جون ایلیا کو کسی کی سند کی ضرورت ہے؟-عامر حسینی

ادبی تنقید کسی شاعر کی شاعری پر ہوتی ہے اور ترقی پسند ادبی تنقید بھی شاعر کی شاعری میں ترقی پسند خیالات، جذبات، احساسات اور اظہار کو جمالیاتی سطح پر برتے جانے کا جائزہ لیتی ہے ناکہ وہ شاعر کی ذاتی زندگی کا جائزہ لینے لگ جاتی ہے۔ شاعر اگر اپنی زاتی زندگی میں فسطائیت، رجعت پرستی، موقع  پرستی کا شکار ،اور ظالموں و آمروں کے ساتھ رہتا ہے تو اس کی مذمت سیاسی و سماجی جائزوں میں کی جاتی ہے اور جائزہ بھی بطور شاعر یا ادبی نقاد کے لینے والا نہیں لیتا بلکہ وہ یہ جائزہ ایک سماجی دانشور کے طور پر لے سکتا ہے ۔جون ایلیا کی شاعری میں ترقی پسندانہ خیالات و احساسات و جذبات کی کارفرمائی جمالیاتی سطح پر بہت مہارت سے برتی گئی ہے اور یہ بات بھی درست ہے کہ اُن کی شاعری جمود، سٹیٹس کو کو چیلنج کرنے کے لیے شاک تھراپی کا زیادہ استعمال کرتی ہے وہ تضاد و تخریب کی طرف زیادہ متوجہ کرواتی ہے، جتنا گہرا اور دقیق مشاہدہ جون ایلیا کا ہے جس کا اظہار اُن کی شاعری میں ہوتا ہے اور اکثر شعر سہل ممتنع کی صناعی ہیں اُس کا ذرہ بھر عکس ہمیں فرحت عباس کی شاعری تو دور کی بات اُن کی چند ایک” ادب نُما” اُن چند تحریروں میں بھی نظر نہیں آتا جو میری نظر سے گزری ہیں اور گفتگو میں تو وہ بالکل ہی “پھسڈی” نظر آتے ہیں، بہت ہی پھوہڑ طریقے سے وہ شاعری پر گفتگو کرتے ہیں۔ کاش انھوں نے تنقید کے باب میں   ترقی پسند تنقید میں ہی مہارت حاصل کرنا تھی تو وہ احتشام حسین سید کو پڑھ ڈالتے۔ باقی میں نہیں سمجھتا کہ اُن کی تربیت اُس نہج پر ہوئی ہے اور ذوق ِ ادب اس قدر ترقی یافتہ ہے کہ وہ حسن عسکری، مظفر علی سید، وارث علوی کو سنجیدگی سے پڑھ کر تنقید میں ادبی مسرت لے  سکتے ہوں، جو عام طور پر اچھا فکشن اور اچھی شاعری پڑھنے سے حاصل ہوتی ہے ۔ہمارے ہاں تنقید کے نام پر اکثر سیاسی طرز کی تقریروں کا رجحان زیادہ ہے یا پھر فلیپ نگاری کا چلن زیادہ ہے لوگ ادبی کتب پر ریویوز کو بھی “تنقید” کی صف میں شمار کرنے لگتے ہیں ۔

ہمارے معاصر فکشن نگاروں میں بلند پایہ فکشن نگار علی اکبر ناطق ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اُن کا کثیر فکشن ہر سطح کا ادبی ذوق رکھنے والے قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے اور اُن کی یہ خاصیت اُن کے فکشن کو بلا مبالغہ لاکھوں ادب کے قاری  فراہم کرچکی ہے۔

لیکن کیا یہ امر لازم ہے کہ ایک آدمی جس کو کہانی و قصہ کہنے اور لکھنے پر مہارت ہو وہ ادبی تنقید پر بھی مکمل عبور رکھتا ہوگا؟ یا وہ نظم کا اچھا شاعر ہو اور غزل اوسط درجے کی لکھتا ہو تو کیا یہ لازم ہے کہ وہ شعری تنقید کا بھی شناور ہوگا؟ اور یہ بھی ہرگز لازم نہیں ہے کہ اُس کی  کلاسیکل اردو شاعری یا بعد والی شاعری کے بارے میں کہی ہر بات مستند ٹھہرائی جائے؟ علی اکبر ناطق اردو فکشن اور شاعری پر ادبی تنقید کے نام سے جو باتیں کرتے ہیں یا لکھتے ہیں وہ فکشن و شاعری کی بجائے صاحبِ  فکشن یا شاعر کی ذاتی زندگی اور اُن کا دوسروں سے معاملات بارے اُن کے ذاتی تاثرات پر مبنی ہوتے ہیں جن کو ہم کم از کم “ادبی تنقید” قرار نہیں دے سکتے۔

وہ اپنی تحریروں میں اکثر آغاز شعر و ادب کی بات سے کرتے ہیں اور اس دوران فری سٹائل ریسلنگ کی طرح لیفٹ، رائٹ، کمیونزم، سوشلزم، کیپٹل ازم، الحاد، فیمن ازم اور سیاست حاضرہ اور تو اور مذہب اسلام اور اس کی بڑی تقسیم شیعہ – سُنی اور سُنی اسلام کے ذیلی فرقوں بارے بھی اپنی “ماہرانہ رائے” کا اظہار کرتے  چلے جاتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ اس میدان کے آدمی ہی نہیں ہیں اور اکثر اُن کے لکھے یا کہے جملے اور اظہار رائے بہت ہی غیر ماہرانہ انداز کی ہوتی ہے، تو میرا اس معاملے میں مشرب یہ ہے کہ جب کسی اچھے فکشن نگار یا شاعر کا تاریخ و سماجیات و مذہبیات اور ادبی تنقید میدان ہی نہ ہو اور نہ ہی ان میدانوں کے اندر اُس کا کوئی تخلیقی مہارت والا کام موجود ہو تو ایسے میں اُس میدان میں اُس اچھے فکشن و شعر لکھنے والے شخص کی رائے کا اعتبار بھی نہیں ہوگا اور نہ ہی اسے اہمیت دی جائے گی لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہوگا کہ فکشن یا شاعری میں اُس کے مقام و مرتبے سے بھی انکار کردیا جائے۔ناطق صاحب تو پھر بہت ہی زبردست فکشن نگار اور اچھے شاعر ہیں اور اس میں بھی شک نہیں بہت وسیع المطالعہ بھی ہیں، ہمارے فرحت عباس شاہ تو شاعری کے میدان میں بھی بہت پیچھے ہیں اور اُن سے منسوب جو مشہور غزل ہے اُس بارے یہ بات پایہ ء ثبوت کو پہنچ چکی کہ وہ جھنگ کے کسی مظلوم کی لکھی ہوئی ہے اور دیگر علوم میں بھی اُن کا مطالعہ نظر نہیں آتا، تنقید کے تو وہ آدمی سِرے سے لگتے ہی نہیں ہیں تو اُن کی اس میدان میں ساری باتیں ساقط الاعتبار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پس نوشت: میرے ایک دوست کہنے لگے کہ بابا! ہم تو سمجھے تھے فرحت عباس جیسا متشاعر عابد حسین عابد جیسے سکہ بند شاعر اور ادبی تنقید میں تقابلی طریقہ کار پر عبور رکھنے کی بھرپور صلاحیت کے مالک کی صحبت میں رہ کر ادب و تنقید ادب میں طاق ہوگئے ہوں گے اور اب ان کی زنبیل سے اور کچھ نہیں تو درجن بھر اچھے شعر ہی برآمد ہوجائیں گے لیکن یہ صحبت بھی اُن کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply