قصور اپنا نکل آیا/ڈاکٹر اظہر وحید

گزشتہ ہفتے کچھ ہوا یوں کہ شائع شدہ کالم پر اچانک نظر پڑی، دیکھا کہ کالم کے آخری تین پیراگراف شاملِ اشاعت ہونے سے رہ گئے۔ میں نے جھٹ فون اٹھایا اور برادرم زاہد رفیق کو شکایت سے بھرپور کال دے ماری ،بس سامنے نہیں تھے وگرنہ لغوی اور معنوی دونوں معنوں میں ایسا ہی معلوم ہوتا۔ وہ بھی حیرت ناک بلکہ غضب ناک کہ ایسا کبھی ہوا نہیں، کہیں یہ سب کچھ کلیریکل سٹاف کی کوتاہی یا پھر اپنے اختیار سے حدِ تجاوز کا شاخسانہ نہ ہو۔ بہرطور کچھ ہی دیر بعد فون موصول ہوا کہ آپ اپنی ارسال شدہ ای میل چیک کریں اور اس میں دیکھیں، ہمیں آپ کی طرف سے جو بھی موصول ہوا، من و عن لگا دیا گیا تھا۔ دیکھا کہ واقعی ایسا تھا، ہم ہی سے جلدی میں نامکمل فائل منسلک ہو گئی تھی۔

اب معاملہ یہ تھا کہ موضوع انتہائی دقیق تھا، گذشتہ دو ہفتوں سے یہی موضوع زیرِ تحریر تھا اور قارئین اس خیال کے ساتھ چل رہے تھے۔ زندگی کا مضمون ہو یا کالم کا، بس آخری مدت، آخری پیراگراف اور آخری لمحات ہی اہم ہوتے ہیں، اسی میں فیصلہ ہوتا ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں۔ مذکورہ مضمون عرفِ عام میں ”مسلمانوں کے زوال کے اسباب“ کے موضوع پر ایک سوال کے جواب میں تھا۔ آخری چند پیراگراف علیحدہ ہونے سے بادی النظر میں ایسا معلوم ہونے کا احتمال ہو گیا جیسے ہم معاذاللہ کسی سکیولر نظریے کو فروغ دینے میں کوشاں ہیں۔ اب لازم ٹھہرا کہ گزشتہ مضمون کو مکمل کیا جائے۔ اب اس نادانستہ غلطی کے سبب ہمیں اس موضوع پر مزید خامہ فرسائی کا موقع بھی مل گیا۔ مالک کا فضل شامل ہو تو سیئات یوں حسنات میں بدل جاتی ہیں۔

عجب واقعہ ہے، ہمارے ساتھ وہی واقعہ ہوا جو مذکورہ مضمون میں زیرِ بحث تھا۔ یعنی
میں الزام اس کو دیتا تھا، قصور اپنا نکل آیا

ایک عرصے سے ہم پڑھے لکھوں کا یہ شیوہ ہے ۔۔ ”مسلمانوں کے زوال کے اسباب“ پر بحث مباحثہ کرنا، مذاکرے کرنا، تقریریں جھاڑنا، تحریریں سمیٹنا، اپنا گھر ٹھیک کرنے کی نشاندہی کرنا۔۔ اور پھر سرشام اپنے اپنے گھر لوٹ آنا اور اگلی صبح اسی بے ڈھنگی چال پر زندگی شروع کر دینا۔ بڑی سے بڑی زیارت اور شخصیت کا تعارف بھی ہماری زندگی کے شب و روز پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ ہر روز کم و بیش لاکھوں لوگ عمرہ کرتے ہیں، مجھ سمیت کتنے ہیں جن کے لیے عمرہ ان کی عمر بھر کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتا ہے؟

زمانہ طالبعلمی کی بات ہے، ان دنوں کشمیر کے مسلمانوں پر ہندوؤں کے ظلم و تشدد کی ایک تازہ لہر برپا تھی۔ میڈیا اسے ہر روز رپورٹ کر رہا تھا۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کی خدمت میں حاضری کے دوران میں عرض کیا، مجھے مسلمانوں پر ظلم کے واقعات دیکھ کر بہت ڈپریشن ہو رہی ہے۔ آپؒ نے کچھ دیر توقف کے بعد فرمایا ”آج صبح کا ناشتہ کیا تھا؟“ میں نے عرض کیا، جی ہاں! آپؒ نے پوچھا ”رات کو سو گئے تھے؟“ میں نے پھر اثبات میں سر ہلایا۔ آپؒ کہنے لگے، پھر یہ تمہارا مسئلہ نہیں۔ سچ پوچھیں تو مجھ ایسے ”حساس“ دانشور کو دل ہی دل میں بڑی خجالت محسوس ہوئی۔ واقعی ہم نے مسلمانوں کے زوال کے اساب پر غور و فکر کو ایک ذہنی مشق اور تعیشِ دانش بنا لی ہے۔ ہم زوال کے اسباب گن لینے کے بعد بڑے سکون سے سو بھی جاتے ہیں اور صبح ناشتہ بھی فوڈ سٹریٹ میں کرتے ہیں۔ جس کا بچہ بیمار ہو، اسے نیند کیسے آ سکتی ہے؟

ایک بار محفل میں اسی موضوع پر کسی نے سوال کیا تو مرشدی حضرتِ واصفؒ کہنے لگے ”پہلے ایک واقعہ سن لو! کچھ لوگ اکٹھے ہوئے کہ تحقیق کریں، مسلمانوں کے زوال کا سبب کیا ہے، انہوں نے کافی ”تحقیق“ کے بعد یہ اعلان کیا کہ مسلمانوں کے زوال کا سبب اسلام ہی ہے۔ دیکھو! تم کہیں ایسی تحقیق نہ لے آنا“

ہم بالعموم اس موضوع کو ”شکوہ“ سے شروع کرتے ہیں اور ”جوابِ شکوہ“ پر پہنچنے سے پہلے پہلے اسے ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو لوگ جوابِ شکوہ تک پہنچ جاتے ہیں، وہ بھی حضرت اقبالؒ کی پُر شکوہ شاعری سے کچھ دیر کے لیے محظوظ ہونے کے بعد سمجھتے ہیں گویا انہوں نے اپنے حصے کا فرض ادا کر دیا ہے۔ ملت کی کشتی بیچ منجدھار اسی طرح گھومے چلی جاتی ہے۔ کشتی میں سوراخ گننے والے لوگ زیادہ ہیں اور ان سوراخوں کو پُر کرنے کی سعی میں مصروفِ عمل لوگ خال خال۔ وہ لوگ کم ہیں جو اس وقت کام کرتے ہیں جب دوسرے سو رہے ہوتے ہیں۔ رحمٰن کے بندے ہونے کا دعویٰ مجھ سمیت سبھی کو ہے، لیکن عباد الرحمٰن سے مختص کردار اپنانے والے کہاں ہیں ۔۔سنتے ہیں کہ قومیں کردار سے بنتی ہیں۔ ہم خیال لوگ اپنی اپنی تنظیم سازی میں مصروف ہیں، اپنی جماعتوں، فرقوں اور مسلکوں کو فعال بنانے کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کی تعداد اتنی ہے کہ بڑے سے بڑا جلسہ کیا جا سکتا ہے، لیکن امت کے لیے سوچنے والے، اور امت کی بہبود کے لیے کام کرنے والے نایاب ہیں …… بلکہ دُرّ نایاب!

یہ روش بھی درست نہیں کہ اپنے زوال کا دوش غیروں کے عروج کو دیا جائے۔ اپنی پس ماندگی و درماندگی کو ہنود و یہود کی سازش قرار دے کر خود کو نردوش قرار دیا جائے۔ غیر سے شکوہ عبث ہے۔ غیر اس لیے غیر کہ وہ ہمیں غیر سمجھتا ہے …… وہ ہمیں مٹانے کے درپے ہے۔ غیر اپنا کام کیے جائے گا، سوال یہ ہے کہ ہم نے کیا کام کیا ہے۔

القصہ! زیرِ بحث موضوع میں آخری موڑ یہی تھا کہ ہم دنیاوی ترقی اور زوال کو اسلام سے اس طرح جوڑنے کی کوشش نہ کریں کہ اگر زوال میں ہیں تو گویا اسلام سے دور   ہیں اور اگر دنیاوی عروج اور طاقت میں ہیں تو گویا اسلام کے قریب ہیں۔ سڑکیں ٹھیک کرنے کے لیے، پل تعمیر کرنے کے لیے، کارخانے بنانے کے لیے مروجہ مادی علوم کے کلیات کی طرف رجوع کیا جائے۔ زندگی کے مختلف شعبوں میں قابلیت میں کمی کی وجہ اپنے اعتقادات اور عبادات سے منسوب نہ کی جائے۔

یہ موضوع الگ ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے، اور بحیثیت دینِ فطرت ہم اگر دنیاوی ترقی کے کلیات بھی تلاش کریں تو یہ کلیے بھی ہمیں اسلام کے بنیادی نصاب میں مل جاتے ہیں، لیکن سائنسی اور دنیاوی ترقی دین کا بنیادی موضوع نہیں۔ دین کا اصل موضوع اُخروی فلاح ہے، اپنے باطن کی آبادی ہے، نفس کا تزکیہ، قلب کا تصفیہ اور روح کا تجلیہ ہے۔ اسلام ہمیں ہماری قبر کے روشن ہونے کی گارنٹی ضرور دیتا ہے۔ گھر کی روشنی کے لیے ہمیں واپڈا ہی کا منّت پذیر ہونا پڑے گا۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ہی مذہب کے ماننے والے ایک جگہ خوشحال ہیں اور دوسری جگہ پس ماندہ۔ مسیحی لوگ شمالی امریکہ و یورپ میں ترقی یافتہ ہیں اور جنوبی امریکہ و افریقہ میں پس ماندہ۔ بدھسٹ لوگ برما میں پس ماندہ ہیں اور تھائی لینڈ میں ترقی یافتہ۔ ایک ہی نسل، زبان اور مذہب کے پیروکار شمالی کوریا اور جنوبی کوریا میں ترقی کا فرق بعد المشرقین ہے۔ ملائیشیا اور ترکی کے مسلمان نسبتاً ترقی یافتہ ہیں اور ہم ایسے ملکوں میں پس ماندہ۔ کیا اِس کا مطلب یہ لیا جائے گا کہ ملائیشیا اور ترکی والے ہم سے بہتر مسلمان ہیں؟ کیا گلف میں تیل نکل آنے کی وجہ اُن کی عبادات کا ابل پڑنا ہے۔ کیا ستر ایک برس قبل وہ عبادات میں کمزور تھے؟

باب العلم حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا یہ قولِ برحق قابلِ غور ہے کہ انصاف پر مبنی کفر کی حکومت تو چل سکتی ہے لیکن ظلم پر قائم مسلمان حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ یہ قول ہماری فکر کی راہ متعین کرتا ہے۔ قوموں کے عروج و زوال کا تعین ہمیں اُن فطری قوانین میں تلاش کرنا چاہیے جو سب اقوام کے لیے ایک کھلی کتاب کی طرح قابلِ مطالعہ ہیں۔ قوموں کی ترقی کا راز اُن کے سیاسی، سماجی اور تعلیمی اداروں کی ترقی و استحکام سے مشروط ہے۔ جو لوگ بھی اپنے ہاں عدل و انصاف اور تعلیم و تحقیق کا خصوصی اہتمام کریں گے، بلاتخصیص مذہب و ملّت ترقی کریں گے۔ کائنات عدل کے اصول پر قائم ہے، یہاں عدل قائم کرنے والے معاشرے ہی قائم و دائم رہتے ہیں اور دوسرے معاشروں کے لیے قابلِ تقلید ٹھہرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ مسلمانوں کا عروج اِسلام کا عروج نہیں اور مسلمانوں کا زوال اسلام کا زوال نہیں۔ قرآن ہمیں کھول کھول کر یہ درس دیتا ہے کہ مادّی ترقی و خوشحالی کا نام عروج نہیں اور مالی تنگدستی و مصائب باعثِ زوال نہیں۔ عروج اور زوال، بلندی اور پستی کے جب تک دینی و باطنی معانی متعین نہ کر لیے جائیں، یوں کھلے بازار قومِ رسولِ ہاشمیؐ کا تقابل اقوامِ مغرب سے نہ کرنا چاہیے!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply