ایف آئی آر درج کیوں نہیں ہوتی؟/ نعیم احمد باجوہ

پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان صاحب پر تین نومبر 2022کو وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا۔اس حملہ کی ایف ۔ آئی ۔آر یعنی فرسٹ انویسٹی گیشن رپورٹ درج کروانے کے لئے کیا کیا نہ پاپڑ بیلے گئے۔تمام تر اثر و رسوخ کے باوجود پی ٹی آئی کی قیادت اپنی مرضی کے ملزم نامزد کرنے کی خواہش لئے تھانے کے چکر لگاتی رہی۔ بالآخر ایک پولیس اہل کار یعنی سرکاری ملازم کی مدعیت میں ایف آئی آر درج ہوئی جو پی ٹی آئی قیادت کے لئے قابل قبول نہیں تھی۔

پھرصحا فی ارشد شریف صاحب ہیں جنہیں23 اکتوبر 2022کو کینیا میں شہید کر دیا گیا۔ ارشد شریف کے قتل کی ایف آئی آر بھی حسب منشاء درج نہ ہوسکی۔ بالآخر ریاستی نمائندگی میں اس کا اندراج کر کے’’مٹی پاؤ‘‘ پالیسی پر عمل دہرایا گیا۔یہ صر ف سال دو ہزار بائیس کے آخر میں عالمی سطح پر شہرت پانے والے دو مقدمات کا احوال ہے۔

جہاں ایک سابق وزیر اعظم پاکستان کو اقدام قتل کی ایف آئی آرسسٹم کی منشاء کے خلاف درج کروانا مشکل ہے۔ جہاں ایک عالمی شہرت یافتہ صحافی کے قتل کے مقدمہ کا اندراج تمام تر کوشش کے باوجود ایک نا ممکن عمل کی طرح ہو ۔وہاں معاشرے میں اچھوت سمجھے جانے والے غریبوں ، بے کسوں ، مفلوک الحال ، لاچار لوگوں اور اقلیتوں کی کیا اوقات ہے ۔انہیں مقدمات کے اندراج میں کتنے پہاڑ سر کرنا پڑتے ہیں ۔ کن خار دار رستوں پر ننگے پاؤں چلنا پڑتا ہےاس کا اندزاہ صرف ایسے حالات سے گزرنے والے ہی کر سکتے ہیں ۔ بالآخر’’ صاحب ‘‘کی مرضی کی ایف آئی آر درج کروانے کے بعد لولے لنگڑے انصاف کے حصول کے لئے سالوں انتظار میں لگ جاتے ہیں۔ایف آئی آر کیس بھی مقدمہ میں خشت اول کی حیثیت رکھتی ہے۔جب اس کے اندراج میں روڑے اٹکائے جائیں، اسے مشکوک اور کمزور کر دیا جائے تو جج ملزم کو شک کا فائدہ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

جس نہج پر یہ رپورٹ درج کی جاتی ہےاس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ آگے چل کرانصاف کا حصول کیسا ہوگا۔ کوٹ کچہریوں کے چکر، بدقماش لوگوں سے واسطہ، انسانی ہمدردی سے عاری گدھوں کی طرح قدم قدم پر نوچنے کے لئے کئی تیار انسان نما بھڑیئے ہر موڑ پر ملتے جائیں گے۔وہ جن کے لئے کوئی معصوم اور متاثرہ فریق نہیں صرف ایک ’’ سائل ‘‘ ہے۔اور سائل روزانہ چائے پانی، فوٹو کاپی، نقل ، اشٹام پیپرز، سمن ،لفافہ ، جج ، وکیل ، منشی، روبکار، مچلکہ،فیس ، ضمانت اور اس طرح کی بے شمار دیگر اصلاحات سے کا سامان کر تے کرتے تھک جاتا ہے۔

ایک بات ضرور ہے انصاف گیا بھاڑ میں،مگر مقدمہ کے آخر تک ایک دیہاتی بھی تمام تر کارروائی سے گزرنے کے بعد صاحب تجربہ اور ’’پڑھا لکھا‘‘ ضرور لگنے لگتا ہے۔ اور اگلی دفعہ کے لئے بہتر طو رپر تیاربھی۔ اگلا مقدمہ کوئی مذاق نہیں حقیقت ہے۔ خاص طو ر پر جب بعض طبقات کو منظم طو رپر نشانہ بنایا جا رہا ہو۔

اسی تسلسل میں ایک’’ صاحب بہادر ‘‘کا بیان سن لیجئے ۔ایک جگہ احمدی برادری کی طرف سے قبروں کی بے حرمتی کی ایف آئی آر درج کروانے کی کوشش کی گئی تو کہا گیا ’’ چھڈو جی جا ن دیو۔ اگلی واری ویکھا ں گے‘‘۔ گویا اب کے جو ہوا وہ جرم نہیں تھا ۔اور اگر اس بار ہونے والی حرکت جرم نہیں تو اگلی بار ہونے والا عمل کیسے جرم قرار پائے گا؟ یہ پنجاب ہے۔

محترمہ زہرہ یوسف سابق چیئر پرسن ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (HRCP) اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں احمدیوں کے قبرستان اور عبادت گاہوں پر منظم حملوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں :

’’ ان کے قبرستان تک پر حملہ ہوتا ہے او ربہت سے تو ایسے بھی کیسز سامنے آئے ہیں خاص طو رپر پنجاب میں جہاں پولیس بھی شامل رہی ہے۔ بلکہ پولیس نے لیڈکیا ہے حملہ آوروں کو ۔ ان کی عبادت گاہوں کے اٹیک میں ان کے قبرستانوں کے اٹیک میں ۔ تو ان کے لئے سمجھ لیجئے پاکستان میں اب جگہ نہیں ہے، بچی نہیں ہے ان کے جینے کے لئے۔ بہت ہی افسوس ناک صورت حال ہے۔‘‘

اس انٹرویو کی روشنی میں ’’ چھڈو جی جا ن دیو۔ اگلی واری ویکھا ں گے‘‘ کی بلاغت بھی پوری طرح ذہن نشین ہو جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں میں منظم طو رپر احمدیوں کے قبرستانوں او رعبادت گاہوں پر ہونے والے حملوں میں سے کتنی ایف آئی آرز درج ہو چکی ہیں اور کتنے ملزمان گرفتار ہوئے۔اعداد و شمار تکلیف دہ ہیں۔ ہاں مگر پاکستان میں اقلیتیں محفوظ اور انہیں مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔

جب ہمارا نظام انصاف دنیا بھر میں ایک سو چالیس میں سے ایک سو انتیسویں   نمبر پر شمار کیا جاتا ہے تو ہمیں اچھا نہیں لگتا۔ بلکہ چیف جسٹس کی سربراہی میں کام کرنے والے ادارے لاء اینڈ جسٹس کمیشن آف پاکستان تو ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کو خط بھی لکھ دیتے ہیں :

’ ’پاکستان کی عدلیہ کی عالمی رینکنگ رپورٹ مفروضوں پر مبنی ہے اور رول آف لاء انڈیکس 2021 میں کئی دیگر خامیاں بھی ہیں۔‘‘

اس کے جواب میں ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے رول آف لا انڈیکس کی کوڈائریکٹر ایلیشیا ایوانجیلائڈز کہتی ہیں ’’پاکستان کے اعتراض کے باجود ’مستقبل میں بھی رول آف لا انڈیکس کی تیاری کا طریق کار تبدیل نہیں ہو گا۔‘‘

کیونکہ انڈیکس صرف عدلیہ کی کارکردگی کا جائزہ نہیں لیتا بلکہ یہ ہر ملک میں قانون کی حکمرانی کا جائزہ لیتا ہے جس میں صرف عدلیہ ہی نہیں دیگر ادارے بھی شامل ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں جب تک ایف آئی آر میں رکاوٹ بننے والےصاحب بہادر موجود ہیں۔جو متاثرین کو ا س قدر مجبورکر دیتے ہیں کہ ایف آئی آرز صاحب کی مرضی کی لکھی جائے گی۔ بھول جائیں کہ آپ کے نظام انصاف کی سمت درست ہوگی اور دنیا آپ کو عزت کی نظر سے دیکھے گی۔

خشت اول گر نہد معمار کج

تا ثریا می رود دیوار کج

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں،ادارے کا ان سے اتفاق ضروری نہیں

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply