• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ملکی صورتحال؛ آئینی یا اخلاقی بحران؟-ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

ملکی صورتحال؛ آئینی یا اخلاقی بحران؟-ڈاکٹر چوہدری ابرار ماجد

فیصلے عدلیہ کے ہوں، پارلیمان کے یا عوام کے ،وہ  فیصلے ہی ہوتے ہیں اور ان کے اثرات نہ صرف فریقین پر ہوتے ہیں بلکہ فیصلہ کرنے والے پر بھی ہوتے ہیں۔ فیصلوں سے نہ صرف سزا اور جزا کا تعین ہوتا ہے بلکہ ان سے فیصلہ کرنے والوں کی ساکھ کا بھی تعین ہوتا ہے۔ فیصلوں کا  معیار اگر تو انصاف اور اصولوں پر مبنی ہو تو یہ قوموں کی تقدیر کو عروج پر لے جاتے ہیں اور اگر ان کا معیار کچھ اور ہو تو پھر اس سے بڑا قوموں کا زوال کوئی نہیں ہوتا۔

ریاستوں کو احسن طریقے سے چلانے کے لئے ضابطہ جس کو ریاست کا آئین کہا جاتا ہے پر پابندی سے ہی ملکی معاملات کو احسن طریقے سے چلایا جا سکتا ہے اور ان سے انحراف کی صورت میں ملک کا نظام درہم برہم ہونے کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ آج کل وطن عزیز میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کو بظاہر تو آئینی بحران کا نام دیا جا رہا ہے مگر درحقیقت یہ معاملہ آئینی نہیں بلکہ اخلاقی بحران ہے جس کا علاج شائد آئین میں بھی موجود نہیں۔

جس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جن قوموں کا اخلاق اعلیٰ ہوتا ہے وہ روایات کو بھی اپنا آئین سمجھتے ہیں اور اس سے انحراف کو اپنی سیاسی، قومی اور اجتماعی موت سمجھتے ہیں جیسا کہ برطانیہ میں آپ دیکھ سکتے ہیں اور جن کی اخلاقی حالت گراوٹ کا شکار ہو وہ آئینی مسودہ ہونے کے باوجود ہمیشہ اس سے فرار کی راہیں تلاش کرتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے ہمیشہ آئینی مسودے کو ہی بدلنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔

جیسا کہ ہماری تاریخ ہے کہ ہم نے ستر سالوں میں کیسے ضابطے بنائے، ختم کئے اور ان میں تحاریف اور ترامیم کرتے رہے اور آج بھی ہماری سوچ وہیں کھڑی ہے۔ ہم اپنے آئینی اختیارات کو ملک و قوم کی امانت نہیں سمجھتے بلکہ اس کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور پھر اس انا کو آئین کے تابع لانے کے لئے ہمیں آئین و قانون کو بدلنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ جیسا کہ آپ آئینی اصلاحات سے اندازہ لگا سکتے ہیں جس کی ایک کڑی اٹھارویں ترمیم یا پھر آج کل چیف جسٹس کے اختیارات پر قانون سازی ہو رہی ہے۔

اس سارے معاملے کی بنیاد آئین میں کسی قسم کی کمی، بہتری یا اصلاح سے کم بلکہ اور ذاتی خواہشات، مفادات اور ترجیحات سے زیادہ ہے۔ جہاں ہمیں اپنی ضرورت پوری ہوتی ہوئی نظر آتی ہے وہاں ہم آئین کی حکمرانی کی بات کر لیتے ہیں اور جہاں آئین ہماری ضرورت پوری نہیں کر رہا ہوتا وہاں ہم حکمرانی کو ہی آئین بنا لیتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا ہے کہ یہ کوئی آئینی بحران نہیں بلکہ اخلاقی بحران ہے جس کی بنیاد ہماری ذاتی مفادات، خواہشات اور ترجیحات کے گرد گھومتی ہوئی ہماری سوچ ہے جو کہ ہماری اکثریت کی عکاس ہے۔

اور اس سوچ کے حامل افراد جہاں بھی بیٹھے ہوتے ہیں وہ اپنے ذاتی مفادات، خواہشات کو قومی اور ملکی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے فیصلے کرتے ہیں جن کا آئین سے تعلق محض موافقت کی حد تک ہوتا ہے اگر آ جائے تو اس کی بہت خوب ترویج کی جاتی ہے اگر موافق نہ ٹھہر رہا ہو تو پھر کوئی اور راہ نکال لی جاتی ہے۔ جس کی مثالیں مختلف نظریات کی صورت میں آپ کے سامنے موجود ہیں۔ جیسا کہ نظریہ ضرورت اور قوم و ملک سے غداری کی فرضیہ داستانیں وغیرہ وغیرہ۔

موجودہ حالات کو دیکھیں تو آئین میں واضح درج ہے کہ الیکشن نوے دنوں میں ہونے چاہیے جس پر کسی کو بھی اعتراض نہیں ہے مگر اس پر عمل ضد کا شکار ہے۔ اور یہ ضد ایک طرف سے نہیں دونوں اطراف سے ہے بلکہ تینوں اطرف سے ہے۔ تحریک انصاف پنجاب میں الیکشن چاہتی ہے۔ اب اگر سوچا جائے تو ان کو الیکشن کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ پنجاب یا ان دو صوبوں میں حکومت ہی مل سکتی ہے جسے انہوں نے خود اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی بنیاد پر ختم کیا ہے۔ تو اتنی بڑی مشق اور وسائل کے ضیاع کے بعد حاصل کیا ہوگا۔ بلکہ اگلے مرکزی اور دوسرے صوبوں کے الیکشنز میں غیر جانبداری جیسے سوالات جنم لے سکتے ہیں۔

اسی طرح دوسری طرف حکومت بھی الیکشن کروانے میں آئین سے انحراف کرنے کے بندوبست تلاش کررہی ہے جس کی بنیاد ان کی گرتی ہوئی عوامی مقبولیت ہے یا ان کے کچھ معقول جوازات ہوں، بحرحال آئین اس پر شرمندہ ضرور ہو رہا ہوگا۔ اسی طرح عدالت عظمیٰ کے اندر رائے کی تقسیم اور پھر اس پر اختیارات کے بندوبست کے ذریعے سے بنچز بنا کر یہ ضد کرنا کہ ہم مخصوض ججز نے ہی آئین پر عملدرآمد کروانا ہے اور سب کے اعتراضات اور تحفظات کو نظر انداز کرتے ہوئے اور زبردستی آئین و قانون کی خدمت کا تاثر دیتے ہوئے کا منظر نامہ بھی ضد کے خدوخال پیش کر رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر انصاف اور نظام انصاف کی بہتری اور حکمرانی ہی منشا ہو تو پھر بہتر تھا کہ فل کورٹ کے مطالبے کو مان کر تمام فریقین کو سنے جانے کا موقع  فراہم کرنے کے بعد فیصلہ سامنے آتا تاکہ کسی کو بھی انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔ مگر ایسا ہوا نہیں اور اب بہت کچھ ہونے کے  خدشات جنم لے رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنی انا، ضد اور ہٹ دھرمی کو بندوبست کے ذریعے سے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وہی پرانی تاریخ کو دہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو انتہائی قابل افسوس ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply