• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • رمضان کا مقصد تقویٰ۔۔۔مگرتقویٰ کیا ہے؟/مولانا رضوان اللہ پشاوری

رمضان کا مقصد تقویٰ۔۔۔مگرتقویٰ کیا ہے؟/مولانا رضوان اللہ پشاوری

تقوٰی کا لغوی معنی ہے بچنا، احتراز کرنا۔ شرعی معنی ہے اللہ سے ڈرتے ہوئے حرام کے ارتکاب سے اجتناب کرنا۔ عوام کے نزدیک شاید تقویٰ کا دار و مدار ڈھیر سارے اعمال پر ہے گویا کہ تہجّد پڑھنے والا، نفلی روزے رکھنے والا وغیرہ اس قسم کے لوگ عوامی نقطہ  نظر سے بڑے متقی کہلا تے ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ رات کا قیام کرنا، دن کو روزہ رکھنا بھی تقویٰ کی علامتیں ہیں۔ مگر اس پر تقویٰ کی درج بالا تعریف صادق نہیں آتی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نیک اعمال میں لگنا تقویٰ کا اثر ضرور ہے مگر اصل تقویٰ ہے اپنے آپ کو حرام سے بچانا۔ اور تقویٰ کی علماء کرام نے تین طرح سے تقسیم کی۔سب سے ادنیٰ درجہ ہے شرک و کفر سے بچنا۔ اس کے بعد حرام کاموں سے یعنی کبیرہ گناہوں سے بچنا اور تیسرے درجے میں سب سے اعلیٰ تقویٰ ہے کہ حرام تو کیا بلکہ مشتبہہ چیزوں سے بھی اپنے آپ کو بچانا۔ یہ تقویٰ اعلیٰ بھی ہے مشکل بھی ہے۔ لیکن مفید بہت زیادہ ہے۔ اس تقویٰ کے اپنانے والے کم ہیں۔ بہرحال عمومی تقویٰ درمیانہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو حرام کاموں سے بچائے۔ یہ متوسط درجے کا تقویٰ ہے۔”خیر الامور اوسطھا“ کا مصداق ہے۔ چونکہ تھوڑی سی محنت کے ساتھ بھی انسان اس درجے کا متقی آسانی سے بن سکتا ہے۔ اس لئے اسی کو موضوع بحث بناتے ہیں۔ انسان کے ہر عضو کا اپنا تقویٰ ہے۔ مثلاً زبان کا تقویٰ یہ ہے کہ اس کو غیبت، گانے بجانے، جھوٹ، فحش بات، فتنہ و فساد پھیلانے، چغل خوری وغیرہ سے روکا جائے۔ کان کا تقویٰ یہ ہے کہ مذکورہ امور کے سننے سے اس کو روکا جائے۔ اسی طرح ہاتھوں کو ظلم وغیرہ سے۔ پیروں کو ظلم وغیرہ کی طرف چلنے سے روکا جائے اور ساتھ ساتھ ہاتھوں اور پیروں کو ان تمام امور سے روکنا جو بُرائی یا برائی کی مدد میں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ پیٹ کا تقویٰ یہ ہے کہ اس کو حرام لقمہ سے بچایا جائے تاکہ حرام چیز اس میں داخل نہ ہونے پائے۔ شرمگاہ کا تقویٰ یہ ہے کہ اس کو اپنے حلال محل کے علاوہ تمام غیر حلال اور حرام جگہوں سے دور رکھا جائے۔ لہٰذا اگر کوئی آدمی نیک اعمال کا اہتمام تو کرے مگر زبان، دل، ہاتھ، پیر اور شرمگاہ پیٹ وغیرہ کو حرام سے نہ بچاتا ہو تو اس کو متقی کہنا مشکل ہے۔ اس کے مقابلہ میں کوئی شخص فرائض کے علاوہ نوافل کا اہتمام تو نہیں کرتا مگر اپنے اعضاء کو حرام کے ارتکاب سے محفوظ رکھتا ہے۔ یہ واقعی تقویٰ ہے۔ اس پر تقویٰ کی تعریف لغوی و شرعی دونوں طرح سے صادق آتی ہے اور تقویٰ کے ثمرات دنیا و آخرت میں اس کو ملیں گے اِن شاء اللہ تعالیٰ، بلکہ ایسے مشکل مسائل اور مصیبتیں جو کسی اور سبب سے رفع نہ ہو سکے تقویٰ کی برکت سے رفع ہونگی اور مشکل ترین را ہوں پر آنے والی چٹانیں تقویٰ کے باعث ہٹیں گی۔ زندگی میں ہر قسم کے حالات کا مقابلہ تقویٰ ہی سے کیا جا سکتا ہے۔ ضیق اور تنگی میں نکلنے کا محفوظ راستہ تقویٰ ہی تو ہے۔ عام لوگوں کا خیال محض خیال ہے حقیقت نہیں کہ تقویٰ قیامت میں توکام آئے گا لیکن دنیا کی زندگی سے تقویٰ کا کیا تعلق؟ یہ غلط فہمی اور ڈراما دشمن کا رچایا ہوا ہے۔ حقیقت سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ تقویٰ دنیا کی زندگی میں بھی کام دینے والا ہے اور آخرت کا میدان تو ہے ہی متقین کا۔ لیکن کاش کوئی تقویٰ کو سمجھے اور اسے اختیار کرے مشکل تو یہ ہے کہ تقویٰ جن لوگوں نے اپنے زعم میں اختیار کیا ہے وہ اگر تقویٰ نہیں تو پھر تقویٰ کے ثمرات و نتائج کیسے مرتب ہونگے۔ جو آدمی کھانے پینے میں حلال و حرام کی رعایت نہیں کرتا اس کے صف اول کی نماز کو بھی تقویٰ نہیں کہا جا سکتا۔ جو شخص صف اول کا نمازی توہے، دوسرے فرائض کی ادائیگی کا اہتمام بھی کرتا ہے، تہجد کی نماز بھی پڑھتا ہے مگر غیبت، جھوٹ اور لایعنی سے اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرسکتا اس کو کامل درجے کا متقی نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ یہ تو کمانے سے زیادہ اُڑا رہا ہے یا وہ شخص حلال و حرام کی تمیز کرتا ہے، حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھتا ہے۔ فرائض کی ادائیگی بھی کرتا ہے لیکن شہوت نفسانیہ کی تکمیل میں ناجائز امور کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس کو بھی متقی نہیں قرار دیا جا سکتا۔ تقویٰ کی یہ تمام صورتیں ناقص ہونے کی وجہ سے اپنا اثر نہیں دکھا سکتیں۔ اس پر پورا نتیجہ مرتب نہیں ہوگا۔ ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ متقی کے ساتھ مالک کائنات نے جو وعدہ کیا ہے وہ پورا نہ ہو جو انعام اس نے دینا ہے وہ نہ دے۔ فرمایا:”ومن اصدق من اللہ قیلا“ (النساء/ ۲۲۱)
ترجمہ:”اللہ سے بڑا سچا قول کے اعتبار سے کون ہو سکتا ہے؟“ معلوم ہوا کہ ہمارے تقویٰ میں نقصان ہے۔ اللہ کا وعدہ کامل اس کا انعام کامل لیکن یہ ناقص تقویٰ کے ساتھ نہیں بلکہ کامل تقویٰ کے ساتھ ہے۔ ناقص تقویٰ پر نتیجہ بھی ناقص مرتب ہوگا اور کامل تقویٰ پر نتیجہ بھی کامل مرتب ہوگا۔ میرا خیال یہ بنتاہے کہ ہمیں تقویٰ کے نیتجے کا انتظار کئے بغیر اپنے تقویٰ پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس کے نقصان کا ازالہ کرنا چاہیئے اور اس کو کامل بنانا چاہیئے۔ اس طرح کہ دل میں اللہ کی خشیت ہو اور تمام اعضاء جسم اسی خشیت کی وجہ سے برائیوں کے ارتکاب سے محفوظ و مامون ہوں۔ جسم کے ہر ہر عضو کا کامل تقویٰ ہو۔ زبان، دل، کان، آنکھ، ہاتھ، پیر، شرمگاہ اور پیٹ ہر ہر عضو تقویٰ سے سرشار نظر آئے کیونکہ تقویٰ کی اصل تعریف سے معلوم ہوتا ہے کہ فعل سے عدم فعل کے ارکان زیادہ ہیں یعنی جو کام کرنے کے ہیں فرائض وہ تو محدود ہیں جبکہ نواہی یعنی نہ کرنے کے کام وہ بہت زیادہ ہیں۔ اب فرائض کو ادا کرنا اور حرام چیزوں سے بچنا ہی تقویٰ ہے۔ اس کو کامل طور پر اختیار کیا جائے۔ پھر ان شاء اللہ تعالیٰ تقویٰ اپنا اثر ضرور دکھائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ متقیوں کے ساتھ دنیا و آخرت میں بڑے بڑے انعامات کے وعدے ہیں۔ دنیا میں ہمیں بڑے بڑے سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ مشکل وقت میں کام آئیں۔ ہر آدمی ایسے مشکل حالات سے نمٹنے کیلئے تعلقات عالیہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ بہت مختصر راستہ اور بڑا مؤثر راستہ تقویٰ اختیار کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ طلاق میں فرماتے ہیں:
”ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاویرزقہ من حیث لایحتسب۔“ (الطلاق ۲)”جو اللہ سے ڈرا یعنی جس نے تقویٰ اختیار کیا اللہ تعالیٰ ہر مشکل میں اس کے لئے نکلنے کا راستہ نکالیں گے۔ اس کا دوسرا جزو رزق کی تنگی سے نجات کا راستہ بتا رہا ہے۔ حالانکہ رزق کی تنگی سے نکلنے کیلئے مادی اسباب جو ہم نے اختیار کئے ہیں وہ اگر غیر مؤثر نہ ہوتے تو ہم معاشی بحران کی چیخیں نہ مارتے اور اتنا بڑا مسئلہ جو یقینی طور پر حل ہوگا اس کا راستہ اور سبب تقویٰ ہے بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ایسی جگہ اور ایسے اسباب سے رزق دونگا جو اس متقی کے وہم و گمان میں نہ ہونگے۔ ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ آسمان سے باتیں کرنے والی سائنس اور ٹینکالوجی جس مسئلے کا حل نہیں نکال سکیں تقویٰ اختیار کرنے سے اللہ پاک براہ راست اپنی قدرت سے اس مسئلے کا حل نکالیں گے۔ چاہے وہ مسئلہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ دیکھیں تقویٰ دنیوی زندگی میں بھی کام آنے والا ہے۔ جو کام صدر اور وزیر اعظم کے تعلق کے باوجود نہیں ہو سکتا تقویٰ نے اس کی ضمانت دی۔ کاش ہم قرآن کو سمجھ سکتے اور اس پر یقین کر لیتے۔ کونسا مسئلہ ہے جس کا حل قرآن میں نہیں۔ اعمال کا راستہ قوی اسباب والا بھی ہے اور یقینی بھی جبکہ مادی اسباب کا راستہ کمزور بھی ہے اور غیر یقینی بھی۔ صرف اس پر بس نہیں بلکہ سورہ اعراف آیت نمبر ۹۴ میں تقویٰ اختیار کرنے سے زمین و آسمان کے خزانے کھولنے کا وعدہ کیا گیا۔ فرمایا:”ولو ان اھل القری اٰمنوا واتقوا لفتحنا علیھم برکٰت من السماء والارض“ کہ اگر علاقے میں بسنے والے افراد ایمان کی دولت سے مالا مال ہو کر تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ضرور بالضرور آسمان و زمین کی برکتوں کو ان پر کھول دیتے۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ تقویٰ سے آسمانی برکتیں (بارش، رحمت) اور زمین کے ذخائر، فصلیں وغیرہ کھولنے کا یقینی وعدہ ہے۔ ”لفتحنا“پر لامِ تاکید داخل کرنے سے وعدہ مزید یقینی بن گیا ورنہ اللہ پاک کا مطلقاً وعدہ بھی کافی تھا۔ اسی طرح آج جھوٹی عزت کی تلاش میں ہم صبح سے شام تک تمام اسباب بروئے کار لاتے ہیں حالانکہ سچی عزت اور یقینی عزت کا وعدہ اللّہ تعالیٰ نے تقویٰ اختیار کرنے والوں کے ساتھ کیا ہے۔ فرمایا ”انّ اکرمکم عند اللہ اتقاکم ان اللہ علیم خبیر“(الحجرات ۳۱)کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہو۔ گویا کہ تقویٰ اختیار کرنا ہی عزت حقیقی کا سبب ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک جس شخص کی عزت بنتی ہے وہی اصل عزت ہے اور جس چیز کو ہم عزت کہتے ہیں وہ بسا اوقات ذلت ہوتی ہے ظاہراً عزت معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اللہ کی عزت یقینی عزت ہوتی ہے لہٰذا اگر عزت بھی حاصل کرنی ہے تو تقویٰ ہی اس کا سبب ہے اور یقینی سبب ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ اس یقینی سبب کو اختیار کرتے ہوئے یقینی عزت حاصل کریں۔ہم مادی محنت کی کثرت کی وجہ سے ہر چیز کی نسبت مادی اسباب کی طرف کر دیتے ہیں لیکن حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔ ”لفتحنا علیھم برکٰت من السماء والارض“ سے معلوم ہوتا ہے کہ گیس کے ذخائر، تیل کے ذخائر، کوئلہ اور دوسری اہم معدنیات کا تعلق تقویٰ کے ساتھ ہے جو کہ اس کا حقیقی سبب ہے۔ اور سائنس و ٹیکنالوجی ظاہری سبب تو ہے لیکن اس کا اصل محرک حقیقی سبب ہے جو کہ تقویٰ ہے۔ فرد کی ترقی بھی اس میں مضمر ہے اور ریاست کی ترقی بھی۔ جہاں تک اخروی کامیابیوں کی بات ہے تو اس کا تعلق بھی تقویٰ کے ساتھ ہے۔ چنانچہ فرمایا ”ازلفت الجنۃ للمتقین“(الشعراء ۰۹)کہ جنت متقیوں کے قریب کر دی جائے گی۔ اور فرمایا ”ان المتقین فی ظلال وعیون“ (المرسلات ۱۴)کہ بے شک متقین سایوں اور چشموں میں ہونگے۔ اسی طرح فرمایا ”ان المتقین فی جنت و عیون“ (الحجر) ترجمہ: کہ اہل تقویٰ باغوں اور چشموں میں ہونگے۔ اللہ ہم سب کو نصیب فرماویں۔ اور فرمایا ”ان للمتقین مفازا“(النبأ) کہ بے شک متقیوں کے لئے کامیابی کی جگہ ہے۔ ان آیات کے علاوہ بھی سینکڑوں آیات اس بات پر صریح دال ہیں کہ آخرت کی لامتناہی و لامحدود کامیابیاں و کامرانیاں متقیوں کو ملیں گی اور آخرت کا میدان مارنے والے اصل لوگ اہل تقویٰ ہیں۔ جو تقویٰ کا سرمایہ اپنے ساتھ لے جانے میں کامیاب ہوا وہ میدان جیتے گا۔ آئیں سب مِل کر تقویٰ کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا عہد کرلیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

(تعار ف کالم نگار)
نام: رضوان اللہ پشاوری
ولدیت: محمد نثار
تعلیم: فاضل وفاق المدارس العربیہ پاکستان،جامعہ عثمانیہ پشاور،ایف اے
متعلم: تخصص فی الحدیث(جامعہ علوم القرآن)
مدرس: جامعہ علوم القرآن پشاور
پتہ: محلہ اعوان، گاؤں بانڈہ نبّی، علاقہ پبّی، ڈاکخانہ ڈاگئی بانڈہ، تحصیل پبّی ضلع نوشہرہ نزد کامران پبلک سکول
رابطہ نمبر: 0333-9036560/03135920580
ای میل ایڈریس: rizwan.peshawarii@gmail.com

Facebook Comments

مولانا رضوان اللہ پشاوری
مدرس جامعہ علوم القرآن پشاور ناظم سہ ماہی ’’المنار‘‘جامعہ علوم القرآن پشاور انچارج شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ علوم القرآن پشاور

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply