بلوچستان، دہشتگردی کیخلاف اقدامات کی ضرورت۔۔ٹی ایچ بلوچ

گوادر پورٹ کی تعمیر اور سی پیک جیسے عالمی اور انقلابی منصوبوں پر کام شروع ہونے کے بعد بلوچستان کی اہمیت بڑھ گئی ہے اور ملک دشمن قوتوں نے اسے نشانے پر لے لیا ہے بالخصوص بھارت ہماری ملکی سلامتی کو نقصان پہنچانے کیلئے افغانستان کے راستے صوبے میں بدامنی پھیلانے کے درپے ہے۔ کلبھوشن یادیو جیسے بھارتی جاسوس کا بلوچستان سے گرفتار ہونا، اِس بات کی واضح دلیل ہے۔ بھارت کی بلوچستان میں بے جا مداخلت کی وجہ سےصوبے میں امن و امان کی صورتحال کو مسلسل خطرہ لاحق ہے۔ یہی وجہ سے کہ آئے روز یہاں دہشت گردی کے چھوٹے بڑے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ انہی دنوں میں واشک اور پنجگور کے درمیانی علاقے شنگر میں نامعلوم شر پسندوں نے ایف سی کی گاڑی کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں لیفٹیننٹ کرنل عامر وحید سمیت 3اہلکار شہید اور 4شدید زخمی ہوئے۔ تمام کا تعلق ایف سی کی 59ونگ سے تھا۔ فائرنگ کے بعد فورسز نے ملزموں کی گرفتاری کیلئے علاقے کا محاصرہ کر کے سرچ آپریشن کیا۔ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بلوچستان نے حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور دہشت گردوں کے مذموم مقاصد کو ناکام بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔

بلوچستان میں جب بھی امن و امان کی صورتحال بہتر ہوتی ہے، تو دہشت گردی کا کوئی نہ کوئی افسوسناک واقعہ رونما ہو جاتا ہے۔ بھارت کی شہ پر بلوچستان میں علیحدگی اور شدت پسند عناصر ہِٹ اینڈ رن کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ دہشت گردی میں عارضی وقفہ سے یہ نہ سمجھا جائے کہ انتہا پسندی کا سلسلہ رک گیا ہے۔ سیکورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو ہمہ وقت چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ عوام بھی ہوشیار رہیں اور اپنے ارد گرد مشکوک عناصر پر نظر رکھیں، تاکہ دہشت گردی اور انتہا پسند عناصر کا قلع قمع کیاجا سکے۔ پاکستان قوموں کی برادری میں ایک ترقی یافتہ اور خوشحال ملک کے طور پر ابھر سکے۔ گزشتہ ایک سال کے دوران بلوچستان میں 279 فرقہ وارانہ اور مذہبی تشدد کے واقعات میں 242 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جاں بحق ہونے والوں میں لیویز فورس، پولیس، فرنٹیئر کورپس (ایف سی) کے علاوہ کئی شہری بھی شامل ہیں۔ کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں ہونے والے سانحے میں رواں سال جنوری سے اب تک 518 افراد زخمی ہوئے تھے۔ ایف سی پر 64 حملے کیے گئے، جس میں 45 اہلکار جاں بحق اور 118 زخمی ہوئے تھے۔ پولیس پر ہونے والے 17 حملوں میں 5 سینیئر افسران سمیت 51 پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے تھے۔ سینیئر افسران میں ڈی آئی جی حامد شکیل، ایس پی محمد الیاس، ڈی پی او ساجد خان مہمند، ایس پی مبارک شاہ اور عبدالسلام شامل ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر کیے گئے 6 حملوں میں 11 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہوئے تھے۔

کوئٹہ اور بلوچستان کے دیگر علاقوں میں 117 خودکش حملوں، بم دھماکوں اور مسلح حملوں میں 115 افراد جاں بحق، جبکہ 293 زخمی ہوئے تھے۔ کوئٹہ کو دہشت گردوں نے رواں سال اس سے پہلے کئی بار دہشت گر دوں کی وجہ سے اس علاقہ کے امن کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن میں 23 جون کو شہداء چوک میں دہشت گردی کا پہلا واقعہ تھا، دوسرا 13 جولائی کو کو کلی دیبا میں، تیسرا 12 اگست کو ہوا، جب ایک سکیورٹی فورسز کے ٹرک کو نشانہ بنایا گیا، چوتھا واقعہ 13 اگست کو فقیر محمد روڈ، پانچواں 18 اکتوبر کو ہوا جب خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی پولیس ٹرک سے ٹکرا دی تھی، چھٹا واقعہ 15 نومبر کو نواں کلی میں ہوا تھا، جبکہ 9 نومبر کو ڈی آئی جی بلوچستان سمیت تین اہلکار شہید ہوگئے تھے۔ دراصل اس طرح کے واقعات کی کڑیاں ان عناصر سے بھی ملائی جارہی ہیں جن کو پاکستان کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی اور جب سے سی پیک کا آغاز ہوا، اس طرح کے واقعات میں اضافہ ہی ہوا، دراصل وہ سب سمجھتے ہیں کہ اگر سی پیک جیسا اہم منصوبہ بن گیا تو پاکستان میں ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو جائے گا، اسی لئے اس پاک چین منصوبے کی راہ میں روڑے اٹکانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

بلوچستان میں ہونیوالی دہشت گردی کا بنیادی پہلو عالمی طاقتوں اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کا گٹھ جوڑ ہے۔ ایک طرف پاکستان کو امریکا اور افغانستان کی طرف سے یقین دلایا جاتا ہے کہ دہشت گردی مشترکہ خطرہ ہے اس کے خلاف جنگ جاری رہے گی، جیسا کہ 2017ء کے آخر میں افغانستان کے داالحکومت کابل میں پاکستان، امریکا اور افغانستان کے سہ فریقی مذاکرات ہوئے، کابل میں ہونے والے سہ فریقی مذاکرات میں شرکا ء نے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ دہشت گردی مشترکہ خطرہ ہے اس کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ مذاکرات میں شامل تینوں فریقین نے دہشت گرد تنظیم داعش کے خاتمے کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی مشترکہ خطرہ ہے اور اس کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ داعش سمیت خطے میں موجود تمام دہشت گروہوں کا خاتمہ مشترکہ کوششوں اور مزید تعاون سے ہی ممکن ہے۔ لیکن خارجہ پالیسی کو مزید بہتر بنانے کے علاوہ قومی سلامتی کیلئے قومی ایکشن پلان پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے، لیکن 20 نکات پر مشتمل اس منصوبے کے متعدد پہلو کماحقہ توجہ سے تاحال محروم ہیں۔ آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد سول اور فوجی قیادت کے اتفاق رائے سے قومی ایکشن پلان کی تیاری کو تیسرا سال ہے۔ تین سال قبل جب یہ منصوبہ بنا تو اسے سب ہی نے دہشت گردی کے خاتمے کے قومی عزم کے طور پر دیکھا۔

اس حوالے سے دیکھا جائے تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں گزشتہ 10 سالوں کے دوران خیبر پی کے میں2017 اب تک کا سب سے محفوظ اور کامیاب سال قرار دیا جا سکتا ہے۔ دہشت گردی کے واقعات میں مجموعی طور پر 83 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ خیبر پی کے میں رواں سال کے پہلے چھ مہینوں میں دہشت گردی کا ایک بھی بڑا واقعہ رونما نہیں ہوا، جو خیبر پی کے پولیس اور تمام سکیورٹی اداروں کی مشترکہ حکمت عملی، محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بھی دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ مگر قومی ایکشن پلان کے حوالے سے پچھلے تین برسوں کے دوران بارہا یہ محسوس کیا گیا کہ کہیں نہ کہیں تامّل اور سست روی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ پالیسی امور اور ادارہ جاتی اصلاحات زیادہ توجہ کی متقاضی ہیں۔ ادارہ جاتی اصلاحات کے جز کے طور پر انسداد دہشت گردی کے قومی ادارے (نیکٹا) کو موثر بنانے کی ضرورت ہے، ایک مشترکہ انٹلی جنس ڈائریکٹوریٹ تشکیل دیا جانا ہے اور مختلف اقدامات پر عملدرآمد کے لئے ایک مربوط میکنزم کو فعال کرنا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ان امور پر تین برس گزرنے کے باوجود وہ توجہ نہیں دی گئی جو دی جانی چاہئے تھی۔ اسی طرح مدرسہ ریفارمز کے معاملات بھی سرد خانے کی نذر محسوس ہوتے ہیں۔ فاٹا اصلاحات تاحال سیاسی موشگافیوں کا موضوع ہیں۔ جس ملک میں دھرنے دیئے جانے اور حکومتوں کو چلتا کرنے کے دعوے روز مرہ کے معمولات کا حصہ بن چکے ہیں، وہاں اس نوع کی باتیں غیر متوقع نہیں، مگر کوئی بھی ملک اس کا متحمل نہیں ہوسکتا کہ برسراقتدار اندرونی یا بیرونی حکومت دباؤ کی اس کیفیت کو جواز بناکر انتہا پسندی کے سدباب کے لئے واضح بیانیہ عوام اور دنیا کے سامنے لانے یا مربوط حکمت عملی اختیار کرنے میں تاخیر کرے۔

نیشنل سیکورٹی پالیسی پر کئی برس سے کام ہو رہا ہے، مگر وہ اپنے واضح خدوخال کے ساتھ تاحال سامنے نہیں آسکی۔ اس باب میں ایک مسودہ تیار کیا گیا تھا۔ مگر اس کے بعد یہ معاملہ کیوں آگے نہیں بڑھا اس سوال پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ رینجرز کو اختیارات دینے کا سوال ہو، بعض مقامات پر امن دشمنوں کے خلاف کارروائی کا مسئلہ یا مبینہ دہشت گردوں کے مقدمات تیزی سے سماعت کرنیوالی عدالتوں میں لے جانے سے متعلق معاملات، ان میں بعض رکاوٹیں آتی رہی ہیں۔ عوام کے بنیادی حقوق اور جمہوریت کے مستقبل سمیت کئی خدشات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے، مگر اس بات کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں کہ ملک اس وقت حالت جنگ سے دوچار ہے اور غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی اقدامات نہ صرف بروئے کار لائے جاتے ہیں بلکہ بروقت روبہ عمل لانے کی ضرورت ہوتی ہے، بصورت دیگر نقصانات کا اندیشہ رہتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ٹارگٹڈ آپریشنوں، انٹلیجنس ایجنسیوں کی فعالیت، معلومات کے تجزیے کے مرکزی مقام کے تعین اور تیزی سے سماعت کرنے والی عدالتوں کی اہمیت اپنی جگہ۔ مگر جب تک دہشت گردی کے بنیادی اسباب یعنی غربت، بے روزگاری، سماجی و معاشی بے انصافی، کرپشن اور پسے ہوئے طبقات کے استحصال پر قابو نہیں پایا جائیگا اسٹیٹس کو کا عفریت اس ملک کو ایک یا دوسرے طریقے سے اپنی گرفت میں لیتا رہیگا۔ اس عفریت پر قابو پانا مشکل نہیں۔ وسائل اور حکومت پر تصرف والے حلقے عوام پر بالواسطہ ٹیکس مسلط کرنے کی بجائے خوشدلی سے خود براہ راست ٹیکس دینے پر آمادہ ہو جائیں اور کرپشن کی روک تھام کیلئے دوست ملک چین کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں تو برسوں میں نہیں، دنوں میں بہت کچھ درست ہو جائیگا۔

دو عشروں کے دوران بلوچستان میں شدت پسندی میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ بلوچستان کے اندر صوفی سنّی، ہزارہ شیعہ اور ذکری بلوچ کمیونٹیز کو نشانہ بنانے میں بھی تیزی آگئی ہے جبکہ گزشتہ دو تین برس میں ایسی خبریں بھی عام ہوئی تھیں کہ بلوچ اکثریتی علاقوں میں داعش کا نیٹ ورک تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے۔ بلوجستان میں مخصوص شدت پسندوں کی جانب سے مزارات و امام بارگاہوں کو نشانہ بنانے کا سب سے پہلا باقاعدہ سراغ اس وقت ملا تھا جب شکار پور میں امام بارگاہ میں ہونے والی مجلس کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے ایک خودکش بمبار پکڑا گیا تھا جس کا نام عثمان بتایا گیا۔ اس مبینہ خودکش بمبار نے سکیورٹی اداروں کو دوران تفتیش بتایا کہ اس کی تربیت بلوچستان اور افغانستان میں ہوتی رہی ہے اور وہ حفیظ بروہی نامی شخص کے کہنے پہ یہ دھماکہ کرنے آیا تھا۔ بلوچستان میں ہونیوالی دہشت گردی میں مذہبی تعصب کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ جیسا کہ حال ہی چرچ پر ہونیوالے حملے سے بھی ظاہر ہے۔

اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ گزشتہ کچھ سال میں سیکورٹی اداروں نے امن عامہ کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، تاہم شرپسند عناصر تخریبی کارروائیوں کی کوشش میں کامیاب ہو جاتے ہیں، پاک چین اقتصادی راہداری میں بلوچستان کے اہم کردار کی وجہ سے حکام دیگر ممالک کے خفیہ اداروں پر حالات خراب کرنے کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے صوبائی حکومت متعدد مرتبہ یہ دعویٰ کرچکی ہے کہ بھارت کی خفیہ ایجنسی را، افغانستان کی خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کے ساتھ مل کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سرگرمیوں میں ملوث ہے۔ بلوچستان کے ساحلی پورٹ شہر گوادر سے متعدد راستوں کے ذریعے چین سے تجارت بڑھانے کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے پر کام جاری ہے۔ جس کے تحت بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں ترقیاتی کام جاری ہیں، اس منصوبے کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ یہ خطے اور خاص طور پر پاکستان میں معاشی تبدیلی کا باعث ہوگا۔ اس منصوبے کیخلاف سازشوں کے نتیجے میں صوبہ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ ایک عرصے سے امن دشمنوں کے نشانے پر ہے، کوئٹہ میں سیکورٹی فورسز اور پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد دہشتگرد حملوں میں جان گنوا چکی ہے، ڈاکٹروں، صحافیوں، اساتذہ سمیت شہر کی سول سوسائٹی کی بڑی تعداد دہشتگردی کا شکار ہوچکی ہے۔ اس طرح کے واقعات کی ذمہ داری عموماً وہ عناصر قبول کرتے ہیں، جو اس طرح کے واقعات میں براہ راست ملوث نہیں ہوتے۔

واقعے کی ذمہ داری کسی جانب سے قبول ہوتی ہے یا نہیں اس سے قطع نظر بلوچستان میں متحرک راء کی تخریب کاری اور دہشت گردی کے واقعات میں بالواسطہ و بلا واسطہ ملوث ہونا گویا نوشتہ دیوار ہے۔ دہشت گرد بلوچستان میں امن وامان کی بہتر صورتحال خراب کرنے کے درپے ہیں۔ جس کا بنیادی مقصد اقتصادی راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنا ہے۔ کیونکہ اس حوالے دو رائے نہیں کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ ملک کی تقدیر بدلنے کا انقلابی منصوبہ ہے، جس کے لئے امن کا قیام او ر استحکام ناگزیر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایک دہشت گرد کو ڈھونڈ نکال کر کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ بلوچستان میں سرگرم عمل عناصر اور راء کے ساتھ گٹھ جوڑ رکھنے والے سرحد پار سے آنے والے دہشت گردوں اور تخریب کاروں اور ان کے ہمدردوں کے خلاف سخت اقدامات اور ان کے داخلے کے امکانات کو نہ ہونے کے برابر لانے کے لئے بھی خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے۔ خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ پولیس اور دیگر متعلقہ شعبوں اور اداروں میں بھی فعالیت و فرض شناسی کی مثالیں قائم کرنی ہوں گی۔

یہ ایک مشکل مرحلہ ہے، جس میں جب تک ریاست کے سارے وسائل قوت اور عوام سبھی یکساں جانفشانی ذمہ داری اور وطن عزیز کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی نہیں ٹھان لیں گے، مطلوبہ نتائج کا ماحول تشنہ طلبی کا شکار رہنے کا خدشہ ہے۔ مربوط اور مشترکہ کوششیں اور عوام کا بھرپور تعاون کامیابی کا ضامن ہوگا۔ دہشت گردی کا مذہبی پہلو ہو یا نسلی اور قومی، نائن الیون کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا، جس کے نتیجے میں لاتعداد بے گناہوں کی جانیں چلی گئیں۔ اسی حالات میں پاک افواج نے وطن عزیز کو دہشت گردوں سے نجات کے لئے ان کے خلاف پہلے، آپریشن ضرب عضب کرکے ان علاقوں کو تباہ برباد کیا، جن کو دہشت گرد نے اپنی پناہ گاہوں کے طور پر بنایا ہوا تھا، اب بھی پاک فوج کے جوان آپریشن ردالفساد کے ذریعے وطن دشمن عناصر کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں اور اس میں اپنی جانوں کا بھی نذرانہ دے رہے ہیں۔ ضرورت آج اس بات کی ہے کہ قوم دشمن کے عزائم کو سمجھتے ہوئے اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرے، اس سے ہی ہم دہشت گردوں کے مذموم عزائم کو ناپاک بناسکتے ہیں۔ جیسا کہ کوئٹہ میں چرچ پر حملے والے حالیہ واقعہ کے بعد پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت کے ساتھ ساتھ تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے دہشت گردی کی اس کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس کو مذاہب کے درمیان دراڑ ڈالنے کی مذموم کوشش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے گھنائونے حملوں کا ثابت قدمی سے مقابلہ کریں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply