• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • پاکستانی سائیٹس کیلئیے ضابطہ اخلاق کی ضرورت۔۔۔ انعام رانا

پاکستانی سائیٹس کیلئیے ضابطہ اخلاق کی ضرورت۔۔۔ انعام رانا

جب میں نے وکالت پڑھنے کی خواہش ظاہر کی تو میرے والد نے کچھ خاص خوشی نہیں دکھائی۔ ایک جج کا بیٹے کو لاء کے بجائے انگریزی ادب میں ماسٹرز کرنے کا مشورہ ایک نوجوان کیلئیے اچنبھے کا باعث تھا۔ جب زیادہ شدت سے اصرار کیا تو بولے وکالت بطور پیشہ تمھارے لئیے مناسب نہیں۔ پوچھا کیوں؟ تو بولے دیکھو جس پیشے پر انسان کی روزی روٹی کا انحصار ہو جائے وہاں آپ ایکسیلنس نہیں پا سکتے، کمپرومائز کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم اتنے امیر بھی نہیں کہ تم وکالت بس شوق کی خاطر کرو اور کمپرومائز کا شکار ایک بڑی بھیڑ پہلے ہی موجود ہے۔ خیر وکالت تو جھوٹ سچ وعدے پر پڑھی مگر پچھلے پندرہ سال میں کئی بار اندازہ ہوا کہ بات انکی بھی درست ہی تھی۔
پاکستان میں جب الیکٹرانک میڈیا شروع ہوا تو تازہ ہوا کا جھونکا محسوس ہوتا تھا۔ نوجوان ذہن کو لگا کہ اب بہت کچھ بدلے گا، گھر گھر پہنچنے والا یہ آزاد میڈیا ذہن سازی کرے گا، بیانیہ بدلے گا، طرز کہن ٹوٹے گی، اندھیرے چھٹیں گے مگر افسوس یہ بھی وہ سحر نا نکلی جسکا انتظار تھا۔ میں مانتا ہوں کہ میڈیا کبھی بھی مکمل آزاد نا تھا، مگر خود اس نے کیا کیا؟ سنسنی خیزی، ٹی آر پی کے چکر، ساس بہو نما ڈرامے، ریٹنگ بڑھانے کیلئیے وہ پروگرام جو آپکو کچھ سکھا سکے تو لڑنا بھڑنا، مباحثے کرنا یا کُڑھنا۔ ہم نے کتنے ہی صحافی بت بنائے کہ حق کی علامت ہیں، سچ سامنے لائیں گے، عوام کی بات ہو گی، بیانیہ بدلیں گے مگر افسوس، بت ہمیشہ کی طرح فقط ٹوٹنے کیلئیے ہی تھے۔
ایسے میں نوجوان نسل کی اک بڑی تعداد نے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بیزاری کا اظہار کیا اور سوشل میڈیا کو ایک متبادل میڈیا کے طور پر برتنا شروع کیا۔ ان بلاگرز کی محنت سے رفتہ رفتہ یہ میڈیا ایک عوامی بیانیہ بنانا شروع ہوا۔ مگر کوفت یہ تھی کہ کوئی ریگولیٹر، کوئی ایڈیٹرشپ نہیں تھی جو اس طوفان کو سمت دیتی، انداز دیتی، مثبت انرجی پیدا کرتی۔ ایسے میں کچھ کہنہ مشق صحافی سامنے آئے تو دل کو خوشی ہوئی۔ احساس تھا کہ کہ وہ سکھائیں گے، سمت دیں گے، بات کہنے کا ہنر بتلائیں گے، عوامی میڈیا کی رہبری کریں گے اور اس انرجی کو ضائع ہونے سے بچائیں گے۔ ہم کو انکے دعوے پر یقین تھا کہ وہ بیانیہ بدلیں گے، خلیج پاٹیں گے اور یہ میڈیم اور اسکی طاقت ضائع نہیں ہونے دیں گے۔
لیکن کیا صورتحال واقعی وہ ہے؟ مُکالمہ سمیت کئی دیگر سائیٹس موجود ہیں لیکن کیا یہ سائیٹس واقعی یہ سب کر پائیں؟ بیانیہ تو الفاظ سے بدلا جاتا ہے، یہ تصویریں بیانیہ کیسے بدلنے لگ گئیں؟ یہ میڈیا منڈی کے بھاؤ نکال کر کس عوامی بیانئیے کی فتح منائی جا سکتی ہے؟ “عمران نے جمائما کو کس نظر سے دیکھا کہ اسکا دل پگھل گیا” جیسی ہیڈنگز اور جمائما کی غیر ضروری ننگی چھاتیوں والی تصویر میں فرق کیا ہے؟ نیلے گنبد کے ٹھیلے پر وہی وہانوی کی “کوک شاستر با تصویر” اور “ثانیہ مرزا کی اکتیسویں سالگرہ با چڈی” کے پیچھے ایک ہی ذہنیت ہے، اور یقین کیجئیے وہ ذہنیت بیانیہ بدلتی نہیں بلکہ ذہن کو افیون آلود کرتی ہے کہ کہیں بیانیہ بدل ہی نا جائے۔
مُکالمہ سمیت ہر سائیٹ غلطیاں کرتی ہے۔ مگر سب سائیٹس کو کچھ اہم پہلو سوچنے ہوں گے۔
۱- کیا ہمارا مقصد ہیجان انگیزی اور وہی وہانوی کا جدید آنلائن ورژن بننا ہے؟
۲- کیا ہم فقط ایک مخصوص کلاس اور فکر کے لوگوں تک محدود رہنا چاہتے اور تقسیم کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں؟ یا پھر ہم ایسا پلیٹ فارم بننا چاہتے ہیں جہاں تقسیم سے ماورا وہ آڈینس میسر آئے جو بیانیہ بدلنے پر آمادہ ہو سکے۔
۳- کیا ہیجان انگیز سرخیاں اور تصاویر عوامی مسلئہ ہیں یا ہم عوامی مسائل کے ادراک میں ناکام ہو رہے ہیں؟
4- کیا ہم نوجوان نسل کی اس میڈیم سے بیزاری کا باعث تو نہیں بن رہے؟
۵- اور کیا اس بیزاری کے باعث ہم ایک ایسا موقع تو نہی کھو رہے جو اندھیروں میں ڈوبتی ہوئی قوم کیلئیے شاید سحر کی آخری امید ہے۔
صاحبو میں صحافی نہیں ہوں، لکھاری بھی اچھا نہیں بس چل گیا ہوں۔ اور میں مکمل ایمانداری سے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ اپنی اس ناتجربہ کاری اور وطن سے دوری کی وجہ سے میں وہ بہت کچھ نہیں کر پایا جو ہونا چاہیے تھا۔ مگر وہ دوست جو پروفیشنل صحافی ہیں، تجربہ کار ہیں، اساتذہ ہیں، انکو ضرور سوچنا چاہیے۔ ہم سب نے مل کر انکے کاندھوں پر بیانیہ بدلنے کی، رہنمائی کرنے کی ذمہ داری ڈالی تھی اور انکے اس دعوے کو قبول کیا تھا کہ وہ اسکے اہل ہیں۔ انکی ناکامی فقط انکی ذات کی ناکامی نہیں ہو گی بلکہ ایک نسل کی ناکامی ہو گی۔ ایسی نسل جو باقی سب سے مایوس ہو کر ان سب سے امید لگا بیٹھی تھی۔
مجھے لگتا ہے کہ پاکستانی سائیٹس کو خود ہی ایک ضابطہ اخلاق ترتیب دے لینا چاہیے۔ ایک ایسا ضابطہ جو متفقہ ہو اور مروجہ مذہبی اور اخلاقی روایات کا اس قدر پاس ضرور رکھے کہ ہیجان نا پھیلے، ناامیدی اور “مس ٹرسٹ” پیدا نا ہو۔ اگر ہم ایسا ضابطہ بنانے اور اپنانے میں ناکام رہے تو خدشہ ہے کہ ایک تو قارئین کا ایک بڑا حصہ ہم سے مایوس ہو جائے گا جس میں بیانیہ بدلنے کے قابل اذہان بھی شامل ہوں گے۔ دوسرا، پھر شاید کوئی اور ضابطہ اخلاق بنا کر ہمیں کسی پیمرا نما کے ذریعے اسے اپنانے پر مجبور کر دے۔ مُکالمہ کی حد تک میرا یہ وعدہ ہے کہ صحافتی تجربہ رکھنے والے مدیران جو بھی ضابطہ بنائیں گے، مُکالمہ اس کی مکمل پاسداری کرے گا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”پاکستانی سائیٹس کیلئیے ضابطہ اخلاق کی ضرورت۔۔۔ انعام رانا

Leave a Reply