• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اشیتاق احمد نوری کے ابتدائی کارنامے: میدانِ عمل میں پہلا قدم(3)-خنجر عظیم آبادی

اشیتاق احمد نوری کے ابتدائی کارنامے: میدانِ عمل میں پہلا قدم(3)-خنجر عظیم آبادی

اشتیاق احمد نوری عرف شبِ دیجور کا عدم سے وجود میں آنے کا مختصر بیان پیچھے گزر چکا، یہ خانہء چاقو کا چراغ تھا، چراغ جس کا قلب تاریک اور چہرہ مصنوعی نور کا مشتبہ استعارہ بنا۔یہ خاندان چاقو کا نوراوردل کا سرور تھا۔نوری کے بعد کئی ننھے چراغ جلے لیکن ان کی قسمت میں مانگے کا وہ اجالا نہ تھا جو نوری کو نصیب ہوا۔نوری شہر کے گوشے میں خود بخود عالم وجود میں آئی پر تعفن بستی کا وہ خوش نصیب نونہال تھا جس نے مدرسہ فرنگی (انگریزی اسکول ) میں داخلہ لیا۔ اس کی رگوں میں دو بدخصال فرد کے لہو کا فسادی آمیزہ شیطانی رفتار سے محو گردش تھا، یہ خاندانی پس منظر میں ایک اضافی خصوصیت تھی۔ اور یہی وہ مخصوص اضافت تھی کہ صغیر سنی میں ہی اس کے اعضائے مخصوصہ میں تلذذ کے بلبلے پھوٹنے لگے ۔طبعیت میں بے کلی، بے صبری ، ندیدگی اور لچے عاشقوں کی اداؤں نے رنگ جماناشروع کردیا ۔ کئی دفعہ استاد کی بید نے اس کی چوتڑوں کو لال کیا ، کئی دفعہ اسکول سے بے آبرو ہوکر نکلا، کبھی بیت الخلاء میں حرکتِ عجیب میں منہمک پایا جاتا ، کبھی کسی جھاڑی کی آڑ میں کسی عمر سے عاشقی فرماتا ۔
چاقو نے دادا جان کی نصیحت گرہ سے باندھ رکھی تھی۔ اس نے نوری کی بے راہ رویوں او رتعلیم سے تغافل کے باوجود اپنی تمام تر قوت صرف کردی، وہ کج رو ہوتا ، چاقو اسے اپنی دھار دکھاتا ، اسے چمکاتا اور راہِ راست پر لاتا، اس طرح نوری عرف شبِ دیجور کی تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔جمہورا اور کیلی بھی شبِ دیجور کی تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کے لیے جیب تراشی کا سلسلہ دراز کرتے چلے گئے ، دن تو دن اب راتوں میں بھی ان کی انگلیاں متحرک ہوگئیں ۔اتنی مشقت سے ان انگلیوں میں ورم آجاتا، کبھی جمہورا لوگوں کے ہاتھ لگ جاتا تو اچھی خاصی دھنائی ہوجاتی ، پولس آتی پکڑ کر لے جاتی ، ظاہر ہے جمہورا کی رہائی کے لیے کیلی کو ایک دوسری مشقت بھی کرنی پڑتی، کبھی خود پکڑی جاتی تو اپنی رہائی کے لیے بھی آزمودہ حربہ استعمال کرتی۔ قصہ مختصریہ کہ جمہورا اور کیلی نوری عرف شب دیجور کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے جان کی بازی لگا چکے تھے۔ اگر کبھی مورخ ان حالات کا جائزہ لے گا تو ایسی بے مثال قربانی اسے خال خال ہی نظر آئے گی ۔
بارہ تیرہ کی عمر میں نوری نے ایک اور گل کھلایا، پتہ نہیں لذت نظارہ کا یہ کھیل کب سے جاری تھا، وہ تو دفعتا’’ رفع حاجت کرتی ہوئی مستورات میں سے کسی ایک کی نگاہ ہلتی ہوئی جھاڑیوں پر چلی گئی، کیا دیکھتی ہے ، خدا کی سنوار نوری پالتی مارے ایک پودے کی شاخ کو اپنی انگلیوں سے ایک طرف ہٹائے بڑے مزے سے پرلطف نظارے سے محظوظ ہورہا ہے۔ محلے کی مستورات نے چاقو کے حضور یہ شکایت درج کرائی کہ چار دن کا لونڈا ان کی شرم گاہوں کو حریصانہ نگاہوں سے تاڑتا رہتا ہے ۔ چاقو نے پوتے کو بہت سمجھایا ۔ غصے میں ایک بار پٹائی بھی کی لیکن آخر خون تو اسی کا تھا، اس پر طرؑ ہ کیلی کی کوکھ سے جنم ، آخر تلذذ کے بلبلوں کے پھوٹنے کا عمل بند ہوتا تو کیسے۔
ابھی نوری دسویں جماعت میں پہنچا ہی تھا کہ پوری طرح ابال پر آگیا۔ چچی مستانی بائی اس کے قریب سے گزری تو اس کی آنکھیں چچی کی پشت سے پھسلتی ہوئی بامِ قوس پر پہنچ گئیں اور وہاں سے پھسل کر ٹانگوں کے تھرکن میں الجھ گئیں ، اسے خیال آیا کہ ابھی ابھی اس نے دو تربوزوں کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھا ہے، خون میں بلبلوں کے بننے اور پھوٹنے کا عمل تیز ہوگیا۔ وہ دوڑ کر چچی مستانی بائی کے پاس پہنچ گیا اور بے ساختہ لپٹ گیا۔ عمر کی ڈھلان پر ، بھربھری زمین بکھرنے سے قبل ان ننھے حلقے کے احساس سے تن گئی، مستانی کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ نوری کے کارناموں سے آشنا تھی، اسے لگا اس شاطر شیطان کو زیادہ سکھانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اب حال یہ تھا کہ سب کے سامنے نوری کی چچی تھی اور جھونپڑی کے نیم اندھیرے میں استانیء ہذیانِ لذت ۔القصہ مختصر یہ کہ نوری چچی کی خدمت میں شب وروز حاضر رہنے لگا۔ یار دوستوں کو خبر ہوئی ، ان طبیعت بھی بے صبر ہوئی، لیکن نوری نے ان کی پرواہ نہ کی ، کوئی کوشش نباہ نہ کی ۔ یاروں نے ارادہ باندھ لیا، یہ ٹھان لیا کہ نوری کو مزہ چکھائیں گے، اسے اس کی نانی یاد کرائیں گے۔ایک روز مستانی بائی کی جھونپڑی کے سامنے غل مچا، لونڈے بالے ، جوان بوڑھے سب یکجا ہوئے، اندر سے نوری کو جب کھینچ کر باہر لایا گیا تو وہ لباس فطرت میں تھا۔ ۔پھر ارریہ شہر نے انگشت بدنداں ہوکر یہ تاریخی نظارہ بھی دیکھا کہ نوری کے گلے میں اسکا پائجامہ کو نشان عبرت بن کر جھول رہا تھا، اس چہرے پر سیاہی مل کر گدھے پر بیٹھا کر گلیوں گلیوں چوک چوراہے گھمایا گیا کہ سند رہے اور اذہان پراگندہ کے کام آوے۔آخر میں اسے شہر بدر کردیا گیا، دھمکی دی گئی کہ اگر دوبارہ نظر آیا تو جان سے جائے گا ۔ چار و ناچار چاقو کو اپنے خاندان دستِ دراز کے ہمراہ ایک گاؤں کا رخ کرنا پڑا ۔اور گاؤں سے ذرا پرے اس خاندان نے اپنی جھونپڑی ڈالی اورپیشہ دیرینہ سے ازسر نو وابستہ ہوگیا۔
سلسلہء تعلیم ملتوی نہ ہو ، اس واسطے چاقو نوری کو ساتھ لیے شہر پہنچا اور ایک چٹائی ہوٹل میں برتن دھونے کے کام پر رکھوا دیا، رات میں جھوٹے برتنوں کو دھونے کے عوض ہوٹل کے مالک نے بکریوں کی کوٹھری میں نوری کی رہائش کا انتظام کردیا ۔چاقو نے سخت تاکید
کی کہ برتن چمکا کے دھوئیو، مالک کو خوش رکھیو، ورنہ اس شہرِ بے درداں میں کوئی ٹھور ٹھکانہ نہیں ۔ رات میں برتن مانجھ کر نوری بکریوں کے ساتھ کوٹھری میں سو جاتا ۔اچانک چٹائی ہوٹل کے مالک نے غور کیا کہ بکریاں مضمحل ہوتی جاتی ہیں ، اس نے ایک بندہ خاص بکریوں پر نگاہ رکھنے کے لیے لگایا۔ جب اس بندے نے ہوٹل کے مالک کو پھسپھسا کر ایک المناک واقعہ سنایا تو مالک کی تو جیسے جان ہی نکل گئی ۔ مالک نے فورا’’ چاقو کو طلب کیا اور اسے مذموم المناک واقعہ سے باخبر کیا، چاقو بھی اس سنسنی خیز انکشاف کی تاب نہ لا سکا اور پاس ہی پڑے سٹکے سے نوری کی وہ خبر لی کہ بیان سے باہر ہے۔
ہوٹل سے بے آبرہ ہوکر نکلنے کے بعد نوری ازسرنو نوکری کی تلاش میں نکل پڑا۔ کرنا خدا کا کہ اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوئی جو طوائفوں کا دلال تھا ۔دونوں کی فطرت کا میلان ہوا اور گاڑھی چھننے لگی ۔نوری نے بکریوں کے غم کو یادِ ماضی بنا کر غلط کیا اور خانہٗ خراب ، محشر زمانہ ، حسن آراء کے کوٹھے پر جا بیٹھا، یوں کہیں کہ پیشہ ء دلالی اختیار کیا ۔ کالج سے آکر نہا دھو کر سستی خوشبو میں خود کو ڈبو ، آنکھوں میں سرمے کی سلائی پھیر ہاتھوں میں گجرا باندھ منہ میں پان دبا کر نکڑ پر کھڑا ہو جاتا ۔اور آنے جانے والوں کو تاڑتا رہتا ، کبھی کبھی لوگوں کے سامنے ہلکی آواز میں گاتا .’’لوٹ لو بھرت پور راجا‘‘۔گاہک کانوں میں جیسے شہدگھل جاتا اور جسم میں سنسنی پیدا ہوجاتی ، وہ فورا’’ نوری کے ساتھ کوٹھے کی سیڑھیا ں چڑھنے لگتا۔نوری ایک کامیاب و کامران دلال بن چکا تھا۔
کامیاب دلالی کے ساتھ ہی دن بھر کالج مین لونڈوں کا سرغنہ بننے کی کوشش کرتا ۔ پڑھائی لکھائی میں طبیعت لگتی نہیں تھی دادا جان کی دعاؤں کی برکت کی وجہ سے معجزاتی طور پر تعلیمی سیڑھیاں چڑھتا جا رہا تھا ۔
گریجویشن اوسط نمبروں سے پاس کرکے طوائفوں کا ایک بڑا اور بہترین چکلہ چلانے پر غور کر ہی رہا تھا کہ گاؤں سے چاقو کی بیماری کی خبرآن پہنچی ۔خبر آئی کہ چاقو کے پیٹ میں رہ رہ کر تیز درد اٹھتا ہے اور بیہوشی طاری ہو جاتی ہے ۔نوری فوراََ گاؤں گیا اور چاقو کو لے کر شہر آ گیا ۔ ایک بدنام زمانہ ڈاکٹر کے شفاخانہ میں داخل کرایا ۔ڈاکٹر سے اسکا پرانا یارانہ تھا ۔ نوری کو ڈاکٹر کے خفیہ دھندے کے بارے میں خوب معلوم تھا اس نے ڈاکٹر سے بات کی اور مناسب قیمت پر چاقو کا ایک گردہ فروخت کر دیا ۔ارادہ تھا کہ اس نیک کمائی سے ایک مکان خرید کر بڑے پیمانے پر جسم فروشی کا دھندہ شروع کروائے گا ۔ مگر برا ہو چاقو کا کہ اسے اپنی جسمانی مشین میں سے کسی پرزے کی کمی کا شدت سے احساس ہوا اور وہ کسی خدشے کے تحت بے چین ہوا ۔ شفاخانے کی ایک نرس جو شاعری کا ذوق رکھتی تھی جس کا دل چاقو نے شعر سنا سنا کر جیت لیا تھا ۔ اس نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر یہ انکشاف کیا کہ اس کے پوتے نے ڈاکٹر کے ہاتھوں اس کا ایک گردہ فروخت کر دیا ۔ چاقو کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور اس نے جمہورا کے ساتھ مل کر واویلا کیا ۔ جلد ہی یہ خبر شہر بھر میں گشت کرنے لگی کہ ایک پوتے نے اپنے ہی دادا کا گردہ فروخت کردیا۔(جاری)
ذیل مین سورت دل آزار کی والدہ ، بدنام زمانہ جیب کتری ’’کیلی ‘‘ کی تاریخی تصویر ۔ پس اے دوستوں اس عکس قدیم کو دیکھو اور عبرت پکڑو

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply