میں تو چلی چین /گونگ چو کے لیے روانگی (قسط23) -سلمیٰ اعوان

میری گندی عادات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ گھر سے جن جگہوں کے عشق میں مبتلا ہوتی ہوں۔کتابوں اور لوگوں نے بھی جن کے پیار کی آنچ کو بھڑکایا ہو۔اٹھتے بیٹھتے جن کے خواب دیکھتی رہی ہوں۔مقدر جب ایسی جگہ لے جائے جہاں ان کی دید کے پورا ہونے کے امکان بھی پیدا ہوجائیں۔بس پھر میں انہی کے بارے کبھی کبھار گومگو کا شکارہوجاتی ہوں۔جاؤں نہ جاؤں ۔خود ساختہ مفروضوں میں اُلجھنا شروع کردیتی ہوں۔

گونگ چو کے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا تھا۔ ڈاکٹر عمر عادل یاد آتے تھے جنہوں نے کہا تھا ممکن ہوسکے تو وہاں ضرور جائیں۔صحابی رسول حضرت سعد بن ابی وقاص کا مدفن ہے۔ فضائیں خوشبوؤں سے لدی پھندی رہتی ہیں۔

سچی بات ہے ایک اسی نام کی کشش تو مجھے بار بار مضطرب کررہی تھی۔مگر نقشے نے جو دکھایا تھا۔اس نے یہ بھی سمجھا دیا تھا کہ یہ اس چین جیسی وسیع و عریض راج دھانی کے ہزاروں میل دور اس کے قدموں میں پڑا ہے۔پایہ تخت سے آنکھیں اٹھاؤ تو اس تک پہنچتے پہنچتے کھوٹی ہونے لگتی ہیں۔بے چاری بیٹی اور داماد کا کتنا خرچ ہورہا ہے۔میرا تو چلو مانو جنون ہے مگر انہیں کیوں وختے میں ڈالوں۔
مگر جنوں حاوی ہوگیا تھا ۔ ایک صبح میں نے اٹھتے ہوئے کہا تھا۔
‘‘سعدیہ ہمیں گونگ چوجانا ہے۔عمران سے بات کرو۔کب اور کیسے چلنا ہے؟

دراصل میرے اندر کی ہر پل اُگلتی اُچھلتی ہوس نے رات لعن طعن سے میرا حشرنشر کردیا تھا ۔عمان میں یروشلم والے واقعے کی مثالوں والی چھبّیوں سے کلیجہ تو پہلے ہی چھلنی چھلنی ہوا پڑا تھا۔
کمبخت مقدر اگر لے آیا ہے یہاں تو سمیٹ لے جو سمیٹ سکتی ہو۔مڑیا قسمت یا نصیب جیسی باتوں نے جذبوں کو بھڑکا دیا تھا۔

وہ ہنسی‘‘ آپ میری ماں ہیں ،میری سہیلی ہیں۔مجھے تو پتہ تھا ایک دن ایکا ایکی آپ کو ہڑک اٹھنی ہے۔ اس خواہش کا اظہار ہونا ہے۔میری پیاری امّاں سب بندوبست ہوچکا ہے۔جمعہ کی سہ پہر ہم چاربجے کی فلائٹ سے جارہے ہیں۔درمیانی فاصلہ چونکہ بہت زیادہ ہے۔بلٹ پروف ٹرین نے 9گھنٹوں میں پہنچانا تھا۔سوچا کہ جہاز زیادہ بہترہے۔’’
‘‘میری سویٹی’’کہہ کر منہ ماتھا چوما۔ایک بار نہیں کئی بار۔

گھر سے ایک بجے نکلے۔ایک بڑے خوش کُن اور لطیف سے احساس ِ دید نے پذیرائی دی۔گلابی اور سفید پھول استقبال کررہے تھے۔دو دن پہلے تک یہ گل میلہ نہیں سجا تھا۔یہ اچانک کیسے جنگل ہرا بھرا ہوگیا۔چھوٹی قامت والے چھدرے چھدرے درخت سبز ٹہنیوں سے لدے پھندے ضرور تھے مگر پھولوں والی ڈوڈیاں کدھر تھیں اس کا کچھ پتہ نہ تھا۔اور اب سارے میں یہ گلابی گندوراج جیسی صورت والوں نے ماحول میں ایک البیلا اورمن چلا سا حسن بکھیر دیا تھا۔

ٹیکسی ڈرائیور موٹا تازہ پالتو بلّے کی طرح کانچ جیسی آنکھیں گھماتا تھا۔ٹیکسی میں بیٹھتے ہی اس نے ہم اجنبیوں کو چینی موسیقی سے محظوظ کرنا ضروری سمجھا اور لگاتار گانے سنوانے کا شغل جاری رکھا۔
ڈومیسٹک فلائٹ ایریا کا ہی کوئی حدوحساب نہ تھا۔ اتنا وسیع ویٹنگ لاؤنج اور لوگوں کے پرے ۔ایک تو ستیاناس ہو ان موبائلوں کا۔لڑکے لڑکیوں کے جتھے چارجنگ پوائنٹس سے چمٹے کہیں کھڑے،کہیں بیٹھے اپنے موبائلوں کو چارج پر لگائے باتوں میں مگن تھے۔کرسیوں پر بیٹھے مسافر یا تو اُونگھتے تھے یا پھر موبائلوں سے کھیل رہے تھے۔

اِس سارے بھریے میلے میں صرف ایک بچہ ایسا نظرآیا تھا جو کتاب پڑھ رہا تھا۔ بڑی خوش قسمت ماں کا بیٹا ہے سوچا۔میں نے بچے کی ہمسائیگی میں بیٹھنے کو ترجیح دی۔یونیورسٹی میں معاشیات کا طالبعلم تھا۔انگریزی بول لیتا تھا مگر بہت اچھی نہیں۔ہاں اتنا ضرور محسوس ہوا کہ بولنے اور سیکھنے میں بے پایاں دلچسپی ہے۔گونگ چوہی جارہا تھا اپنی پھوپھی کے پاس۔مجھے خوشی ہوئی تھی کہ چلو شاید کچھ سننے کو ملے۔
‘‘گونگ چو کے بارے جانتے ہو کیسا شہر ہے؟’’
لڑکا تھوڑا سا مسکرایا اور بولا۔
‘‘زیادہ تو نہیں بس جنوبی چین کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔بہت خوبصورت دریائے پرل Pearl کا ساحلی شہر۔پرانا نام کنٹنCantonتھا۔ ہانگ کانگ کے بالکل ہمسائے میں ہے۔
آپ کی پھوپھی کہاں رہتی ہے؟

لیوان Liwanمیں ۔یہ شہر کا پرانا حصّہ ہے جو دریا کے کنارے پر ہے۔بہت خوبصورت پرانی تہذیب و ثقافت کا گڑھ۔
میری راہنمائی کرسکتے ہیں کہ مجھے یہاں کیا کچھ دیکھنا چاہیے؟
‘‘آپ انٹر نیٹ سے مدد لیں۔وہ شہروں کیا گلی کوچوں کا کچاچٹھا کھول دیں گے۔’’
‘‘اتنی جوگی ہوتی تو تم سے پوچھتی۔دراصل بہت جلدی میں آنا پڑا۔موقعہ ہی نہیں ملا کہ نیٹ کھولتی۔’’
وہ میرے بارے جان چکا تھا کہ پاکستانی ہوں۔اس کے ہاں خوشی کا اظہار تھا جو مجھے بہت اچھا لگا تھا۔عام چینی بچوں کے برعکس اس کی ناک کا چپٹا پن زیادہ نہ تھا۔آنکھیں بھی کچھ بڑی تھیں۔لہجے میں مٹھاس اور تمیز تھی۔
‘‘ بہت زیادہ تو میں نہیں جانتا مگر چونکہ آنا جانا رہتا ہے اور قرب وجوار کا سیر سپاٹا بھی کرتا رہتا ہوں ۔دریائے پرل کے کنارے فلک بوس عمارتوں کا سلسلہ بہت دل ربا سا ہے ۔ہاں وہاں ایک بہت قدیم مسجد (صدیوں قبل تعمیر ہونے والی)موجود ہے۔یہ چین کی قدیم ترین مسجد خیال کی جاتی ہے۔’’
اس دوران سعدیہ نے پاس آکر کہا۔
‘‘آئیے چلیں۔’’
‘‘اِس بچے نے بھی گونگ چو ہی جانا ہے۔’’

سعدیہ متحمل اور بردبار سی بچی ہے۔ میری ہر نوالے بسم اللہ کی عادت سے بڑی شناسا ہے۔اس لیے اطمینان سے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے مجھے چلانے لگی۔
ٹرمینل 2کے کوئی 71گیٹ تھے۔ہمیں 43سے جانا تھا۔ اُف بڑا چلنا پڑا۔شکر کہ شٹل بس سروس نے عین جہاز کے پاس جاکر اُتارا۔جہازوں کا تو جیسے میلہ لگا ہوا تھا۔ پی آئی اے کا بھی دانہ نظر پڑا۔مانو جیسے کلیجے میں ٹھنڈ پڑگئی ۔

حنانHainan ایرلائنز کا یہ دیوہیکل جہاز تھا۔بوئنگ 777جیسا ہی۔ایک لائن میں آٹھ سیٹیں جن کی حالت خاصی آسودگی والی تھی۔ٹیکسی کرنے میں پورا آدھ گھنٹہ لگایا۔اس وقت سورج کی دم واپسی کرنیں ایرپورٹ کے اِس ماحول کو بڑی رعنائی دے رہی تھیں۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے تاحد نظر پھیلا یہ میدان سونے کے پانیوں میں غوطے ماررہا ہو۔فضائی میزبانیں یوں تو دلکش تھیں پر بیچ میں کچھ ماٹھے ٹانکے بھی جڑے ہوئے تھے۔
بڑی بھوک لگ رہی تھی۔شکر کیا برتنوں اور ٹرالیوں کی کھٹ پھٹ شروع ہوئی۔ فش چکن چاول تھے۔‘‘کمبختو خالی فش ہی دے دیتے۔چکن بھی گھسیڑ دیا اور چاول بھی۔ذائقہ بھی بس ایسا ہی بے سوادا سا۔’’بڑ بڑاہٹ بھی ساتھ ہی شروع ہوگئی ۔

سعدیہ تو اِس معاملے میں بڑی وہمی ہے۔اس نے دہی اور بند والی ٹرے کی طرف ہاتھ بڑھا دیا تھا۔ میرا ایمان البتہ کچا پکا ہی رہتا ہے۔چائے نے کیا لطف دینا تھاقہوہ ذرا مزے کا نہ تھا۔
باپ رے باپ گونگ چو ایئرپورٹ کوئی شاندار سا شاندار تھا۔ نظروں کو ہر ہر قدم پر الجھائے دیتا تھا۔ مشرق بعید اور ایشیائی قوموں کا تو جمّ غفیر تھا ہی پر مشرق وسطیٰ کے توپ اور کفایہ والوں نے بھی رونقیں لگا رکھی تھیں۔بیچ میں ہم شلوار قمیضو ں والے دانے بھی شامل ہوگئے تھے۔سیکورٹی کی ایک ڈشکری سی عورت نے سٹرپ لگائی اور کلیئر کردیا۔

اس وقت رات کے نو بجے تھے۔ باہر آنے پر محسوس ہوا تھا کہ زندگی کی تیز رفتاری کو جیسے یہاں برقی پہیے لگے ہوئے ہیں۔ تہہ در تہہ منزلوں کے سلسلے اوپر نیچے چڑھتی اترتی سڑکوں اور ان پر پھرکی طرح دوڑتی بھاگتی ٹریفک اور آسمان کی وسعتوں تک پھیلا ہوا شور و غوغا۔
سچی بات ہے حواس گم کرنے والا منظر تھا۔

ایک جہازی ستون کے پاس ہمیں ٹہرا کر عمران ہوٹل سے بھیجی گئی ٹیکسی کو دیکھنے گیا۔ یہیں ذرا چند قدم پرے رک سیک کمروں پر لادے میں نے چند لڑکوں کو دیکھا۔ چال ڈھال اور نین نقش بتاتے تھے کہ اپنے ہی ہیں۔ ہیلو ہائے کی اور پوچھا تو جانا۔ اترپردیش انڈیا کے ہیں۔ سامان کی خریداری کے لیے آئے تھے ۔کاروباری دنیا کا بہت بڑا مرکز جہاں ہر چیز کی نمبر ایک نمبر دو نمبر تین مارکیٹیں زیر زمین اور بالائے زمین بنی میلوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔

ہوٹل قریب ہی تھا۔ رات تھی۔ علاقہ کیسا ہے؟رات کو تو کچھ سمجھ آنے والا نہ تھا۔ ہوٹل کی کی دو منزلہ عمارت اگرچہ نئی نکور تھی مگر بس ٹھیک ہے والی صف میں کھڑی تھی۔ ہاں نام کچھ توجہ کھینچتا تھا Liz Wise Choice۔ ڈنڈیاں مارنے کی بھی ساتھ ہی کوششیں شروع ہوگئیں۔ نوعمر سا ایک لڑکا دلالی کا کردار ادا کرنے پر لگایا گیا تھا۔ پہلے جو کمرہ دکھایا گیا اس پر ہماری ناپسندیدگی کی تکرار ہوئی۔ لڑکا انگریزی میں ٹھیک تھا ۔تکرار بڑھنے پر نئے کمرے کھولے گئے۔ پسند آنے پر کمیشن کا مطالبہ۔ ناشتے میں بھی ڈنڈیاں مارنے کی سر توڑ کوشش۔الگ سے پیسوں کا مطالبہ۔ عمران نے ذرا کھری کھری سنائیں تو راہ راست پر آگیا۔
عمران ہنسا۔‘‘دراصل بیچارے نئے نویلے نو دولتیئے ہیں۔بین الاقوامی سیاحت کے طور طریقوں سے آگاہ ہی نہیں۔ ہماری طرح داؤ لگانے کی کوشش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔چلو خیر۔’’

صبح کے پر نور اجالے نے گرد و پیش کے منظروں کو واضح کیا۔ علاقہ نیا بھی تھا اور ابھی زیر تعمیر بھی۔ ناشتہ ملحقہ ایسی ہی ایک عمارت میں دیا گیا تھا پر تھا مزے کا۔ابلے انڈے، پھلیوں کی مزے دار بُھرجی، چاولوں کی کھچڑی بیچ میں مونگ کی دال کے دانے لشکارے مارتے تھے۔ اُبلی چھلّی کا ٹوٹا، اُبلی شکر قندی اور مالٹے کی پتلی قاشیں۔بندہ بیس بھی کھاجائے تو ایک ما لٹا نہ بنے اور ہاں نوڈلز بھی۔چلو چائے بہتر تھی۔
سب وے تک ہوٹل والوں نے لفٹ دی۔

علاقہ تا حدّ نظر سیمنٹ ،سریے کی ادھوری اور مکمل عمارتوں کے نرغے میں تھا۔ جھاڑیوں اور چھوٹے موٹے کھیتوں کے درمیان سے پختہ سڑکیں بنائی گئی تھیں۔ دفعتاً ایک جگہ ایک حیرت انگیز منظر دکھائی دیا۔ قبرستان تھا اور بچیس تیس کے قریب لوگ وہاں موجود تھے۔ گاڑی کی رفتار خاصی مدھم تھی۔ منظرچونکہ سڑک کے قریب ترین تھا ۔اس لیے لوگ کہیں صفائی کرتے، کہیں مٹی کھو دتے، کہیں ان کی مرمت کرتے جان پڑے۔

میرے استفسار پر عمران نے بتایا کہ آج ان کاچھنگ منگ Qing ming Festival ہے۔اس کی تفصیلات کا احوال میرے استفسار سے قبل ہی اس نے بتانا شروع کر دیا۔ دراصل یہ چینیوں کے اپنے آباء و اجداد کو یاد کرنے اور ان کی قبروں کی صفائی ستھرائی کا قومی دن ہے ۔یہ موسم بہار کا تہوار ہے ۔آج5 اپریل ہے۔6 اور7 کو بھی چھٹیاں ہیں۔ تین دن جب وہ اپنے بزرگوں کے ساتھ خود کوجڑا ہوا پاتے ہیں ۔
میرے دل پر جیسے گھونسہ سا پڑا۔
‘‘ ارے کتنی اچھی اور کتنی خوبصورت ریت اور روایت پال رکھی ہے ان لوگوں نے۔ چلو جی جان سے ان کو یاد تو کرتے ہیں۔ انفرادی سطح پر تو بندہ کچھ تھوڑا بہت کرلیتا ہے۔مگر اجتماعی سطح اور خاص طور پر حکومتی پلیٹ فارم پر اس کا اہتمام کرنا یقینا قابل صد تحسین ہے۔ سچی بات ہے ہم توبھول ہی گئے ہیں اپنے والدین کو۔ باقی آباواجداد کی تو بات ہی چھوڑیئے۔ ان کے لیئے ایک دن کیا چند لمحے بھی منانے کی ہمیں توفیق نہیں ہوتی۔

اس کی تفصیلات اور پس منظر سے آگاہی بھی عمران نے دی۔ دراصل فوک کہانیوں کا وہ بہت دلدادہ ہے۔ اپنے چینی ساتھیوں کی تو جان نہیں چھوڑتا ہوگا کہ جب تک کسی واقعے کے کچے چٹھے تفصیلاً سن نہ لے۔

چینی قوم تہواروں میں رنگ بھرنا جانتی ہے۔ یوں بھی مختلف علاقوں میں روایات بھی اپنے اپنے طور طریقوں کے مطابق ہی ہوتی ہیں۔ پچھلے سال ہم چندپاکستانی مدعو تھے۔ پتنگ بازی بھی ہوئی۔ہماری تو موجیں ہوگئیں۔سبھوں نے اپنے اپنے رانجھے راضی کیے۔

پتنگوں کے ساتھ ایک اور دلچسپ بات بھی سننے کو ملی تھی کہ قدیم لوگ اپنی محبت و عشق کی کہانیاں،ان کے المیئے ،اپنی خواہشات اور آرزؤں کی کتھاہیں ان پتنگوں پر لکھ دیتے تھے۔ ہمارے پرانے لوگوں کی طرح جو کبوتروں کے ساتھ ایسے ہی شغل کرتے تھے۔ یہ لوگ بھی پتنگ آسمانوں کی وسعت میں لے جا کر ڈور کاٹ دیتے تھے۔گویا انہوں نے اپنے دکھڑے اپنے غم سب ہوا کے حوالے کردئیے ہیں اب وہ انہیں کہاں کہاں لے جاتی ہے یہ ہوا جانے اور اس کا کام۔

بیشتر چینی مزے دار کھانے بناتے ،خود کھاتے کھلاتے اور لوگوں میں بانٹ کر بڑی خوشی اور طمانیت محسوس کرتے ہیں۔اور وہ ایسا کرنے کے مواقع ڈھونڈتے ہیں۔
اس روایت سے وابستہ کہانی بھی سن لی۔چینی تہذیب بھی صدیوں پرانے کھاتے کھولتی ہے۔قبلِ مسیح سے بھی کہیں ہزار اور کہیں ہزاروں سال پرانے قصے لوگوں کو یاد ہیں۔
علاقے فتح کرنا اور دوسری مملکتوں کو تاراج کرنا تو ہمیشہ سے انسانی فطرت کا خاصا رہاہے۔سلسلے سینکڑوں سال قبل مسیح کے ہوں یا حال کے ۔انسان حرص و ہوس کے پھندوں سے کبھی باہر ہی نہیں نکلتا۔

یہ کہانی تو655قبل مسیح کے وقتوں کی ہے ۔ایک طرف اگر انسان کی وحشی جبلت اور لوٹ کی مار کی عکاس ہے تو دوسری جانب محبت اور وفاداری کے ان لافانی جذبوں کی بھی نمائندہ ہے جس پر انسانیت کی بقا ہے۔

چن Jin ریاست جس کا موجودہ نام شان شی Shanxiہے کے والی پرنس شن جہ پر ہمسایہ ریاست کنQin بادشاہت کے ڈیوک میوMuنے حملہ کیا اور قبضہ کرلیا۔دربدری چینگ ار کا مقدر بنی۔فاقوں کی نوبت آئی ۔بھوک نے مرنے قریب پہنچا دیا۔ وفادار ساتھی جیے زی تھوے Jie Zituiنے اپنی ران کاٹ کر اپنے شہزادے چینگ ار کو سوپ کے ساتھ پیش کی۔شہزادہ ایسی بے مثال قربانی پر بے حد متاثر ہوا۔عہد کیا جب وقت بدلے گا تو حق خدمت ادا کروں گا۔انیس سال بعد تاج و تخت دوبارہ نصیب ہوا۔ مگر وہ اپنے محسن کو بھول گیا۔مہینوں بعد یاد آیا۔ کھوج کیا تو معلوم پڑا کہ وہ اپنی ماں کے ہمراہ کہیں جنگلوں میں ہی رہ گیا ہے۔

تلاش شروع ہوئی مگر ناکامی ۔آخر جنگل کو آگ لگا دی گئی کہ جیے Jieاس طرح باہر نکل آئے گا۔مگر آگ بجھنے پر جی کو ایک جلے درخت کے تنے سے ٹیک لگائے دیکھا۔پاس ایک تحریر تھی۔شہزادے کی درازی عمر ،ملک میں امن اور سلامتی کے اظہار اور ڈھیروں دعائیں لکھی ہوئی تھیں۔شہزادے نے اس کے حضور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کیا اور وہاں ایک شاندار مقبرہ بنا کر ہر سال میلہ لگا کر اسے یاد کرنے کا ایک سامان پیدا کردیا۔

اثر انگیز کہانی تھی۔دل ملول ہوا ۔مگر سب وے کے نئے منظروں نے آنکھوں کو پھاڑتے ہوئے نئی سوچوں میں اُلجھا دیا۔میرے سامنے زیر زمین تیز رفتار ٹرینوں کے سلسلے تھے۔برقی زینوں سے اُترتی اور چڑھتی خلق خدا کے عظیم الشان ہجوم پل جھپکتے میں چنٹیوں کی طرح ظاہر ہوتے اور پل جھپکتے میں ہی غائب ہوجاتے ۔یہی سلسلہ ہمیں بھی دھکیل کر شہر لے آیا۔
اب سب سے پہلے سعد بن ابی وقاص کے مزار مبارک پر حاضری دینی تھی۔باقی کام تو بعد کے تھے۔سچی بات ہے اگر عمران کو چینی نہ بولنی آتی تو ذلیل ہونے والی بات ہونی تھی۔اس نے ٹیکسی رکوائی اور Huaisheng کھوائے شنگ مسجد کا کہا۔تکونی آنکھیں گھماتے ہوئے ڈرائیور نے کہا۔‘‘ پتہ بتاؤ مجھے۔’’
‘‘ارے بھئی عمران نے موبائل کی سکرین دکھائی اور بولا۔یوئے شیو ‘ ‘ Yuexiuڈسٹرکٹ چلنا ہے۔وہاں کی جی فانگ نارتھ روڈ 901 Jiefang North Road پر جانا ہے۔’’
تو ہم رنگ روڈ کے دیو ہیکل ستونوں،ان پر کھڑی پٹڑیوں کے سایوں اور رش کے بے پناہ ہجوم میں گھری اس شہر کی قدیم ترین مسجد کے محرابی دروازے سے داخل ہوئیں جس کی پیشانی اُس مبارک نام سے چمک رہی تھی۔محبت و عقیدت کا ایک سمندر تھا جو سینے میں موجیں ماررہا تھا۔کیسے ہم ماں بیٹی دھیرے دھیرے قدم اٹھاتے مقدس فضا اور ہریالی کے حسن کو اپنی آنکھوں میں جذب کرتے بڑھ رہی تھیں۔جائے وضو داخلی دروازے کی قریبی جگہ پر تھی۔یہ بھی حسن اتفاق ہی تھا کہ دن جمعہ کا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اور جب دھیرے دھیرے درودپڑھتے ہوئے اس بارہ دری میں پہنچے جو اپنی تعمیری نوعیت کے اعتبار سے بے حد منفرد تھی۔یہاں بیٹھنے کا انتظام اعلیٰ۔پانی کا تاریخی کنواں جس کی تاریخ بہت پرانی ہے۔جسے ایک سسٹم کے تحت گرم اور معتدل رکھا جاتا ہے۔اس پر انگریزی اور چینی میں تاریخ درج تھی۔1300سو سال پرانی تحریر کے مطابق تعمیر حضرت سعد بن ابی وقاص کے ہاتھوں ہوئی تھی۔صداقت کتنی ہے؟ میں نہیں جانتی تھی۔کنوئیں کے ساتھ بنی سبیل سے میں نے بیٹھ کر پانی پیا۔نم آلود آنکھوں اور گداز دل کے ساتھ آسمان کو دیکھا۔میرا مومو اُس کے حضور سجدہ ریز ہوا۔
‘‘ارے میں اور یہاں۔’’
جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply