عدلیہ آزاد کیسے ہو؟ -عامر حسینی

ایس ایم ظفر جن کے بیٹے علی ظفر ہیں یہ دونوں باپ بیٹے قانون کی دنیا میں اُس روایت کے پیرو ہیں جسے “نظریہ ضرورت” کی روایت کہہ سکتے ہیں جو جسٹس منیر نے شروع کی تھی اور اس روایت کا مقصد آمریت کو جواز اور دوام فراہم کرنا تھا اور ہر قانون و ضابطے کی آمروں کے مفادات کے مطابق تشریح و توضیح فراہم کرنا تھا- یہاں تک کہ اپنے مفادات کے مطابق اگر انتہائی سنگین اخلاقی جرائم میں ملوث مجرموں کو بھی بچانے کا معاملہ ہو تو اُس کی سبیل بھی نکال لی جائے –

ہماری عدلیہ میں نظریہ ضرورت کی باقیات رکھنے والے قاضی شریح ہمیشہ سے موجود رہے ہیں اور وہ ہمیشہ سے عوامی جمہوری مفادات پر آمروں کے مفادات کو ترجیح دیتے رہے ہیں ۔آج کی عدلیہ بھی ایسے ہی قاضی شریح کے نرغے میں ہے ۔

ایس ایم ظفر ایڈوکیٹ کا بیٹا نظریہ ضرورت کے تحت کام کرنے والے ججز کے ایک ٹولے کے لیے خدمات سرانجام دے رہا ہے جیسے اُس کا باپ سرانجام دیتا رہا – اُس کے باپ کا اُس وقت کے آمر ضیاء الحق کو لکھا گیا ایک خط نظریہ ضرورت کے تحت اور تاریخ کے جبر کے نتیجے میں ہماری عدالتی اسٹبلشمنٹ کے ایک سیکشن کو “ننگا” کرنے پر مجبور ہونے والا ایک دوسرا ٹولا سامنے لیکر آیا ہے جو خود بھی ماضی میں جنرل ضیاء الحق اور اُس کی باقیات کے جرنیلی ٹولوں کے ساتھ مل کر عدالتوں میں نظریہ ضرورت کے محافظ ججز کا سرپرست بنا رہا ہے- آج بھی اس ٹولے کے زر خرید اور ججز عدلیہ میں موجود ہیں جنھیں یہ “ھیروز” بناکر پیش کرتا ہے اور اُن کی پروجیکشن کے لیے میڈیا و سوشل میڈیا میں اپنی پاکٹس کو متحرک رکھے ہوئے ہے۔

میں جمہوریت پسند کیمپ میں سنٹر رائٹ سے تعلق رکھنے والے دوسرے ٹولے کی طرف سے موجودہ عدالتی اسٹبلشمنٹ کے اندر بندیال گروپ کے خلاف چلائی جانے والی مہم کو جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے آدرشوں سے سچی وابستگی کے تحت کی جانے والی کوشش نہیں سمجھتا بلکہ اسے محض وقت کے جبر کے تحت اُن کی ایک مجبوری خیال کرتا ہوں جس وجہ سے وہ پارلیمنٹ میں “سنٹر لیفٹ” کی پارٹی پی پی پی کی قیادت سے اتفاق کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔

وہ اب بھی آزاد، خود مختار اور آئین کی پابند عدلیہ نہیں چاہتے کیونکہ اگر ایسا چاہتے تو اپنے جی حضوری کرنے والے اور ابھی تک اُن کی خدمت میں رہنے والے ججز جن میں قاضی فائز عیسٰی سب سے اوپر ہیں پر سماجی سرمایہ کاری جاری نہ رکھے ہوتے اور پیپلزپارٹی کی تجویز کے مطابق اور میثاق جمہوریت میں لکھی گئی شرائط کے مطابق ایک تو تمام پی سی او ججز کو گھر بھیج دیتے، افتخار چوہدری اور اُن کے لگائے ججز کو “آزاد عدلیہ” کا علمبردار بناکر پیش نہ کرتے – دوسرا وہ آئینی اور قانونی دو سپریم کورٹس کے قیام کے لیے آئینی ترمیم کے راستے میں رکاوٹ نہ ڈالتے – میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج مسلم لیگ نواز وقت کے جبر اور دباؤ سے نکل آئے تو اس کی قیادت پھر سے نظریہ ضرورت کی پرچارک بن کر ویسے ہی ججز لگائے گی جیسے یہ ماضی میں لگاتی رہی ہے ۔

لوگ سوال کرتے ہیں کہ پاکستان کی لائرز کمیونٹی اور صحافتی برادری میں اکثریت خاص طور پر بندوبست پنجاب والی ذاتی مفادات کے ماتحت ہی نظریات کی جگالی کیوں کرتی ہے؟ جیسے کل تک افتخار چوہدری کی عدالتی اسٹبلشمنٹ سنٹر رائٹ کی تمام جماعتوں کے نزدیک آزاد عدلیہ کی علامت تھی اور جب اس اسٹبلشمنٹ نے کیانی سے مل کر 2013ء میں نواز شریف کو اقتدار دلایا تو عمران خان ہو یا سراج الحق سب کے نزدیک یہ عدلیہ آزاد نہ رہی لیکن جیسے ہی ثاقب نثار کی قیادت میں عدالتی اسٹبلشمنٹ کا غالب سیکشن پہلے جنرل شجاع پاشا اور پھر فیض حمید اور ساتھ ہی جنرل باجوہ کے ساتھ مل کر عمران خان کو اقتدار میں لانے کا شریک بنا تو نواز لیگ اور اس کے جُملہ اتحادی (جو دراصل نواز شریف کے طفیلیہ ہیں) عسکری اور عدالتی دونوں اسٹبلشمنٹ کے خلاف ہوگئے اور ایک دَم سے انھیں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے چمپئن بن گئے، اور وہ ثاقب نثار جو لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تو نواز لیگ کی نظر میں آزاد اور منصف مزاج جج تھے ایک دَم سے وہ “بکاؤ جج” قرار پائے ۔ ایسے ہی جن ججز کو نواز لیگ میڈیا میں دانشور، پڑھے لکھے، انقلابی جج بناکر پیش کرتی رہی تھی جیسے جسٹس عظمت سعید اور وہ ججز جنھوں نے ثاقب نثار کے ساتھ مل کر باجوہ-فیض کمپنی کے ایما پر نواز شریف کو نااہل قرار دیا وہ سب کے سب “جمہوریت دشمن” جج کہلائے – اور جن ججز نے نواز لیگ کو ریلیف دیا، اُن کو “حاجی” بننے کے لیے راستا فراہم کیا چاہے وہ قاضی فائز تھے، اطہر من اللہ تھے یا آج کل قاضی امین الدین ہوں یا مندوخیل ہو یہ سب کے سب دیکھتے ہی دیکھتے نواز لیگ کے ھیرو بن گئے ہیں ۔

پیپلزپارٹی اور اس سے اتفاق رکھنے والے آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری عدلیہ ہو یا فوج ہو اُن سب کے کردار کو اُن کی حدود میں تب ہی رکھا جاسکتا ہے جب 1973ء کی اصل روح کو بحال کرکے اور اس میں وہ تمام جمہوری آئینی اصلاحات پر مبنی ترامیم لائی جائیں جنھیں 1972ء میں دایاں بازو کے دباؤ اور سودے کاری اور ایسے ہی اٹھارویں ترمیم کے وقت نواز لیگ اور اس کے دیگر اتحادیوں کی موقعہ پرستی کے سبب منظوری نہیں ملی تھی ۔

………

ایس ایم ظفر کا جنرل ضیاء الحق کو لکھے خط کے متن کا اردو میں مفہوم

مورخہ : 26 اکتوبر 1979
جنرل محمد ضیاء الحق
صدرِ پاکستان، اسلام آباد،

جناب عالی!
میں “شبنم ڈکیتی کیس” میں مسز “شبنم” کے وکیل کے طور پر کام کرتا رہا ہوں جس میں پانچ افراد کو سزائے موت سُنائی گئی ہے- مجھے مقدمے کی سماعت کے دوران ملزمان کو دیکھنے کا موقع  ملا اور جُرم کے پیچھے (کارفرما) قوتوں کی جانچ کا موقع بھی ملا – میں محسوس کرتا ہوں کہ اس مسئلے بارے اپنے ذاتی خیالات آپ کے گوش گزار کروں ۔ یہ نوجوان جنھوں نے یہ قصور کیا وہ سابقہ رجیم (بھٹو حکومت) کی طرف سے پیدا کردہ مادر پدر آزاد جو چاہے کرنے کے لائسنس والی حالت سے متاثر ہوگئے تھے – اصلاح احوال کے اقدامات معاشرے سے بالکل غائب تھے – میں شدت سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ سماج اور نظام (دونوں) بھی مجموعی طور پر ان جرائم کے سرزد ہونے کے ذمہ دار ٹھہرتے ہیں –

اس نکتہ نظر کے ساتھ میں آپ کو اس معاملے میں توازن پیدا کرنے کے لیے یہ (خط) لکھنے پر مجبور ہوا ہوں – قانون کے مطابق یہ صرف آپ کا صوابدیدی اختیار ہے کہ آپ ترس کھاتے ہوئے مجرموں کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیں – یہ (اسلام کے) تصور احسان کے تسلسل میں کیا جانے والا اقدام بھی ہوگا –

نیک تمناؤں کے ساتھ

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کا مخلص
ایس ایم ظفر

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply