڑے شہر کے بڑے ادارے میں اپنی پیشہ وارانہ زندگی شروع کرتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے سے سینیئرز کی کند ذہنی پر کڑھن ہوتی ہے کہ ایسا کودن شخص اس عہدے پر کیسے براجمان ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply