سنگل پلیٹ دال اور شیر۔۔۔۔حسیب حیات

جمعہ کی نماز کے لئے میں دفتر سے تقریباً  ایک بج کر پندرہ منٹ پر نکلتا ہوں۔ ریل گاڑی کی پٹڑی سے جڑ کر تیز قدم اٹھاتا ہوا ڈیڑھ بجے کی جماعت تک بمشکل پہنچ پاتا ہوں۔ نماز سے فارغ ہوکر دفتر واپسی پر  کبھی کبھار میں پھاٹک سے چند قدم پہلے آتے ہوٹل پر آ بیٹھتا ہوں۔ یہ ہوٹل دس بائی اٹھارہ سا ئز کی دکان میں ہے۔ دو قطاروں میں رکھی گئی سات عدد پلاسٹک کی چوکور میزوں  کے گرد کچی پلاسٹک  کی چار چار بے آرام کرسیاں اس کے علاوہ ایک عدد کاؤنٹر ، ایک بیرا اور نانبائی ،بس اتنی سی افرادی و غیر افرادی قوت سے اس ہوٹل کا مالک یہ غریب ہوٹل چلا رہا ہے۔ اس ہوٹل میں سو روپے کی  مرغ پلیٹ ستر کی سبزی اور ستر کی ہی دال مل جاتی ہے ۔ تڑکہ لگانے کی سکت ہو تو پیٹ کے ساتھ دل بھی خوش ہو جاتا ہے۔ دال کی سنگل پلیٹ پینتیس روپے کی ملتی ہے ۔ رہ گیا سلاد تو کوئی بڑا بنا پھرتا نواب خواہش کرے تو دس پندرہ روپے کا اضافی بوجھ ڈالے وہ بھی آگے رکھ دیا جاتا ہے۔

اس ہوٹل میں ایک طرف کی دیوار پر دو کیلنڈر لگے ہوئے ہیں ۔ ترکی کی دو خوبصورت مساجد کی منظر کشی کرتے یہ کیلنڈر سالوں کی گرد اپنے عکس میں سموئے ہوئے  سال 2016  کے گزرے شب روز کی یاد دلانے کے  علاوہ کسی کام کے نہیں ہیں۔ اس ہوٹل   میں پھیکے رنگ دکھاتا ، دکھ بھری آواز سناتا ہوا ٹی وی بھی اندر کی دیوار کے ساتھ لوہے کے قبضوں میں بندھا ہوا ہے۔ آواز اونچی ہو تو کانوں کے لئے عذاب بن جاتی ہے اور دھیمی کر لی جائے ایسی مشکل زبان بن جاتی جسے سمجھنے کو سنیاسی باوا درکار ہوتا ہے۔

اس جمعہ بھی میں بعد از نماز ہوٹل میں آبیٹھا۔ میں ہوٹل میں داخل ہونے والا پہلا بندہ تھا۔ٹی وی آن تھا مگر خاموش تصویریں گھماتا چلاتا پھر رہا تھا۔ دل میں اسی خاموشی کو قائم رکھنے کی نیت کئے میں آخری کرسی پر جابیٹھا۔ اب ٹی وی میرے سر کے اوپر تھا اور میں اور ٹی وی یک رخ ہوئے بیٹھے تھے ۔ چند منٹوں کے بعد ہوٹل میں گاہکوں کی آمد ہونے لگی، تقریباً  دو بجے تک سیٹ ڈھونڈنا مشکل ہوگیا تھا۔ بیرے کے جسم میں بجلی کی سی تیزی آچکی تھی۔ مگر حیرت انگیز طور پر ماحول کا سکوت بدستور قائم تھا۔ میں نے پورے منظر کا احاطہ کرنے کو نظریں گھمائیں۔۔۔

میرے ارد گرد رنگ ساز ،دہاڑی دار مزدور ،چھابڑی فروش اور فرنیچر بنانے والے نیم ماہر دیہاڑی دار بیٹھے بھوک سے لڑائی لڑنے میں مصروف تھے مگر اہم بات یہ تھی سب کی گردنیں پینتالیس کا زاویہ بنائے اوپر کو اٹھی ہوئی تھی ۔ ہر آنکھ ٹی وی  پر جمی پڑی تھی ۔ سب لوگ خبروں کی گزر تی پٹیوں میں سے اپنے مطلب کی خبر نکالنا چاہ رہے تھے۔

یہاں مجھے اندازہ ہوا کہ یہ دیہاڑی دار مزدوری کرنے والا طبقہ ان پڑھ نہیں ہے۔ ٹی وی کی آواز بدستور بند تھی۔ لگ بھگ دو درجن انسانوں کی آنکھوں میں شرارت ، امید اور جھلکتی پریشانی کے ملے جلے تاثرات مجھے اپنی گرفت میں لئے ہوئے تھے ۔ان تاثرات کی انتہا دیکھنے کو دل بے تاب ہونے لگا۔ یکدم میری نظر دیوار پر لگے کیلنڈر پر پڑی۔  2016  کے گزرے سیاسی حالات  نظروں کے سامنے دھمال ڈالنے لگے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دو بج  کر بیس منٹ پر ٹی وی کی آواز کھول دی گئی ۔ فیصلے  میں تاخیر کی خبر میرے کانوں سے ٹکرائی اور میں فورا ً کرسی چھوڑ کر ہوٹل سے باہر   نکلا۔ کاؤنٹر پر پیسے دیتے ہوئے میں نے گردن گھما کر ٹی وی کی طرف دیکھا۔ جس پر خبر چل رہی تھی “میرے شیرو فیصلہ جو بھی آئے ہر گز گھبرانا نہیں”۔۔یہ خبر سن اور پڑھ کر میں نے جھٹ منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔ جیب میں بقایا رقم ڈالتے ہو ئے اللہ جانے کیا ہوا کہ میں دوبارہ سے ہوٹل کے اندر تک گیا اپنے دائیں اور بائیں نظر گھمائی اور پھر واپس دفتر کی راہ لی۔ چلتے چلتے دل میں اٹھا ایک خیال میرے لبوں پر مسکراہٹ لے آیا ۔ ” سنگل پلیٹ دال کھانے والے شیر ان لیڈروں کو بھلا د نیا میں کہاں ملیں گے۔

Facebook Comments

حسیب حیات
ایک پرائیویٹ بنک میں ملازم ہوں اسلام آباد میں رہائش رکھے ہوئے ہوں اور قلم اُٹھانے پر شوق کھینچ لاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply