• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • فلم پر آکر صراطِ مستقیم کا راستہ ختم ہوجاتا ہے۔۔اسد مفتی

فلم پر آکر صراطِ مستقیم کا راستہ ختم ہوجاتا ہے۔۔اسد مفتی

پھریوں ہُوا کہ میں نے احمد بشیر سے پوچھا
اچھی فلم کی آپ کے نزدیک کیا تشریح ہے؟

حمید اختر سے ایک انٹر ویو میں سوال کیا
لیکن اچھی فلم کی آپ کیا تعریف کریں گے؟

شمیم اشرف ملک،اشفاق احمد،کنور آفتاب،جاوید جبار وغیرہ سے بھی اسی سے ملتا جلتا سوال پوچھا

میرے حساب میں اچھی فلم کی معتبر تشریح کسی نے کرنا ہی نہیں چاہی۔
یار لوگRealisticفلم بنانے بیٹھتے ہیں،اور Factualبنا ڈالتے ہیں۔
پھر کہتے ہیں،لوگ اُن کے “فن”کو سمجھ نہیں سکے۔اب “لوگ”لفظ جو ہے،یہ سب کے لیے مستعمل ہے۔اور ہر شخص دانشور یا انٹلیکچوئیل نہیں ہوتا۔پھر بھی لوگ اصل اور نقل کے فرق کو خوب جانتے ہیں،اگر اچھی چیزیں بھی فیل ہوا کرتیں تو قرآن،تورات،زبور،انجیل،رامائن اور مہابھارت اب تک زندہ نہ رہتے،انہیں تو سمجھنا بھی آسان نہیں ہے۔

میری رائے میں جب ہدایتکار فیکچوئیل کی زد میں آجاتا ہے،تو دم توڑ دیتا ہے۔حقیقت بیان کرنا ہدایتکار کا کام نہیں اور پھر جوں کا توں اور ہوبہو سکرین پر پیش کردینے میں اس کا اپنا کیا کمال ہے؟۔۔۔فلم میکر حقائق کا وقائع نویس نہیں ہوتا،بلکہ ظاہر و باطن کے درمیان رہنے والے امکانات اور اشاروں کا خبر رساں ہے۔ایک اچھا ہدایتکارفلم کے کرداروں کو اپنے لائحہ عمل اور مقاصد کے مطابق ڈھالنے کی سعی اور اپنے حوصلے کی پیمائش کرتا ہے۔

پاکستان میں چند فلمیں بنی تھیں،شمیم اشرف ملک کی “نیند”،”گھر پیارا گھر”اور”سیما”،حمید اختر کی”سُکھ کا سپنا”،کنور آفتاب کی “جھلک”،احمد شبیر کی “نیلا پربت”،اشفاق احمد کی دھوپ اور سائے اور جاوید جبار کی “مسافر” وغیرہ۔یہ فلمیں ودسری بننے والی فلموں سے مختلف تھیں۔ایک طبقہ ان فلموں کو اہم تسلیم کرتا ہے،لیکن یہ تمام فلمیں بالخصوص ہماری فلمی صنعت پر اور باہمی قومی زندگی پر رتی بھر اثرات مرتب نہ کرسکیں،کچھ عرصہ پیشتر میں نے کہیں یہ پڑھا تھا کہ پچاس کی دہائی میں ہم متعدد قومی حادثوں سے دوچار ہوئے۔

پچاس کی دہائی میں فیض صاحب اور شمیم اشرف ملک مرحوم فلم کے میدان میں اترے۔اسی دہائی میں وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورہ امریکہ سے ہماری سیاسی ہلاکت کا آغاز ہوا،جو بعد ازاں فوجی اور معاشی تعاون کے معاہدوں کے ذریعے آگے بڑھتی گئی۔اسی دوران پنڈی سازش کیس کا غلغلہ بلند ہوا۔مشرقی بنگال(مشرقی پاکستان) میں بنگالی کو دوسری قومی زبان بنانے کی تحریک چلی اور وہاں عوام پر تشدد کیا گیا،کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگا دی گئی،قوم پر ون یونٹ مسلط کردیا گیا،1958میں قوم کو مارشل لاء کے تجربے سے گزرنا پڑا،1960میں بھارتی فلموں پر پابندی لگا دی گئی۔

ان تمام برسوں میں فیض احمد فیض کے ساتھ احمد بشیر کی نیلا پربت،اس عہد کا خاص واقعہ تھا،دوسرا اہم واقعہ یہ تھاکہ ہم نے بنگال رہا کردیا۔اور اس کے بعد پارلیمنٹ کی سیڑھیاں چڑھنا سیکھا۔
اس اثناء میں اشفاق احمدنے “دھوپ اور سائے”بنائی اور فیض صاحب نے NDFC کے تعاون سے مشرقی پاکستان میں ایک فلم کا ڈول ڈالا۔فلم تو کیا پائی تکمیل تک پہنچتی کہ پہلی ریلیں ہی بنگال کے خون میں ڈوب گئیں۔

یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فیض احمد فیض،شمیم اشرف ملک،احمد بشیر،حمید اختر،کنور آفتاب،اشفاق احمد اور جاوید جبار جیسے دانشور وں کی دانشورانہ کوشش۔۔۔اور یہ کوشش ناکامی کے ہاتھوں مات کھا گئی۔لیکن “نیند’تو ایک ترقی پسندانہ اور بامقصد فلم تھی،اسے کیوں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا؟
“میں نے بعض غیر اہم نکتوں پر تو سمجھوتہ کیا لیکن میں بیشتر بنیادی مسائل پر ہتھیار ڈالنے کے لیے تیار نہ تھا”۔۔شمیم اشرف نے بتایا۔

بنیادی مسئلے سے اُن کی کیا مراد تھی؟۔۔یہ میں نہیں جان سکا۔میرے حساب میں انہوں نے ایک فارمولے کو رد کرکے دوسرا فارمولہ پیدا کرنے کی کوشش کی تھی،اور یہ کہ آرٹ میں سماجی اور معاشرتی حقیقت نگاری کا تصور سخت قسم کی پابندیاں عائد نہیں کرتا،یہ حقیقت نگاری اپنے سماج کے حالات اور تقاضوں کے درمیان جنم لیتی ہے۔اور پروان چڑھتی ہے۔۔۔شمیم اشرف ملک کی تینوں فلمیں عوام میں پہنچیں تو ضرور لیکن باکس آفس پر ناکام رہیں۔

حمید اختر کی “سکھ کا سپنا”آسٹریلیا کے ایک کمیونسٹ ادیب کے ناولthe power with gloryپر مبنی فلم تھی۔حمید اختر نے ایمسٹر ڈیم میں ایک بار مجھے بتایا تھا۔”ترقی پسندانہ فلم کی جانب یہ ایک نہائیت اہم قدم تھا،فلم کے ساتھ بہترین لوگ وابستہ تھے،ہدایتکار،مسعود پرویز کے علاوہ فیض صاحب تھے،اداکاروں میں علاؤالدین طالش وغیرہ ہمارے ساتھ تھے،یہ ساری باتیں فلم انڈسٹری کے ابوجہل برداشت نہ کرسکے،ان کا خیال تھا کہ اگر ہم کامیاب ہوگئے تو انڈسٹری کی سکہ بند جہالت کے مفادات خطرے میں پڑ جائیں گے،چنانچہ ہماری فلم انڈسٹری کی سکّہ بند جہالت کے مفادات خطرے میں پڑجائیں گے،چنانچہ ساری فلم انڈسٹری شعوری طور ہمارے مقابلے پر آگئی۔باقائدہ سازشی جلسے ہوئے،ہنگامہ برپا ہوا،دانستہ فلم کے پرنٹ گھٹیا تیار کیے گئے،اور وہ بھی بروقت سینما ہال تک نہ پہنچ پائے۔جس کے باعث پہلے شو میں ہی بدمزگی پیدا ہوگئی،لیکن میں اپنے سمجھوتہ نہ کرنے پر شرمندہ نہیں ہوں۔”

میرے خیال میں یہاں بھی یونٹ کے اراکین کی “دانشوری”نے عوام سے اس انداز میں مکالمہ نہ کیا جس کی انہوں نے توقع پیدا کردی تھی۔

نیلا پربت۔۔۔احمد بشیر نے اپنی بلیک اینڈ وائٹ فلم کا نام نیلا پربت تجویز کرکے یہ سمجھ لیا تھا کہ اب دور دور تک کامیابی کا کوئی خطرہ نہیں ہے،سو یہی ہوا۔۔لیکن مکمل تجزیہ کچھ یوں تھا۔۔۔
1960کے عشرے کی ابتداء تھی،”نئے آئین”سے پہلے صنعتی تنازعوں کا بل منظور ہوچکا تھا۔ایوب خان نے سرمایہ داروں کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی۔کہ وہ تالا بندیاں کریں،مزدوروں پر لاٹھی چارج کریں،اس پر پولیس نے گولی چلا دی، 42مزدوروں نے سڑکوں پر دم توڑ دیا،اس دور کے وزیر محنت فضل القادر چوہدری نے اعلان کیا کہ ہم نے مزدوروں کو عیدی دی ہے۔اس سے قبل لاہور کے قلعے میں حسن ناصر کو قتل کیا جاچکا تھا۔اور یہی وہ دور تھا جب احمد بشیر انسانی زندگی کے جنسی مسائل۔جنسی خوابوں،اور جنسیاتی پہلوؤں پر اپنی پہلی اور آخری فلم بنارہے تھے،جس کا نام “نیلا پربت’تھا۔اور یہ کہ احمد بشیرکے خیال میں یہی دور اس موضوع کے لیے مناسب دور تھا۔

میں نے ایک بار اس موضوع پر اُن سے مکالمہ کیا۔۔۔”یہ سب کچھ میں نے شعوری طور پر نہیں بنایا،بس مجھ سے ہوگیا،دراصل میں نے سمجھوتے کے بغیر فلم بنانے کی ٹھان رکھی تھی،اور یہ سب کچھ کسی دباؤ کی وجہ سے نہ تھا،اپنی خوشی کے لیے کررہا تھا”..

احمد بشیر ہالی ووڈ سے فلم بنانے کی تربیت لے کر آئے تھے،انہوں نے پاکستان کی فلم انڈسٹری کے جاہلانہ ماحول میں موضوع،تکنیک اور فن کے نئے چراغ روشن کرنے کی کوشش کی،اس کا شدید ردِ عمل ہوا،مخالفتوں کے طوفان اٹھ کھڑے ہوئے،دوسری طرف فلم بین بھی ناراض ہوگئے۔یہ فلم انہیں اپن یساتھ ایک سنگین مذاق لگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

میرے خیال میں انہوں نے بھی اپنے عہدے کی سماجی حقیقتوں کو نظر انداز کرکے یہ ناکامی مول لی تھی۔بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ان تینوں ہدایتکاروں کی زیرِ ہدایت بننے والی فلموں کی کہانیاں لاجواب تھیں،لیکن یہ ایک الگ بحث ہے،محض اچھی کہانی فلم کو ڈوبنے سے بچا نہیں سکتی،وہ اسے صرف قابلِ برداشت بنا سکتی ہے۔
سو اے لوگو!یہ تھے تین دانشور ہدایتکار۔
آئندہ کسی وقت “بقیہ”تین ہدایتکاروں کے فن بارے باتیں گے۔
چھوٹی چھوٹی باتیں،بڑی بڑی باتیں،ضرر رساں باتیں،اور بے ضرر باتیں۔۔۔۔

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply