• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پوٹینشل ریپیسٹ اور ڈک پکس سنڈروم کا شکار معاشرہ /تحریر: عبدالستار

پوٹینشل ریپیسٹ اور ڈک پکس سنڈروم کا شکار معاشرہ /تحریر: عبدالستار

جہاں زبردستی لوگوں کو پارسا، نیکوکار یا باحیا بنانے کا چلن ہوتا ہے وہاں منافقانہ رویے جنم لینے لگتے ہیں اور ایک چہرے پر کئی چہرے چڑھانا معاشرتی مجبوری بن جاتا ہے،پھر وہاں اس قسم کے گھٹیا جنسی رجحانات کا منظر عام پر آنا کوئی اچنبھے والی بات نہیں ہوتی۔فطری تقاضوں کو جتنے مرضی تقدسی چولے پہنا لیں وہ اپنے حقیقی خدوخال و ہیئت میں “جوں کے توں”ہی رہتے ہیں ان پر ہمارے پرہیزگاری فارمولوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ انسانی تخلیق کا عمل مرد اور خاتون کے بغیر ناممکن ہے، کروڑوں ہا سال کی تاریخ تو ہمیں یہی کچھ بتاتی ہے، جب اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں تو پھر خواتین کو دوسرے درجے کا انسان قرار دے کر سماجی بندوبست سے الگ تھلگ کیسے رکھا جا سکتا ہے؟

اٹریکشن و فیلنگز کے جو بنیادی رجحانات مرد میں پائے جاتے ہیں وہی خاتون میں بھی پائے جاتے ہیں ان میں بھلا تفریق کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟
زندگی کو جینے اور سیلیبریٹ کرنے کے پیمانے دونوں کے لیے مختلف کیسے ہو سکتے ہیں؟
اگر مرد کو خواتین اچھی لگتی ہیں تو کیا خواتین کو مرد اچھے نہیں لگتے؟
کیا دو انسانوں کو محض جینڈر یا سیکس کی بنیاد پر تقسیم، تفریق یا “ادرز” کی بنیاد پر الگ الگ  ڈربوں میں بند کیا جا سکتا ہے؟

اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کیا دو انسانوں کو جنس کی بنیاد پر الگ الگ کردینے سے ایک دوسرے کے بارے میں مثبت رجحانات پیدا ہوں گے یا منفی؟

اس اہم سوال کی بنیاد پر اگر ہم ایسے معاشرے کا جائزہ لیں جو بہت زیادہ مذہبی ہونے کے ساتھ ساتھ مدارس و مساجد یا خانقاہوں سے مالا مال ہونے کے علاوہ مذہبی اجتماعات منعقد کروانے میں بھی سرفہرست ہو تو ایک بھیانک سی صورت حال یا منظر نامہ سامنے آتا ہے، ایسے معاشروں میں مذہبیت تو بہت زیادہ پائی جاتی ہے مگر پریکٹسنگ شرح نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے،لوگ دکھاوے یا بناوٹی قسم کے مذہبی یا پارسا ہوتے ہیں مگر اندر سے پورے کھوچل یا ٹھرکی ہوتے ہیں۔
مذہبی چولا یا پرہیزگاری کا پرسونا ماسک ان کا ایک طرح سے معاشرتی بھرم ہوتا ہے مگر آج کے دور میں یہ بھرم بھی چاروں شانے چت ہو چکا ہے۔
جب سے دنیا”خالق دیکھ رہا ہے”کے اسٹیکرز سے کیمرہ ٹیکنالوجی پر منتقل ہوئی ہے بڑے بڑے مہان ننگے ہونے لگے ہیں اور پارسائی کے بناوٹی لبادے آہستہ آہستہ دھلنے لگے ہیں۔

“معاشرتی عزیز الرحمن”چاہے ہ مدارس میں ہوں یا ادب کی دنیا میں براجمان ہوں، صحافیوں میں ہوں یا سرکاری محکموں میں،یونیورسٹیوں میں ہوں یا سکول کالجز میں اب کیمرے کی ظالم آنکھ سے کوئی نہیں بچ سکتا۔

سخت گیر یا مورل پولیسنگ کرنے والے معاشروں میں پورن سائٹس دیکھنے والوں کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے،یہاں خواتین برقعوں میں ہونے کے باوجود بھی غیر محفوظ ہوتی ہیں۔ درجنوں ویڈیوز ایسی موجود ہیں جس میں پارسائی کا دم بھرنے والے اپنے نیک ہاتھوں سے سے خاتون کے جنسی اعضاء ٹٹولنے میں مصروف ہیں۔اب فطرت کو آ پ کی وقتی پارسائی سے کیا غرض؟

جو ہے سو ہے،بھلے چہرے پر جتنے مرضی خول چڑھالیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
ہاں اس بات کا زعم یا اطمینان ضرور ہوتا ہے کہ ہم پرہیزگاری کے بلند مرتبے پر فائز ہیں۔

اب اوپر پوچھے گئے اسی بنیادی سوال کو مہذب معاشرے پر اپلائی کرکے دیکھ لیتے ہیں کہ وہاں دو انسانوں کو جنس کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی بجائے “برابر اور انفرادیت” کا درجہ دینے سے کیا اثرات پڑتے ہیں؟
کیا وہاں دن رات لوگ سیکس کرتے رہتے ہیں؟
یا محض جنسی عیاشیاں ہی ان کا اوڑھنا بچھونا بن چکی ہیں؟

جیسا کہ ہمارے ذہنوں میں ان کے متعلق یہی تصور نجانے کب کا پایا جاتا ہے۔
جب آ پ تعصب سے بچ بچا کر اور ذہنی دیانت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان معاشروں میں جھانکنے کی کوشش کریں گے جہاں کنسینٹ، جنسی مساوات، انفرادیت اور بالغ رائے کو فوقیت دی جاتی ہے یقین مانیں آپ کے سارے دقیانوسی تصورات جو ہمارے بڑوں نے محض نفرت کی بنیاد پر ہمارے ذہنوں میں زبردستی انڈیل رکھے ہیں وہ سب کھوکھلے،بے ڈھنگے اور خواہ مخواہ سے دکھائی دینے لگیں گے۔

زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے اکیسویں صدی میں محض اتنا دیکھ لینا ہی کافی ہوگا کہ خواتین سب سے زیادہ کن معاشروں میں محفوظ ہیں؟ مذہبی معاشروں میں زیادہ محفوظ ہیں یا سیکولر؟

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ان معاشروں میں خواتین سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں جن کی معاشرت میں مذہب کا زیادہ عمل دخل یا غلبہ ہوتا ہے اور خواتین برقعے میں رہتی ہیں جب کہ وہ معاشرے جو ہمارے حساب سے راندہ درگاہ اور جہنم کا ایندھن ہیں وہاں خواتین ننگے گھوم کر بھی محفوظ ترین ہیں اور کسی کو جرات نہیں کہ وہ خاتون کی رضامندی کے بغیر اسے چھو بھی لے، زور زبردستی تو بہت دور کی بات ہے۔

ایمان یا پاکیزگی کے اصول و معیارات کے مطابق چلنے والے معاشروں میں خاتون ملبوس ہو کر بھی ننگی ہوتی ہے جبکہ انفرادیت کو انسان کا بنیادی حق سمجھنے والے معاشروں میں خاتون ننگی یا نیم لباسی میں بھی ملبوس اور محفوظ ہوتی ہے۔

ظاہر ہے انسانوں کی وقعت و اہمیت انہی معاشروں میں زیادہ ہوگی جہاں انہیں شعوری فیصلوں کا حق ملے گا، اپنی رائے بنانے میں آزاد ہوں گے۔ زندگی کے متعلق کوئی بھی فلسفہ اپنانے کی اجازت ہوگی اور خود کے جسم پر خود کی حکمرانی ہو گی۔

وہاں بلا شرکت غیرے ہر انسان چاہے خاتون ہو یا مرد اپنی اپنی ذات کے نہاں خانے میں آزاد ہوتا ہے اور اس کی نجی باؤ نڈری میں کسی کو بھی مداخلت کا کوئی حق نہیں ہوتا اور ہر کوئی اپنی “جینئوئن  سیلف” کے ساتھ سر اٹھا کر جی سکتا ہے۔ اسی لئے تو وہاں کسی کو بناوٹی ماسک پہننے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی جبکہ ہمارے معاشرے پارساؤں کی آماجگاہ ہیں جہاں کوئی نارمل انسان دکھائی ہی نہیں دیتا۔
ٹھرک، ریپ، ڈک پکس کا مکروہ رجحان یا کسی بڑے عہدے پر ہوتے ہوئے خواتین کے اعضاء کو چھونا یا دوران سفر موقع ملتے ہی اپنا عضو تناسل خاتون سے ٹچ کرنے کی کوشش کرنا یا کسی خاتون کو دیکھ کر اپنا عضو تناسل سہلانے یا کھینچنے کی کوشش کرنا جیسی مکروہات منافق معاشروں کا طرہ امتیاز ہوتی ہیں کیونکہ وہاں لوگوں کو دہری یا دوغلی سی زندگی جینے پر مجبور کیا جاتا ہے، اسی لئے تو ہمارے سماج میں بڑے عہدوں و مرتبوں پر چھوٹے لوگ نظر آتے ہیں جو انتہا کے ٹھرکی اور ہوس کے مارے ہوتے ہیں۔

بطور والدین ہمیں اپنی بچیوں کا جبری سرپرست بننے کی بجائے ایک مہربان دوست بننا چاہیے تاکہ ہماری بچیاں بلاخوف ہمارے ساتھ وہ سب شیئر کر سکیں جس کے ساتھ بد قسمتی سے معاشرتی سٹگما جڑا ہوتا ہے۔

جن بچیوں کو گھر کا اعتماد اور بھروسہ حاصل ہوتا ہے وہ کبھی بھی ان درندوں کے ہتھے نہیں چڑھ سکتیں جو استاد،گرو، باس یا ادبی مہان کے روپ میں ان کا استحصال کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ سب اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم اپنی بچیوں پر بھروسہ کریں گے اور انھیں ان کے حساب سے جینے کا حق دیں گے۔

بد قسمتی سے ہم ایک ایسے سماج کا حصہ ہیں جہاں تقریباً ہر طبقہ میں مختلف نفسیاتی امراض کا شکار لوگ موجود ہیں اور یہاں نفسیاتی مسائل کو کوئی زیادہ اہمیت بھی نہیں دی جاتی، اس قسم کے ذہنی امراض یا جنسی ٹھرک و ہوس کا علاج ہمارے ہاں محض شادی ہوتا ہے۔ اسی لئے تو شادی شدہ ہونے کے باوجود بھی یہ جنسی پرورٹ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ بدقسمتی سے اگر یہ کسی بھی روپ میں “معاشرتی سیانے” بن جائیں تو بات بہت آگے تک چلی جاتی ہے۔

جن معاشروں میں عقیدت کا راج ہوتا ہے، سوال کرنے کو ذہنی گمراہی اور اپنے بڑوں کی جی حضوری کو فخر کی علامت سمجھا جاتا ہو وہاں اس قسم کے جنسی درندوں کی چاندی ہوتی ہے۔ اپنی بچیوں کو ان درندوں سے بچانے کے لیے بہت سارا اعتماد دیجئے اور انہیں بتایئے کہ
“کوئی بھی یا کچھ بھی مقدس نہیں ہوتا اور جو کچھ بھی آپ کے سامنے ہے اس پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے، آ پ سے بڑھ کر آ پ کے ذہن و جسم پر کوئی دوسرا معتبر یا اتھارٹی نہیں ہو سکتا، آپ خود اور صرف خود ہی اپنے جسم کی بلا شرکت غیرے مالک ہیں، کسی دوسرے کو چاہے آپ کے والدین ہی کیوں نہ ہوں آپ پر حکمرانی کا کوئی حق نہیں ہے۔ جب آپ کے والدین آپ کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتے باقی رشتے تو بہت بعد میں آتے ہیں”
باقی ہمارے معاشرے میں اس قسم کا شعور پنپنے میں شائد دہائیاں لگیں گی کہ
لغزش اپنی نوعیت میں لغزش ہی ہوتی ہے اور یہ کسی سے بھی ہوسکتی ہے اس کا جنس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔اگر مردانہ لغزش کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے تو خاتون کی لغزش کو زندگی اور موت کا مسئلہ کیوں بنا لیا جاتا ہے اور خاتون کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے آ خر کیوں؟کیا وہ انسان نہیں ہوتی یا غلطیوں سے مبرا ہوتی ہے ؟

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے الفاظ دہرانا چاہوں گا جو ہماری بچیوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
پیاری بچیو
کوئی آسمان کے تارے توڑ کر لانے کا دعویٰ کرے یا تاج محل بنانے کا، محبت میں جان دینے کی  بات کرے یا کچھ بھی، جنسی تعلق کبھی نہ بننے دینا، نقصان اٹھاؤ گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply