“پیدل تبلیغی سفر” – ایک عمدہ کتاب

قوم جشنِ میلاد منانےمیں مصروف تھی جب ہم ایک تبلیغی جماعت کی نصرت کے لیے جامع مسجد باگڑ سرگانہ پہنچے۔ جماعت کے احباب سے گفتگو کے دوران قریب ہی رکھی ایک کتاب پر نظر پڑی جس کا نام تھا: پیدل تبلیغی سفر – مراکش سے حجازِ مقدس تک۔ چونکہ تبلیغ والے احباب اس قسم کی دستاویزات کی اشاعت میں دلچسپی نہیں رکھتے لہٰذا عنوان خاصا منفرد سا محسوس ہوا۔ جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ کتاب اسی جماعت میں شامل حافظ صفوان صاحب کو بطورِ تحفہ موصول ہوئی ہے۔ سرسری سا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ پہلے سے تبلیغی جماعت کے ساتھ چلنے والے حافظ صاحب کی نسبت ہم اس کتاب کے زیادہ مستحق ہیں کہ شاید اس کے مطالعے کی برکت سے خود کو اللہ کے راستے میں نکلنے پر آمادہ کر پائیں۔ یہ سوچ کر کتاب کو مومن کی گمشدہ میراث کی طرح بغل میں دبایا اور حافظ صاحب کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے ساتھ لے آئے۔
اس کتاب کے مصنف جناب محبوب علی شیخ ہیں جنھیں جوانی میں ہی اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کے کام سے وابستہ ہونے کی سعادت عطا فرمائی۔ آپ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور کچھ عرصہ انجینئرنگ یونیورسٹی میں پڑھانے کے بعد محکمہ ٹی اینڈ ٹی میں ملازمت اختیار کی اور 2002ء میں بطور ڈائریکٹر جنرل ریٹائر ہوئے۔
یہ کتاب تین پہلوؤں سے منفرد ہے۔
1۔ سیر و سیاحت: ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جب سیاحت محض ایک مشغلہ نہیں رہی بلکہ بہت سے ممالک میں سیاحت ایک قابلِ ذکر معاشی سرگرمی جب کہ کئی ممالک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ سیاحتی سرگرمیوں کی روداد اور سفرنامے باقاعدہ ایک ادبی صنف کا مقام حاصل کرچکے ہیں۔ چنانچہ ہر سال یورپ اور امریکی سے بالخصوص اور دنیا بھر سے بالعموم لاکھوں لوگ مختلف ممالک کی سیاحت کے لیے نکلتے ہیں اور سفر، مہم جوئی اور قدرتی مناظر سے سکون اور مسرت کشید کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
قرآنِ کریم نے بھی متعدد مقامات پر زمین کی سیر کی ترغیب دی گئی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ اس سیر و سیاحت کو ایک بامقصد سرگرمی بنایا ہے۔ سورۃ الروم آیت 42، سورۃ العنکبوت آیت 20، سورۃ النمل آیت 69، سورۃ الحج آیت 46 اور سورۃ التوبہ آیت 122 کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم نے سیر و سیاحت کو عبرت، علم اور معرفتِ خداوندی کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے۔ کتابِ مذکور کے دیباچہ میں ڈاکٹر عبد الغنی فاروق لکھتے ہیں کہ:
قرآنِ پاک سے اور دعوت و تبلیغ کی تاریخ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام سیر و سفر عبرت اور دعوت کا وسیلہ بناتا ہے۔ یعنی سفر اس لیے کیا جائے کہ تباہ شدہ گمراہ قوموں کے آثار کو دیکھ کر انسان عبرت حاصل کرے۔ ثانیًا یہ کہ بندگانِ خدا تک خدا کا پیغام پہنچایا جائے۔ چنانچہ بےشمار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کو دوسری قوموں تک پہنچانے کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور سفر کی غیر معمولی دشواریوں کے باوجود دور دراز ملکوں تک پہنچے اور اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ان قدسی صفت حضرات کی جد و جہد سے افریقہ، وسطِ ایشیا، یورپ اور چین تک اسلام کا پیغام پہنچا اور لاکھوں کروڑوں افراد دینِ حق کے پرچم تلے آگئے اور دنیا ایک بہت ہی مبارک انقلاب سے روشناس ہوئی۔
ایسے میں کئی ممالک کے پیدل سفر کی یہ روداد یقینًا سیاحت اور سفر ناموں کے شائقین کی دلچسپی کا محور ہوگی جس میں بہت سے مقامات پر مختصراً علاقے کے طبعی خد و خال اور قدرتی مناظر کی عکاسی کے ساتھ ساتھ پیش آنے والے واقعات کی بھی منظر کشی کی گئی ہے۔ چند سطور ملاحظہ ہوں:
نسیمِ صبح کے ٹھنڈے جھونکے، پہاڑوں کی سرسبزی، کھیتوں کا لہلہانا، درختوں کا جھومنا، آب جوؤں کی روانی اور اس پر مستزاد عبد اللہ سکنی (ایک مراکشی دوست) کا اپنے لحنِ داؤدی میں قرآنِ پاک کی تلاوت جس میں جنت کی سدا بہار نعمتوں کا ذکر، وہاں کے میووں کا جھکنا، وہاں کے حسن و جمال کا کمال، وہاں کی نہروں کی روانی، محلات و مساکن کی خوبصورتی، اللہ پاک کی مہمانی، فرشتوں کا سلام، سرمدی لذتوں کا ذکر عجیب سرور پیدا کرنے لگا۔
مسجد قرطبہ آمد کے حوالے لکھتے ہیں:
موقع پاکر محراب میں دو دو نفل ادا کیے اور بارگاہِ ایزدی میں دعا کی کہ اپنے اس گھر کو دوبارہ اعمالِ نبوی ﷺ سے معمور فرمائے۔ مسجد کے اونچے مینار پر چڑھ کر ایک نومسلم بھائی نے اذان دی۔ اسی جگہ جرسِ کلیسا لٹک رہی تھی۔

2۔ تبلیغی جماعت عمومًا ٹیکنالوجی اور تشہیر کا کاندھا استعمال کرنے سے گریز کرتی ہے۔ ابلاغ و تشہیر کے حوالے سے ان کا نظام شاید دنیا بھر میں منفرد ہی نہیں بلکہ موثر ترین بھی ہے کہ شبِ جمعہ کی دعوت ہو یا رائے ونڈ کے اجتماع کی، ان کی طرف سے ہمیشہ کوئی فرد ہی دوسرے فرد تک دعوت لے کر پہنچے گا۔ یہاں سب سے زیادہ زور اپنی ذات کی تربیت اور عمل پر دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ کبھی اپنے دعوتی و تبلیغی کارناموں کے اعداد و شمار اور ان کی تاریخ میں نہیں الجھتے۔ یہی وجہ ہے کہ خود تبلیغی جماعت کے بڑوں کے ہاں کی عالمی سطح پر کام کے آغاز کی تاریخ اور اولین کارکنوں کی محنتوں، قربانیوں اور پیش آنے والے مسائل کے حوالے سے عینی شاہدین یا دیگر حوالوں سے زبانی تذکرے تو ملتے ہیں مگر عام طور پر انھیں دستاویزی شکل میں شائع کرانے کا اہتمام نہیں کیا جاتا۔ مصنف کو چونکہ اللہ نے جوانی میں ہی اس محنت کے لیے قبول فرما لیا تھا چنانچہ اس حوالے سے وہ بہت سے حالات و واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ یہ کتاب اس حوالے سے ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ چند سطور ملاحظہ ہوں:
لہٰذا 1975ء میں ایک جماعت انگلینڈ سے حجاز مقدس کے لیے روانہ ہوئی۔ اس جماعت کے امیر (ر) میجر جنرل حق نواز صاحب تھے۔ یہ جماعت انگلینڈ، فرانس، بیلجئم، جرمنی، آسٹریا، یوگوسلاویہ، بلغاریہ تک پیدل چلی۔ اس جماعت کی کارگزاری بہت ہی حوصلہ افزا تھی۔ یورپ میں اس جماعت کا بڑا چرچہ ہوا۔ اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں کثرت سے تذکرے آئے۔ یہاں تک کہ ایک اخبار نے لکھا کہ یورپ پر اسلام کے بادل منڈلا رہے ہیں۔
اپنے اس طویل سفر کے اختتام پر جب جماعت حج پر پہنچی تو مکہ مکرمہ میں جنوبی افریقہ کے وہی آرکیٹیکٹ دوست احمد صاحب جو ہمیں میڈرڈ میں ملے تھے، سے ملاقات ہوگئی۔ انھوں نے بتایا کہ (دورانِ سفر ان کے ملک میں) ہمارے غیر مذبوح گوشت کو نہ کھانے کے واقعہ کی مسلمان حلقوں میں اتنی تشہیر ہوئی کہ اب میڈرڈ کے مسلمانوں نےحلال گوشت کا انتظام شروع کر دیا ہے۔

3۔ میری رائے میں، بظاہر روزنامچہ/ ڈائری کا رنگ لیے ہوئے یہ کتاب دراصل عشقِ حقیقی کی طویل داستان سے ماخوذ ایک باب ہے جس میں بیان ہے ان اہلِ دل کا جو گھربار اور روزگار چھوڑ کر خار زارِ عشق میں اس شان سے داخل ہوتے ہیں کہ دل و دماغ سے اپنی ہستی کا نقش مٹ چکا ہے اور اس کی جگہ وہ غم لے چکا ہے جو ہادیِ برحق ﷺ کی میراث ہے، یعنی امت کے غفلت و معاصی کی دلدل میں دھنس جانے کا غم۔ ان کے دل و دماغ پر ایک ہی دھن سوار ہے کہ کسی طرح یہ امت کے ایک ایک فرد تک پہنچ کر اس کا تعلق اپنے شاندار ماضی سے جوڑ دیں۔ یہ اپنی دھن میں اس قدر مگن ہیں کہ حالات کچھ بھی ہوں، انھیں اس کے علاوہ کسی اور چیز کا خیال ہی نہیں۔ خیال ہے تو بس ایک چیز کا، کہ امت کی بھولی بسری میراث کی یاد دہانی کی آواز جو لگ رہی ہے، کسی طرح وہ ہر فرد تک پہنچ جائے۔ مسجد میں، محفل میں اور سرِ راہ تو یہ آواز لگاتے ہی ہیں، مگر حد یہ ہے کہ تفتیش کے لیے پولیس ہیڈ کوارٹر لے جائے جائیں تو بھی اپنی گلو خلاصی کا معاملہ مالکِ ارض و سمٰوات کے سپرد کرکے خود وہاں موجود لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کی فکر کرتے ہیں۔ کوئی عالم/ محدث ان کی نقل و حرکت کو بدعت کہیں تو ان کے درس میں بلاتکلف جا شریک ہوتے ہیں اور بعد ازاں اپنی کارگزاری پیش کرکے دعاؤں کا ذخیرہ سمیٹ کر لوٹتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یقین اور لگن کا یہ امتزاج ششدر کر دینے کو کافی ہے کہ کیا آپ مسلمان ہیں؟ کے جواب میں No کہا جائے تو یہ Not yet تجویز کرتے ہیں۔ مگر اس سفر نامے میں ایک اور خوفناک حقیقت یہ بیان کی گئی ہے کہ مسلم اکثریت والے ممالک میں اس جماعت کو داخلے کی اجازت نہ ملتی تھی یا طرح طرح کے مسائل کا سامنا تھا جب کہ غیر مسلم ممالک میں ان کی نقل و حرکت پر کوئی پابندی نہ تھی بلکہ ان کو ہر طرح سے آرام و سہولت دینے کو اپنا اعزاز سمجھا جاتا تھا۔

Facebook Comments

عین ضیاء
معلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”“پیدل تبلیغی سفر” – ایک عمدہ کتاب

Leave a Reply