تصورِ خدا اور تصوف /ڈاکٹر مختیار ملغانی

عمومی مباحثہ یوں ہے کہ تمام لوگ ایک ہی خدا کی سمت رواں ہیں، بس راستے مختلف ہیں، ایسا ہے تو اختلاف رائے کی شدت اور جنگ و جدل سمجھ سے بالاتر ہیں، اس تضاد کے نتیجے میں مذہب کو مکمل جھٹلانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔
بحث یہ نہیں کہ خدا ایک ہے یا ایک سے زیادہ ، لیکن خدا کا تصور ایک قطعاً نہیں ہے، اس بابت انسانوں کا شعور دو بڑی شاخوں میں منقسم ہے، ایک وہ جو خدائے واحد پر یقین رکھتے ہیں، ابراہیمی مذاہب اسی کیٹاگری میں آتے ہیں، الہامی کتابوں کے مطابق اس کی ابتداء آدم سے ہوئی، دوسرا تصور وہ ہے جسے ماہرینِ الہیات فطری مذہب سے جوڑتے ییں، فطری مذہب کی شروعات آدم سے پہلے کی ہے، فطری مذہب کے علمبردار بغیر کسی واسطے کے مرکزی وجود سے جڑے ہوئے تھے، انہیں کسی زبان کی ضرورت نہ تھی، باطنی حواس کہیں اجاگر اور تیز تھے، وہ سب ایک ہی مرکزی وجود کا حصہ تھے جیسا کہ قطرہ سمندر کا حصہ ہے، یہی فطری مذہب ہے جسے ابدی حکمت بھی کہا جاتا ہے، وقت کے ساتھ اس فطری مذہب کی کئی شاخیں سامنے آئیں جن میں ہندومت، بدھ مت، نیو پلاٹونزم، زرتشتی مذہب اور یونانی فلسفہ وغیرہ شامل ہیں، فطری مذہب کی یہ تمام شاخیں اپنی میٹافزیکل بنیاد میں ایک ہیں۔ یہ فلسفہ وحدت الوجود کی تائید کرتا ہے ، اسے ایک سیڑھی سے تشبیہ دی جا سکتی ہے جہاں انسان نچلی سطح پر کھڑے ہوتے ہوئے بھی اوپر والی سطح کو دیکھ سکتا ہے، ممکن ہے کہ سب سے اوپری سطح نظروں سے اوجھل ہو لیکن قدم بہ قدم سب سے اوپری سطح پر پہنچا جا سکتا ہے۔
دوسری طرف خدا کا وہ تصور ہے جو انبیاء کے ذریعے انسانوں تک پہنچا ، ان انبیاء کی شریعتیں مختلف ہو سکتی ہیں لیکن تصورِ خدا ایک ہی دھاگے سے پرویا گیا ہے، الہامی مزاہب میں خدا، حقیقت ، روح اور انسان کا تصور فطری مذہب سے بالکل مختلف ہے، ان مزاہب میں خدا اس پورے کائناتی وجود کے باہر کی بات ہے، وجود یا کائنات خدا کی تخلیق ضرور ہے لیکن یہ خدا نہیں، کائنات خدا کا پروجیکٹ ہے جہاں ہر وجود اور ہر کردار بامقصد ہے ، لیکن یہ پورا کائناتی وجود خدا سے ایسے ہی جدا ہے جیسے سانس لیتا مصور اپنی بنائی گئی بے جان تصویر سے جدا ہے، ایسے میں غور وفکر یا وجدان کی مدد سے سیڑھی کی سب سے اوپری سطح پر پہنچنا ممکن نہیں، اس کیلئے سب سے مؤثر ہتھیار اس منتخب شخص کی گواہی ہے جسے زمانہ صادق اور امین کا لقب دیتا ہے۔
آدم کو پہلا انسان روحانی لحاظ سے تو مانا جا سکتا ہے لیکن جسمانی طور پر ان سے پہلے بھی انسان موجود تھے، آدم میں جو روح پھونکی گئی وہ دراصل ایک چنگاری تھی جو نہی عن المنکر کیلئے لازم تھی، صرف امربالمعوف مقصد ہوتا تو اس چنگاری کی ضرورت نہ تھی، یہی چنگاری دراصل شیطان کیلئے تکلیف کا باعث تھی۔ فطری مذہب پر رہنے والا قدیم شخص ماحول سے کوئی دقت محسوس نہ کرتا تھا، وہ مافوق الفطرت صلاحیتوں سے مالا مال تھا، کسی بھی قسم کے اندرونی یا بیرونی تنازعوں سے مبرا تھا، آدم اس خدائی چنگاری کے ہتھیار سے لیس ہوکر آئے تو تنازعے نے جنم لیا، یہی چنگاری ہستی کو وجود سے علیحدہ کرنے کا سبب بنی، اندرونی کشمکش نے اسے ظاہری وجود سے جدا کیا، نتیجے میں فطرت سے یک جان یک قالب ہونے کا تصور ٹوٹا۔
یہیں سے دو بڑے گروہ سامنے آئے، آدم کے حمایتی اور ان کے مخالفین، آدم کے یہ مخالفین وحدت الوجود کو قائم رکھنے کی جدوجہد میں غرق ہوئے، وہ اپنے بے فکر ماضی کو واپس جانا چاہتے تھے، یہاں نفسیات کے نکتۂ نگاہ سے فرد جو بلاوجہ ، مونجھ، محسوس کرتا ہے درحقیقت یہ انسان کے آدم سے پہلے والی ابتدائی دور کی یاد ہے جس سے وہ خود کو جدا نہیں کر پاتا اور اسی کیفیت کو لوٹنا چاہتا ہے ، فطری مذہب کے ہاں خدا کا تصور اتنا ہی ہے کہ کائنات یا وجود کے ساتھ ایک ہو کر رہا جائے، انگریزی میں اس تصور کو ہم
Metaphysical concept of God
کہہ سکتے ہیں ،
آدم اور ان کے حمایتی جنہوں نے وجود سے کہیں پرے خدا کا تصور پیش کیا، اس کیلئے شاید
Monotheological concept of God
کی اصطلاح درست رہے گی۔ اس تصور میں نہی عن المنکر کی اہمیت اور ضرورت اس قدر زیادہ ہے کہ انبیاء کے نزول کا سلسلہ بہت طویل اور مسلسل رکھنا پڑا، معروف انبیاء کی پوری سیرت ظلم کے خلاف جدوجہد سے تعبیر ہے، یہاں ضمنی طور پر یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ دنیا میں جتنے بھی سماجی، معاشی یا فکری انقلاب برپا ہوئے، ان کی جڑوں میں اسی الہامی نہی عن المنکر کی چنگاری کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا، کچھ لوگ عیسائیت کو لے کر اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ چاند کی میٹھی چاندنی کا عکس ہے، حالانکہ اسی مذہب میں سورج کی جھلسا دینے والی تپش بھی موجود ہے کیونکہ کوئی بھی ابراہیمی مذہب نہی عن المنکر سے خالی نہیں۔
اب تصوف کے بنیادی فلسفے پر اگر غور کیا جائے تو میری رائے میں اس کے تانے بانے فطری مذہب یا ابدی حکمت سے جا ملتے ہیں، ابراہیمی مذاہب میں اس کی گنجائش کا نکالنا قدرے مشکل ہو جائے گا کیونکہ درج بالا دو تصورِ خدا کسی صورت ایک نہیں ہو سکتے۔
( ہمارے فاضل دوست گل رحمان ہمدرد صاحب نے تصوف پر گزشتہ دنوں سیر حاصل گفتگو کی اور ہم جیسے طلباء کو سیکھنے سمجھنے کا موقع ملا، اس موضوع پر خاکسار کی یہ رائے انہی مضامین کے تناظر میں ہے )

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply