بدن (66) ۔ امیون سسٹم کے مسائل/وہاراامباکر

پچاس کے قریب معلوم آٹوامیون بیماریاں ہیں جو ہمیں امیون سسٹم کی وجہ سے لاحق ہوتی ہیں اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اس کی مثال کروہن بیماری ہے۔ 1932 میں برل کوہن نے اسے شناخت کیا اور اس پر ان کا پیپر شائع ہوا۔ اس وقت یہ بیماری 50000 میں سے ایک شخص کو ہوتی تھی۔ پھر یہ تعداد بڑھنے لگی۔ اب یہ تعداد 250 میں سے ایک شخص تک پہنچ چکی ہے۔
ایسا کیوں ہے؟ یہ معلوم نہیں۔ ڈینیل لیبرمین کا خیال ہے کہ اس کی وجہ اینٹی بائیوٹک ادویات کا کثرت سے استعمال اور ہمارے جسم میں جراثیم کے ذخائر کی کمی ہو سکتا ہے جس وجہ سے ہم اپنے امیون سسٹم سے ہی خطرے کا شکار ہو سکتے ہیں لیکن وہ خود یہ کہتے ہیں کہ ان کی یہ بات بس ایک اندازہ ہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور عجیب بات ہے کہ آٹوامیون بیماریاں صنفی امتیاز رکھتی ہیں۔ خواتین کو ملٹی پل سکلیروسس ہونے کا امکان مردوں سے دگنا ہے۔ لوپس ہونے کا امکان دس گنا زیادہ ہے۔ تھارائیڈ کا ایک عارضہ (Hashimotos thyroiditis) ہونے کا امکان پچاس گنا زیادہ ہے۔ کل ملا کر مردوں کے مقابلے میں آٹوامیون بیماریوں کا امکان خواتین میں چار گنا ہے۔ ایسا کیوں؟ اس کا تعلق ہارمون سے ہو سکتا ہے لیکن خواتین کے ہارمون امیون سسٹم کو مردوں کے ہارمونز کے مقابلے میں زیادہ کیسے چھیڑ دیتے ہیں؟ اس کا معلوم نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امیون ڈس آرڈر کی سب سے بڑی کیٹگری الرجی ہے۔ الرجی ایک بے ضرر شے پر ہمارے مدافعتی نظام کا بلاوجہ کا ردِ عمل ہے۔ الرجی پرانا تصور نہیں۔ اس لفظ کی اپنی ایجاد بمشکل سو سال پہلے کی ہے۔ آج کی دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد کم از کم کسی ایک شے سے الرجی رکھتی ہے۔
دنیا میں مختلف جگہوں پر الرجی کا تناسب دس فیصد سے چالیس فیصد کی آبادی کا ہے۔ اور اس کا تعلق ملک کی خوشحالی سے ہے۔ امیر ممالک میں الرجی زیادہ ہے۔ یہ معلوم نہیں کہ ایسا کیوں کہ امیر ہونا الرجی کے لئے اچھا نہیں۔ ایسا ممکن ہے کہ امیر اور شہری لوگ آلودگی سے زیادہ ایکسپوژر رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ڈیزل کے دھویں کے نائیٹروجن آکسائیڈ کا۔ یا پھر امیر ممالک میں اینٹی بائیوٹک کا استعمال زیادہ ہو جو براہِ راست یا بالواسطہ طور پر امیون سسٹم کو متاثر کرتا ہو۔ یا پھر ورزش کی کمی اور موٹاپے کا اس کے پیچھے ہاتھ ہو۔ اس کا ایک حصہ جینیاتی بھی ہے۔ کچھ اقسام کی الرجی ایسی ہیں کہ اگر دونوں والدین میں پائی جاتی ہوں تو چالیس فیصد امکان ہے کہ بچے میں بھی آ جائیں۔ (اور یہ صرف زیادہ امکان کی بات ہے، لازم نہیں کہ ایسا ہو)۔
زیادہ تر الرجی میں بے آرامی ہوتی ہے لیکن کئی جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔ دنیا میں ہزاروں لوگ anaphlaxis کے ہاتھوں مرتے ہیں۔ یہ شدید الرجی کے ری ایکشن سے دم گھٹ جانے کی وجہ سے ہے۔ یہ کسی پنسلین، کیڑے کے کانٹے، کسی کھانے کی شے سے ہو سکتی ہے۔ کئی لوگ کسی خاص میٹیریل سے سخت حساس ہوتے ہیں۔ امریکہ میں 1999 میں نصف فیصد بچوں میں مونگ پھلی سے الرجی تھی۔ آج یہ دو فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
الرجی کی بڑھتی رفتار کی سب سے عام وضاحت ہائی جین ہائپوتھیسس ہے جو 1989 میں ڈیوڈ سٹراکن کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ اس کے مطابق ایسے بچے جو مٹی اور جراثیم سے پاک صاف ماحول میں بڑھے ہوں، ان میں الرجی کے ریٹ زیادہ ہوتے ہیں۔ اور اس وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں اس کا تناسب زیادہ نظر آتا ہے۔
لیکن اس ہائپوتھیسس کے ساتھ کچھ مسائل ہیں۔ الرجی کا تناسب 1980 کی دہائی کے بعد جا کر بڑھنا شروع ہوا ہے۔ صفائی کا موجودہ شعور اس سے بہت پہلے آ چکا تھا۔ اس لئے صرف ہائی جین اس کی وضاحت نہیں کرتی۔ اس پر کچھ متبادل خیالات بھی ہیں۔
مختصر یہ کہ ہمیں معلوم نہیں کہ الرجی کیوں ہے؟ مونگ پھلی کھا کر فوت ہو جانے سے یقینی طور پر ارتقائی فائدہ نہیں تو پھر ایسا کیوں کہ کسی شے کے بارے انتہائی حساسیت کچھ لوگوں میں برقرار رہتی ہے۔ یہ ایک معمہ ہے۔
امیون سسٹم کی باریکیاں سلجھانا صرف ذہنی مشق نہیں۔ جسم کے اپنے اس دفاعی نظام کو بیماریوں کے خلاف استعمال کرنے کے طریقے تلاش کر لینا میڈیسن مین بڑی تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ یہ امیونوتھراپی کا طریقہ علاج ہے۔ اس میں دو طریقوں نے توجہ حاصل کی ہے۔
ایک امیون چیک پوائنٹ تھراپی ہے۔ امیون سسٹم کا پروگرام کسی مسئلے کو حل کرنا اور پھر واپس چلے جانے کا ہے۔ ویسے جیسے فائر بریگیڈ آگ بجھاتا ہے اور جب بجھ جائے تو پھر واپس چلا جاتا ہے۔ امیون سسٹم بھی اسی طرح کرتا ہے۔ ایک بار آگ بجھ گئی تو راکھ پر پانی پھینکتے رہنا بے کار ہے۔ اس کے پاس ایسے سگنل موجود ہیں جو یہ طے کرتے ہیں کہ مسئلہ حل ہوا، اور اب واپس جا کر اگلے بحران کا انتظار کریں۔ کینسر اس ڈیزائن سے فائدہ اٹھانا سیکھ جاتے ہیں۔ یہ خود رکنے کا سگنل بھیجتے ہیں۔ امیون سسٹم انہیں مارنے کی کوشش کرتا ہے تو ان کے بھیجے گئے رکنے کے سگنل اسے چکمہ دے کر اس حملے کو روک دیتے ہیں۔ چیک پوائنٹ تھراپی یہ کام کرتی ہے کہ امیون سسٹم کو روکنے کے سگنل نظرانداز کرنا سکھا دیتی ہے۔ یہ تھراپی کئی کینسرز میں معجزاتی طور پر کام کرتی ہے۔ کئی لوگ جنہیں آخری سٹیج کا میلانوما تھا، وہ اس کی مدد سے مکمل ریکوری کر چکے ہیں۔ لیکن یہ طریقہ صرف کبھی کبھار کام کرتا ہے۔ ایسا کیوں؟ اس کا ٹھیک معلوم نہیں اور دوسری طرف اس کے سنجیدہ سائیڈ ایفیکٹ ہو سکتے ہیں۔
توقع ہے کہ امیون سسٹم کو بہتر سمجھ کر اسے باقاعدہ استعمال کیا جا سکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاج کا دوسرا طریقہ Chimeric Antigen Receptor T-Cell تھراپی کہلاتا ہے اور یہ اپنے نام ہی کی طرح پیچیدہ اور ٹیکنیکل ہے۔ اس میں کینسر کے مریض کے ٹی سیل میں جینیاتی تبدیلی لانا ہے جو انہیں کینسر کے خلیات پر موثر حملہ کرواتا ہے۔ یہ کئی اقسام کے خون کے کینسر میں اچھا کام کرتا ہے لیکن یہ نہ صرف کینسرزدہ بلکہ صحت مند سفید خلیے بھی مار دیتا ہے اور مریض کو انفیکشن کا خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
لیکن امیون سسٹم تھراپی کا اصل مسئلہ ان پر آنے والی لاگت ہے۔ کار ٹی سیل تھراپی پر ہونے والا خرچ ایک مریض کے لئے پانچ لاکھ ڈالر تک ہو سکتا ہے۔
ڈینیل ڈیوس سوال کرتے ہیں کہ “کیا صرف انتہائی امیر لوگوں کے لئے ایسے علاج بنائے جائیں؟” لیکن ظاہر ہے کہ یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply