تاریخ کے دھاگوں میں نہ الجھائیے۔۔ انعام رانا

برسوں پرانی بات ہے جب ابھی مطالعہ پاکستان دماغ پر حاوی تھا اور وہ ہی ہیروز تھے جو بہت سوں کے  اب بھی ہیں، جب خود اپنی ہی پہچان سے انجان تھا۔ اک دن پروفیسر سے کہا کہ استاد جی ویسے کیا بات ہے کہ پنجابیوں نے ہمیشہ حملہ آوروں کو ویلکم ہی کیا، ہم اتنے بزدل کیوں ہیں۔ پروفیسر نے حسب عادت سگریٹ کا لمبا کش کھینچا، جس کا مطلب تھا کہ اب میری شامت ہی ہے اور اسکے سانولے سے رنگ پر بھی سرخی چھا گئی۔ “اوئے ۔۔۔ دیا، کدی اپنی تاریخ وی پڑھ لئو” کہہ کر شروع ہوا اور پھر پنجاب کی مزاحمتی تاریخ انگلیوں پہ گنوا دی۔ پھر یہ بھی سمجھایا کہ کیوں پنجاب کی عام عوام شمال سے آنے والوں کو بس چور سمجھ کر کچھ مال دے کر رخصت کر دیتی تھی اور بھرا پیٹ کیوں جنگ و جدل کے بجائے کسی “ڈیل” پہ زیادہ مائل ہوتا ہے۔

پنجاب کی بدقسمتی اور بیوقوفی یہ ہے کہ اس نے “بڑا بھائی” بننا قبول کیا اور نظریہ پاکستان اور “ایک ہوں مسلم” کو اپنے سر پہ اٹھا لیا۔ نتیجہ یہ کہ اپنی ہی شناخت اور اس سے وابستہ تصور عزت کو تج دیا۔ اگر کسی نے پنجاب کی بات کرنے کی کوشش بھی کی تو “ہمیں پاکستانی بننا چاہیے”، “ہم پہلے مسلمان ہیں” جیسی تسلی سے دل کو سمجھا لیا گیا۔ اور اب ہوتا یہ ہے کہ جس کا دل چاہے وہ پنجاب میں کھڑا ہو کر پنجاب کو گالی دے لے، ہم اسلام اور پاکستان کے نام پہ حاضر ہیں۔ پہلے منظور پشتین آیا اور لاہور میں کھڑا بات کر گیا، ہم تالی بجاتے رہے اور اب محمود اچکزئی کہتا ہے آپ نے انگریزوں کا “تھوڑا سا ساتھ دیا” اور ہم کہتے ہیں جمہوریت کی جدوجہد کی خاطر خاموش رہو۔

پنجاب کی تاریخ راجہ پورس سے لے کر اوکاڑہ کے مزارعین تک مزاحمت کی مثالوں سے بھری ہے۔ اس میں دُلا بھٹی بھی ہے، رائے احمد خاں کھرل شہید بھی، غدر پارٹی بھی اور شہید بھگت سنگھ بھی۔ مگر ہم نے اپنے بچوں کو اپنی تاریخ پڑھنے ہی کب دی۔ انکے ہیرو تو وہ ابدالی و غزنوی جیسے لٹیرے ہیں جو ہر کٹائی پر پنجاب کی عوام کو لوٹنے تشریف لایا کرتے تھے۔ اسلام کے نام پر ہم غوری و خلجی جیسے حملہ آوروں کی حکومت کو بھی “اپنی حکومت” سمجھتے ہیں۔ ہمیں تو یہ ہی نہیں معلوم کہ آج بھی لاہور میوزیم کے باہر لگی “بھنگی توپ” لاہور کی کس مزاحمت اور کس فتح کی یادگار ہے۔

کتنے لوگوں کو معلوم ہے کہ پنجاب کے قابل فخر بیٹے مہاراجہ رنجیت سنگھ کی حکومت کی ابتدا ہی مزاحمتی تحریک سے ہوئی۔ مہاراجہ نے پہلی بار افغان سرزمین سے آنے والے لٹیروں کا رستہ بند کر کے اپنی حکومت انکے ہی گھر کی دہلیز پر قائم کر دی۔ اچکزئی نے طعنہ دیا کہ لاہور نے انگریز کا ساتھ دیا افغانوں کے خلاف۔ تاریخ سے نابلد شخص کو یہ ہی معلوم نہیں کہ عظیم مہاراجہ رنجیت سنگھ نے نا صرف انگریز کا ساتھی بننے سے انکار کیا بلکہ افغانستان پہ حملے کے لیے انگریز اور افغان شہزادے کی فوج کو پنجاب سے راہداری دینے تک سے انکار کر دیا اور فوج کو براستہ سندھ جانا پڑا۔ مگر ہم تو مہاراجہ رنجیت پر شرمندہ ہیں، کیونکہ وہ مسلمان جو نہیں تھا۔ رہی سہی کسر انگریز کی بنائی تاریخ نے نکال دی جس نے مسلمانوں کو باور کرایا کہ تمھاری زندگی تو سکھ حکومت میں بہت مشکل تھی اور وہ بہت ظالم تھے۔

پنجاب حکومت کے خلاف انگریز ناکام ہوتا رہا۔ پھر سید احمد و ہمنوا پورا یوپی سی پی چھوڑ، بجائے انگریز کے خلاف جنگ کے پنجاب حکومت کے خلاف جہاد فرمانے آ گئے۔ کیا انگریز کے خلاف جہاد فرض نہیں  تھا؟ یا پھر انگریز شرعی حکومت بنا رہے تھے؟ مگر وہ سید احمد بھی پنجابی کا ہیرو ہے کیونکہ ہم نے اسلام کی حفاظت بھی تو کرنی ہے۔ وہ تو پٹھان خود تنگ آ گئے اس بلاوجہ اور متشدد تحریک سے اور بالاکوٹ میں انکو شہادت کا جام پلا دیا۔ لاہور نے انگریز کا ساتھ تب دیا جب پوربیوں نے انگریزی فوج کے ساتھ مل کر پنجاب حکومت کا خاتمہ کیا تو اٹھارہ سو ستاون میں پنجابیوں نے انگریز کی فوج کا حصہ بن کر دِلی سرکار کا خاتمہ کیا۔ جب انگریز حکومت پورے ہندوستان پہ قائم ہو گئی تو کون سا علاقہ، کون سی قوم تھی، جس کے لوگ فوج میں بھرتی نہ  ہوئے؟ یہ مسئلہ اب معاشیات کا تھا۔

تاریخ میں مت الجھیے صاحب اور نہ  “تاریخی شکوے” کیجیے کہ ایک کا ہیرو دوسرے کا ولن ہے۔ ہمارے لیے احمد شاہ ابدالی لٹیرا اور قاتل ہے اور کسی اور کا احمد شاہ بابا، رنجیت ہمارا ہیرو ہے اور آپ کا قاتل۔ موجودہ مسائل پہ آئیے، فوج کی سیاست میں شرکت اور رفتہ رفتہ معیشت پہ قبضے پہ بات کیجیے، سیاستدانوں کی بری اور ناکام سیاست پہ بات کیجیے، اس ملک کی ڈوبتی معیشت، غربت، جہالت، بڑھتے ہوئے خوفناک مذہبی متشدد رویوں پہ بات کیجیے، ان مسائل پہ بات کیجیے جو آج موجودہ پاکستان کے عوام کے مشترک مسائل ہیں، وہ مسائل جو درہ خیبر سے لے کر وادی نیلم اور گلگت سے کراچی تک سب کو ایک جیسے درپیش ہیں۔ عوام جو ہر جگہ ہر قوم کی پس رہی ہے اور اشرافیہ جو ہر قوم کی مشترکہ بنیادوں پہ اس کے خلاف متحد ہے۔ آپ جیسوں کی گفتگو (اور آپ بھی تو اشرافیہ ہی ہیں) عوام کے اتحاد کو کمزور اور بدمعاشیہ کو مضبوط کرتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ دوستوں کو شاید بُرا لگے کہ “میرا پنجابی” کیوں جاگا۔ عرض ہے کہ دعا کیجیے ہر پنجابی کا پنجاب پن جاگے۔ پنجابی اپنے قومی تشخص سے آگاہ ہوا تو ہی دوسری اقوام کے مسائل کو سمجھ سکے گا۔ آج کے مسائل کو سمجھ سکے گا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”تاریخ کے دھاگوں میں نہ الجھائیے۔۔ انعام رانا

Comments are closed.