• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز کے نام پر سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی کا نیا گریٹ گیم/شیرعلی انجم

گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز کے نام پر سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی کا نیا گریٹ گیم/شیرعلی انجم

گزشتہ چند سالوں سے گلگت  بلتستان  میں  لینڈ ریفارمز کمیشن کے نام پر عوام مخالف پالیسی عوام پر مسلط کرنے کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ خبروں کے مطابق حکومت خطے کی کُل زمینوں کا 20 فیصد پاکستان کے ریاستی اداروں اور 10 فیصد گلگت بلتستان حکومت کے نام پر الاٹ کرکے باقی ماندہ تمام اراضی عوام میں تقسیم کرنے  کا  ارادہ رکھتی  ہے۔

اس خبر نے گزشتہ کئی سالوں سے عوام کو شش  و پنج میں مبتلا کر رکھا ہے اور تشویش پیدا ہوگئی  ہے کہ عوامی نمائندوں نے عوام کو اپنی زمینوں،چراگاہوں سے بیدخل کرنے کی ٹھان لی ہے۔ لوگ  سوال اُٹھا رہے ہیں کہ ایک طرف ہندوستان کے زیرِ  انتظام کشمیر میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کا نوحہ، دوسری طرف گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کیلئے نئی  گریٹ  گیم کا آغاز مسئلہ کشمیر سے دستبرداری اور آئین کے آرٹیکل 257 اور مسئلہ کشمیر کے تناظر میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

اس حوالے سے سال 2019 میں عوامی ایکشن کمیٹی نے گلگت میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں وفاقی  حکومت کے سامنے 6 نکاتی ایجنڈا پیش کرکے متفقہ  طور پر گلگت بلتستان میں لینڈ ریفارمز کمیشن کے نام پر سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی کے نئے گریٹ گیم کو مسترد کردیا۔ عوامی ایکشن کمیٹی آج چونکہ منقسم ہے جس میں سرکاری عوامی ایکشن کمیٹی حکومت کے ساتھ  کھڑی ہے۔باقی تمام دھڑوں کا آج بھی یہی مطالبہ ہے حکومت خطّے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے تمام فیصلوں کی پاسداری کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے  حل کیلئے رائے شماری ہونے تک خطے کے  خدوخال میں کسی قسم کی تبدیلی کرنے کا مجاز نہیں۔

یاد رہے ریاست پاکستان کے  گلگت بلتستان متنازع ہونے اور ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہونے کے حوالے سے قومی بیانئے میں 1947 سے لیکر آج تک  کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ ریاست  آج بھی خطےکو جموں کشمیرکا حصہ سمجھتی ہے اور سپریم کورٹ کے کئی فیصلے بھی یہی کہتے  ہیں ، کہ گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر سے منسلک متنازع  خطہ ہے۔لیکن اُس بنیاد پر حقوق آج تک نہیں ملے  اور سٹیٹ سبجیکٹ کی خلاف ورزی 1974 سے اب تک عروج پرہے۔اگرچہ لینڈ ریفارمز کے نام پر  متنازع  خطے کے عوام کو اپنی چراگاہوں، زرعی زمینوں سے بے دخل کرنے کی سازشوں کا سلسلہ ماضی بعید سے چلا  آرہا  ہے، جس میں مسلم لیگ ن کے دور میں جدت آئی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمٰن کی بھرپور کوششوں کے باوجود عوامی مزاحمت کی وجہ سے کامیابی نہیں ملی۔

آج تحریک انصاف عوامی  زمینوں کی بندر بانٹ کیلئے ن لیگ کے نقش قدم پر چل پڑی ہے۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر چیف سیکرٹری گلگت بلتستان بھی اس حوالے سے بہت زیادہ متحرک نظر آتا ہے حالانکہ یہ کام اسمبلی کے بھی اختیار میں نہیں کہ متنازع  خطے کی زمینوں کی رائے شماری سے پہلے چھیڑ چھاڑ کریں۔ لیکن گلگت بلتستان کے اسمبلی ممبران متعدد بار اپنی نااہلی کا اعلان کرتے ہوئے بتا چکے ہیں کہ خطے میں بیوروکریسی کے آگے عوامی نمائندوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ بے بسی کے عالم میں بہ اختیار ہونے کا پرچم لہراتے ہوئے گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے بھی لینڈ ریفارمز کے حوالے سے منعقدہ کمشنرز،ڈپٹی کمشنرز، ایس ایم بی آراور فیلڈ سٹاف کی دو روزہ کانفرنس سے خطاب میں اس مسئلے کو خطے کا دیرینہ حل طلب مسئلہ قرار دیکر لینڈریفارمز کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے ،کہ ایک ایسا ڈرافٹ لینڈ ریفارمز ایکٹ تیار کریں جو تمام اضلاع کیلئے موزوں اور قابل عمل ہو۔

بدقسمتی کی بات ہے کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے  فیصلہ سازوں کو آج تک یہ ادارک نہیں ہُوا کہ یہ خطہ چار ایٹمی ممالک کے سنگم پر واقع مسئلہ کشمیر کی اصل کُنجی ہے۔ عالمی طاقتوں کی نگاہیں گلگت بلتستان کے عوام کی ہر آواز پر   مرکوز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خطے میں بنیادی حقوق کیلئے احتجاج کرنے پر پاکستان دشمن طاقتیں ا  یسا ظاہر کرنے کی کوشش کرتی  ہیں ، جیسے گلگت بلتستان میں بغاوت شروع ہوگئی۔

انڈین میڈیا سوشل میڈیا سے ویڈیوز اٹھا کر گلگت بلتستان کو پرائم ٹائم میں کوریج دے رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا آج تک نہ ہی خطے کی آواز بنا، اور نہ ہی یہاں پر جاری انسانی حقوق خاص طور پر مسئلہ کشمیر کے تناظر میں آئین کے آرٹیکل 257 اور سلامتی کونسل کی  قراردادوں کی خلاف ورزیوں پر    عوامی آواز ارباب  اختیار تک پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوئے۔یہی وجہ ہے کہ  خطے میں کبھی خالصہ سرکار کی ایک قدیم اصطلاح کی غلط تشریح کرکے ،کبھی لینڈ ریفارمز کے نام پر زمینوں کو عوامی مزاحمت مسلسل احتجاج کے ذریعے  ہتھیانے کی کوشش جاری ہے ،جس  سے ایسا لگتا ہے کہ کچھ  عناصرنے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے اور مودی کے عزائم کی تکمیل کی قسم کھائی ہوئی ہے۔ ورنہ سیدھی سی بات ہے کہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت ایک جیسی ہے۔ وہاں آج بھی قانون باشندہ ریاست سٹیٹ سبجیکٹ رول 1927 نافذ ہے،اور غیر ریاستی باشندوں کیلئے زمینوں کی  خریداری پر پابندی ہے۔ لیکن گلگت بلتستان میں جہاں غیر مقامیوں کو جاری کردہ ڈومیسائل مسلسل سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہے، وہیں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف  ورزی کھلے عام ہورہی ہے۔ ایسے میں کس طرح ہندوستان کی جانب سے 5 اگست 2019 کو جموں کشمیر لداخ میں آرٹیکل 370 کے خاتمے پر احتجاج ممکن ہوگا۔؟

Advertisements
julia rana solicitors london

لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان میں سلامتی کونسل کی  قرارداد 13 اگست 1948 پر عملدرآمد کرکے لوکل اتھارٹی گورنمنٹ   کوقائم کریں اور مقامی اسمبلی کو آئین ساز اسمبلی کا درجہ دیں۔ یا باقاعدہ طور مسئلہ کشمیر سے الگ ہونے کا سرکاری سطح  پر اعلان کرکے گلگت بلتستان کو قانونی طور پاکستان کا حصّہ بنائیں یہی خطے کے عوام کی خواہش بھی ہے۔ ورنہ این ایف سی ایوراڈ  شامل کرنے، سی پیک میں حصّہ اور ووٹ کا حق مانگنےپر مسئلہ کشمیر کا بہانہ بنا کر زمینی  وسائل ہتھیانے کیلئے بے اختیار اسمبلی کا کاندھا استعمال کرنا پاکستان کے مفاد میں نہیں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply