ڈی چوک کا تھیٹر/سیّد محمد زاہد

بہت سی فلمیں ہیرو نہیں ولن کے ڈائیلاگ کی وجہ سے مقبول ہوئیں۔ مولا جٹ بہت بڑا نام ہے، لیکن نوری نت کا سوہنیا نہ ہوتا تو فلم سو فی صد فلاپ تھی۔ مسٹر انڈیا کا ‘موگیمبو خوش ہوا’ تو فلم کامیاب ہوئی۔ کامیابی کی ایک اور علامت ماردھاڑ اور خونی مناظر کے ساتھ مخالف کی عزت خاک میں ملانے والے جملے بھی ہیں۔ اب تو مکالموں میں گندی گالیاں بھی بےدھڑک استعمال ہو رہی ہیں۔

جس سٹیج ڈرامے میں ہیرو یا خصوصی طور پر ہیروئین کی ٹکا کر بے عزتی کی جاتی ہے، وہی ہٹ ہوتا ہے۔ بلکہ ہمارے سٹیج ڈرامے تو صرف گندی جگتوں کے سہارے ہی چلتے ہیں۔ جگتیں بھی زیادہ تر وہ مقبول ہوتی ہیں جن میں انسانیت کی توہین کی جاتی ہے۔

تقریباً تمام پرانی فلموں میں ہیرو کے ساتھ ایک کمی بھی موجود ہوتا تھا جس کی موقع بہ موقع بےعزتی کرکے عوام کو محظوظ کرنے کی کامیاب کوشش کی جاتی تھی۔

ایک سٹیج فنکار سے پوچھا گیا کہ یہ گندے گندے ڈرامے کیوں مقبول ہوتے ہیں؟ اس کا جواب بہت سی باتوں کو واضع کر گیا۔
کہنا تھا، ”ہمارے چاہنے والے وہ ہیں جو شاہی قلعے کی دیواروں کے سائے میں شام کو کشتی دیکھ کر، ہیرا منڈی میں ‘داند کے پتالو’ کا ٹکا ٹک کھا کر، ٹبی گلی اور گلی سبز پیر کے خستہ و بوسیدہ مال سے منہ کالا کرکے بھڑکیں مارتے، گھر سدھارتے تھے۔۔اکھاڑے اور منڈی اجڑ گئی تو وہ اسی لذت کام و دہن کو ڈھونڈنے ہمارے ہاں آجاتے ہیں۔” (یہاں کام کا مطلب کام شاستر والا لیا جائے۔)

آج بھی جب کھیلوں کو تہذیب کے دائرے میں لانے کے لیے بہت سے قوانین بنائے جا چکے ہیں، کشی ہو یا کبڈی وہی میچ زیادہ مقبول ہوتا ہے جس میں تھپڑ اور مار دھاڑ زیادہ ہو۔ ہر میچ میں جذبات کو بھڑکانے کے لیے ڈھول اور پہلوانوں کا ایک ٹانگ اٹھا کر کیا جانے والا ڈانس بھی قبولیت کا معیار ہے۔

کرکٹ شرفاء اور نوابوں کا کھیل تھا۔ پانچ دن چلتا رہتا تھا۔ لوگ ظہیرعباس کی ایک خوبصورت کور ڈرائیو اور کلائیو لائیڈ کے دو چار کٹ اور فلکس دیکھنے کے لیے پورا پورا دن بیٹھے رہتے۔
باؤنسر کروانے والے بالر کو برا گردانا جاتا اور اگر ایک کے بعد دوسرا بال بھی اچھل جاتا تو بالر معذرت خواہ ہوتا۔ آخری کھلاڑی پچ پر ہوتے تو فاسٹ بالرز کو روک لیا جاتا یا وہ آہستہ آہستہ باؤلنگ کرواتے جیسے بچوں کو کھیل سکھایا جا رہا ہو۔
پھر تیز کھیل دیکھنے والے شوقین حضرات کے لیے ون ڈے میچ شروع ہوئے اور اب ماردھاڑ کا چسکا ٹی ٹونٹی لے آیا۔ کرکٹ گئی بھاڑ میں، اب ٹلوں کا کھیل دیکھیں اور بیس اوورز میں 480 کا سکور بھی۔

باکسنگ کوآج بھی ظالمانہ کھیل کہا جاتا ہے لیکن بات آگے بڑھی اورریسلنگ آئی۔ WWE نے ریسل مینیا WresetleMania کے نام پر گلیڈی ایٹرز والا پاگل پن متعارف کروا دیا۔ گلیڈی ایٹرز صرف روم و یونان کا شوق نہیں تھے ادھر ہمارے ہاں سرگودھا میں بھی غلاموں کو بھوکے سوروں سے لڑنے کے لیے میدان میں چھوڑا جاتا رہا ہے۔

سیاست شرفاء کا کام رہا ہے۔ ٹھنڈے دماغ اور سوچ کا مالک ہی قوم کی قیادت کا فریضہ صحیح طریقے سے نبھا سکتا ہےْ۔ لیکن لوگ تو گالی گلوچ اور مار دھاڑ پسند کرتے ہیں۔ سو پھر یہی ریسلر اور ریسلنگ کروانے والے سیاست میں آ وارد ہوئے۔ یہاں بھی ان کا طریقہ کار وہی رہا اور ان کے پیروکار بھی وہی ہوئے جو کشتیاں دیکھ کر محظوظ ہوتے تھے۔

ڈونلڈ ٹرمپ WWE کا حصّہ دار ہے اور کئی قسم کے ریسلنگ کے کردار بھی نبھاتا رہا ہے۔

وہ کامیاب بزنس مین ہے۔ ریسلنگ کا ڈرامہ کامیابی سے کروا رہا ہے۔ ارب پتی لوگوں کی ریسلنگ میں خود حصہ لیا اور مخالف میک موہن کو ہرا کر اس کا سر مونڈ دیا۔ سیاست میں بھی وہی طریقے لے آیا۔ عوام کو تو مار دھاڑ پسند ہے۔ اس نے سیاست میں ریسلنگ والا پاگل پن متعارف کروایا اور الیکشن ہارنے کے بعد لڑائی پر اتر آیا۔ اپنے ہی وائس پریزیڈنٹ کو مارنے کا نعرہ لگا دیا اور حامیوں سے کیپیٹل ہل پر چڑھائی کروا دی۔

ساری برائیاں بدرجہ اتم موجود ہیں اور ان پر فخر بھی کرتا ہے۔ پورن اداکارہ کو رقم دے کر چپ کراوایا۔ عدالت نے بلایا تو حامیوں کو جمع کر لایا۔

یہی سیاست آج کل پاکستان میں بھی چل رہی ہے۔ پہلے صرف فاسٹ بالر باؤنسر مار رہا تھا اب بیٹسمین بھی ہک کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ٹلے مارے جا رہے ہیں۔ بالر کہتا تھا کہ یہ چور ڈاکو لٹیرے ہیں۔ پانچ سو بندوں کو پھانسی دے دیں تو ملک سدھر جائے گا۔ اب حکومتی گلیڈی ایٹرز بھی للکارنا شروع ہو گئے ہیں کہ وہ رہے گا یا ہم۔
لگتا ہے کہ ملک میں ریسل مینیا چل رہی ہے۔ شاہی قلعہ کی دیواروں کے سائے میں کشتی دیکھنے والے سیاست کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ ڈھول بج رہا ہے سب نے ایک ایک ٹانگ اٹھائی ہوئی ہے اور بھنگڑا جاری ہے۔ ڈی چوک کے تھیٹر میں بھی سٹیج ڈرامہ شروع ہو چکا ہے۔ پنجابی فلم کی بڑھکیں سننے کو مل رہی ہیں۔ ملکہ جذبات کے آنسو بھی چھلک آئے ہیں۔ اب نوری نت سوہنیا سوہنیا پکارے گا اور موگیمبو خوش ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

روزانہ شام ‘ایڈیٹ باکس’ پر جگتیں سننے کو ملیں گی۔
عوام تو اس کو پسند کرتے ہیں جو رونق لگائے۔

Facebook Comments

Syed Mohammad Zahid
Dr Syed Mohammad Zahid is an Urdu columnist, blogger, and fiction writer. Most of his work focuses on current issues, the politics of religion, sex, and power. He is a practicing medical doctor.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply