پیالی میں طوفان (33) ۔ جراثیم کی سواری/وہاراامباکر

تپدق ہزاروں سال سے انسانوں کے ساتھ ہے۔ سب سے پرانا ریکارڈ ہمیں 2400 قبلِ مسیح میں مصری ممیوں میں ملتا ہے جبکہ بقراط نے 240 قبلِ مسیح میں اس مرض کو تھائیسس کا نام دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

صنعتی انقلاب کے بعد شہروں کو آبادی منتقل ہوئی اور یہ شہر میں رہنے والے غرباء کی بیماری سمجھی جانے لگی۔ برطانیہ میں 1840 کی دہائی میں ایک چوتھائی اموات اس کی وجہ سے تھیں۔ 1882 میں پہلی بار معلوم ہوا کہ اس کا قصور وار ایک چھوٹا سا بیکٹیریا mycobacterium tuberculosis ہے۔
تپدق ہوا سے پھیلنے والی بیماری ہے۔ کھانسنے کے ساتھ پھیپھڑے سے ہزاروں ننھے سے قطرے برآمد ہوتے ہیں جو ہوا میں پھیلتے ہیں۔ ان میں سے کچھ میں سلاخ کی شکل کا چھوٹا بیکٹیریا بھی ہوتا ہے۔ ایک بیکٹیریا کا سائز ایک انچ کا دس ہزارواں حصہ ہے۔ ان قطروں کا سائز شروع میں ایک انچ کا سواں حصہ ہوتا ہے۔ اگر یہ گریویٹی کی وجہ سے کر فرش تک پہنچ جائیں تو پھر یہ کہیں اور نہیں جاتے لیکن یہ جلد نہیں ہوتا اور اس کی وجہ ہوا کی وسکوسٹی ہے۔ کسی شے کو اس میں حرکت کرتے وقت اس کو ہٹانا ہے۔ اور ہوا کے مالیکیول ان کے گرنے کی رفتار سست کر دیتے ہیں۔
یہ اس ہوا میں سے گزر کر فرش کی طرف کے سفر کو ہوتے ہیں لیکن پہنچ نہیں پاتے۔
قطرے میں زیادہ تر پانی ہے اور ابتدائی چند سیکنڈ میں یہ پانی بخارات میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ وہ قطرہ جو اتنا بڑا تھا کہ زمین تک پہنچ جائے، اب باقی نہیں رہا۔ پہلے یہ لعاب کا قطرہ تھا جس میں تپدق کا بیکٹیریا تیر رہا تھا۔ اب یہ بیکٹیریا ہے جو باقی ماندہ نامیاتی مادے میں لپٹا ہوا ہے۔ اس پر لگنے والی گریویٹی کی قوت ہوا کی حرکات کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جہاں ہوا جاتی ہے، ساتھ ہی بیکٹیریا بھی۔ یہ اس میں مسافر ہے۔ اور اگر یہ کسی شخص پر لینڈ کر جائے جس کا امیون سسٹم اس کا مقابلہ نہیں کر سکے تو نئی کالونی بنا سکتا ہے۔ اور پھر یہ بڑھتا رہے گا جب تک یہ کہ نئے شکار کی کھانسی کے ساتھ اگلے شکار کی تلاش میں نہ نکل جائے۔
تپدق قابلِ علاج مرض ہے۔ترقی یافتہ ممالک سے اس کا بڑی حد تک خاتمہ ہو گیا ہے لیکن دنیا میں یہ جان لیوا پیتھوجن میں دوسرے نمبر کا قاتل ہے۔ 2021 میں ایک کروڑ افراد کو بیمار کیا اور سولہ لاکھ افراد کی جان لی۔
ادویات کے ساتھ اس نے مدافعت اپنا لی ہے اور یہ واضح ہے کہ ادویات اب اس کا خاتمہ نہیں کر پائیں گے۔ تپدق کے ایسے سٹرین بڑھ رہے ہیں جو کہ کئی ادویات سے مزاحمت کر سکتے ہیں۔
حال میں توجہ ان قطروں کی طرف منتقل ہوئی ہے۔ تپدق کا علاج کرنے کے بجائے عمارتوں میں تبدیلیاں کی جائیں کہ یہ آپ تک نہ پہنچ سکے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیماریاں پھیلانے والی یہ ننھی سواریاں ذرات پر لگنے والے فورسز کے رحم و کرم پر ہیں۔ اور اس کا انحصار اس ذرے کے سائز پر ہے۔ سب سے چھوٹے، ہوا میں کئی دن رہ سکتے ہیں۔ (الٹرا وائلٹ روشنی انہیں اس دوران میں نقصان پہنچا سکتی ہے)۔ اگر آپ کو سائز کا علم ہے تو پھر ہسپتالوں میں ہوا کا نظام ڈیزائن کیا جا سکتا ہے جو کہ خاص سائز کے ذرات کو نکال لے اور بیماریوں کے پھیلنے کی روک تھام کی جا سکے۔
ہوا کے ذریعے پھیلنے والی ہر بیماری کا حملہ کرنے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے۔ بیمار کرنے کے لئے کتنے جراثیم درکار ہیں (خسرہ میں بہت کم)۔ یہ جسم میں کہاں پر کس طرح سے متاثر کرے گا۔ (تپدق کا اثر سانس کی نالی اور پھیپھڑے پر مختلف ہے)۔
انسان نسلوں سے تپدق کے رحم و کرم پر رہے ہیں لیکن اگر اس کے پھیلنے کو ٹھیک سمجھ لیں تو پھر یہ اسے روک لینے کا موقع دیتا ہے۔ اور یہ مستقبل کے ہسپتال کو ڈیزائن کرنے میں مددگار ہے۔ چھوٹے سکیل کے ذرات کو سمجھ کر بڑے سکیل کے ڈیزائن کی مدد سے بہت سی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply