ماں باپ کی خدمت/ڈاکٹر راحیل احمد

میرے ابو جان پروفیسر طارق احمد نے پہلی بار برطانیہ آنے کا فیصلہ 1990 میں کیا تھا۔ یونیورسٹی میں داخلہ بھی ہو گیا۔ بتاتے تھے ،کہ  اجازت لینے کے لۓ اپنی امی اور تمہاری دادی کے پاس گیا۔ انہوں نے سیدھا سیدھا انکار کر دیا۔ میں نے کہا امی آپ کے پانچ بچے اور بھی ہیں۔ کہنے لگیں میں جانتی ہوں لیکن میں تیرے بغیر نہیں رہ سکتی۔ ابو بھی خاموشی سے بیٹھ گۓ۔ خوب خدمت کی۔. ساری ساری رات ان کی ٹانگیں  دباتے رہتے۔ ان کو دل کی بیماری تھی۔ یہ جانتے ہوۓ بھی کہ ان کی bypass سرجری بہت high risk ہے، ان کے ڈاکٹروں نے سرجری کا مشورہ دے دیا۔ سرجری کے دوران وہ چل بسیں۔ اس وقت میں سات سال کا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ والد صاحب کے لۓ وہ زندگی کا مشکل ترین دور تھا۔ تین سال بعد دادا ابو بھی فوت ہو گئے۔ ابو نے پھر دوبارہ برطانیہ آنے کا ارادہ کیا۔ بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ ایک چٹان کی طرح پوری فیملی کو سنبھالا۔

2013 میں ابو جان کی صحت بھی کچھ خراب ہونے لگی۔ چھ سال تک میں نے ابو کی تمام آؤٹ پیشنٹ کلینک اپائنٹمنٹس میں ان کے ساتھ شرکت کی۔ جب بھی وہ ہسپتال میں داخل ہوۓ اور ان کو اگر ایک کمرہ دیا گیا تو میں بھی اسی  کمرے میں ان کے ساتھ سو گیا۔ ہم  روزانہ   واک کرتے اور زندگی کی اونچ نیچ پر بحث کرتے۔ میرے ابو جان نے میری شخصیت پر دیرپا اثر ڈالا۔ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ہماری پسند اور ناپسند بھی ایک جیسی ہے۔

چند سال پہلے میں اپنی specialisation کے متعلق سوچ رہا تھا۔ ابو نے مشورہ دیا کہ کارڈیالوجی کر لو۔ پاکستانیوں کی خدمت کرنا۔مجھے برمنگھم کے علاقے سے ایک ریسرچ اور کارڈیالوجی دونوں کی آفر بھی آ گئی۔ ان دنوں ابو جان کی صحت بھی کچھ خراب ہونے لگی۔ ابو سے پوچھا کیا کروں؟ کہنے لگے میرے پاس نیوکاسل میں رہو۔ میں نے نیوکاسل کے علاقے کا انٹرویو دے دیا۔

انٹرویو لینے والی خاتون کارڈیولوجسٹ نے پوچھا کہ وہ دیکھ سکتی ہے کہ میرے پاس ایک بہتر آفر پہلے سے موجود ہے تو پھر میں خالی نیوکاسل کی کارڈیالوجی جاب کیوں چاہ رہا ہوں۔؟ اس میں ریسرچ کا موقع نہیں ملے گا اور میں اس  پر  بعد میں پچھتاؤں  گا۔

میں نے جواب دیا کہ اگر میرے والد کو کچھ ہو جاتا ہے اور میں اس وقت ان کے پاس موجود  نہ  ہُوا تو میں زیادہ  پچھتاؤں  گا۔

مجھے نیوکاسل سے بھی آفر آ گئی اور میں ابو کے پاس ہی رہا۔ نبیل اور سجیل پورا دن ابو کے پاس رہتے۔ رات کو میں ان کے ساتھ سوتا۔ ایک دفعہ رات کو میری آنکھ کھل گئی تو مجھے احساس ہُوا ابو اُٹھے ہوۓ ہیں۔ ابو آپ مجھے اٹھا لیتے؟ کہنے لگے یار تو اتنے آرام سے سو رہا تھا تجھے کیوں اٹھاتا۔ وہ آخر تک ہمارا ہی خیال کرتے رہے۔

لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد بھی ان کی فیس بک لائیو کیوں رکھی ہوئی ہے۔ مختصر یہ کہ ابو نے اس کی اجازت جانے سے پہلے مجھے خود دے دی تھی۔ میرے ابو کے کچھ خواب تھے جو کہ اب میرے خواب بن چکے ہیں۔ ان کے دوستوں کا میں احترام کرتا ہوں۔ لوگ یہ بھی مشورہ دیتے ہیں کہ میں ان کی فیسبک ID کا نام تبدیل کر دوں۔ میں سمجھتا ہوں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ہماری پہچان ایک ہی ہے۔ ان کا نام اور تصویر دیکھ کر میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ ان کی کہی ہوئی باتیں میرے اندر بسیرا کر لیتی ہیں، اور میرے چہرے پر ایک مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ یہ مسکراہٹ میرے ابو کے چہرے پر ہر وقت موجود رہتی تھی۔ ابو جان یہ بھی کہا کرتے تھے کہ جس کا بیٹا جوان ہو جاۓ تو اسکی اپنی جوانی بھی لوٹ آتی ہے۔ میں اپنے والد کی طرح قابل نہیں ہوں اور نہ ہی میں ان کی طرح لکھ سکتا ہوں۔ میں اپنے میڈیکل کے شعبے میں ترقی کرنا چاہتا ہوں لیکن جب تک میں یہاں ہوں میرے پیارے ابو کی فیس بک اور ان کا نام زندہ رہے گا۔ انشااللہ۔

ابو کے جانے کے بعد جہاں میں نے اپنی کلینیکل ٹریننگ جاری رکھی وہیں اب ریسرچ (پی-ایچ-ڈی) بھی کر رہا ہوں-الحمدللہ میں اب تک تقریباً چالیس چھوٹے بڑے تحقیقی پیپر لکھ چکا ہوں۔اگلے ماہ میں پھر سے امریکہ کی ایک بڑی بین الاقوامی کارڈیالوجی کانفرنس (نیو اورلینز) میں اپنی ریسرچ present کروں گا۔ اللہ پاک کا شکر ہے۔ ابو نے اپنے ماں باپ کو ترجیح دی۔ ہم بھائیوں نے بھی ایسا ہی کیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر میں سب کچھ مل جاتا ہے۔۔ لیکن ماں باپ دوبارہ نہیں ملتے۔ ان کی خدمت کریں۔ اپنی جنت کمائیں۔ ہمارے ابو جان کہا کرتے تھے کہ اس دنیا میں صرف آپ کے والدین ہیں جو آپ کی کامیابی پر آپ سے زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ میری اور میرے بھائیوں کی کوئی بھی کامیابی درحقیقت میرے والدین کی ہی کامیابی اور ان کی محنت اور صبر کا ثمر ہے۔ دعاؤں میں یاد رکھیے گا،شکریہ!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply