مہنگی کشتی، سستا ناخدا۔۔سلیمان ہاشم

طوفانی ہواؤں سے ساحل سے کشتیاں اکثر ڈوب جاتی ہیں اور ناخدا اور جانشو لاپتہ ہونے والے کشتی کے ساتھ گہرے سمندر میں ڈوب کر مچھیرے ہر سال ہر طوفان میں مر جاتے ہیں اور کئی دنوں کے بعد ٹوٹی ہوئی کشتی کی ایک لکڑی سے چمٹی ہوئی لاش چپکی ہوئی ملتی ہے۔ جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا چاہیے۔ سرد موسم میں کتنے گھنٹے اور کتنے دن تک موت سے لڑنے والے ٹھنڈے پانی اور سمندری طوفانی برفسانی لہروں اور ہوؤں کا مقابلہ کتنی دیر تک کر سکتے ہیں اور یہ کوئی انوکھا واقعہ نہیں۔ اس ساحل اس بستی کے لوگ دو وقت کی روٹی کے لیے روز مرتے اور روز جیتے ہیں۔

پشکان کے ناخدا خدابخش مسلسل دو روز تک ان 2 لاپتہ مچھیروں کے لیے ساحل پر پریشان تھے۔ کبھی اس کونے پر تو کبھی اُس کونے پر دور حدنگاہ تک آسمان پر گہرے سیاہ بادلوں کو دیکھ کر خوف کے گہرے سائے اس کے بوڑھے چہرے پر آج کچھ زیادہ عیاں ہو رہے تھے۔ اس ساحل پر اس کا اکلوتا نوجوان تعلیم یافتہ بیٹا علی اور اس کے ساتھ اس کا بھتیجا اصغر کب لوٹے گا۔

ناخدا خدابخش چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا لکھ پڑھ کر ڈی سی نہ سہی ایک اسکول کا ہیڈ ماسٹر تو بنے۔ علی نے مقامی اسکول سے میٹرک پاس کی۔ مزید تعلیم کے لیے ناخدا خدابخش نے اپنی جمع پونجی اپنے بیٹے کو دیتے ہوئے کہا ” بیٹا کراچی میں جا کر خوب محنت کر کے پڑھو میں پڑھ نہ سکا لیکن میری آرزو ہے کہ میرا بیٹا لائق انسان بنے اور میری طرح سمندر میں کسی کشتی کا جانشو اور ناخدانہ بنے، جاؤ اپنا مستقبل سنوارو۔“

علی ایک ٹرک پر سوار ہو کر کچے راستے سے تربت، آواران، بیلہ سے ہوتا ہوا چوتھے دن کراچی پہنچا۔ پہنچتے ہی اپنے پہنچنے کی خبر اپنے والد خدا بخش کو پہنچانے کے لیے گوادر کے سیٹھ لال بخش کو ٹیلکس بھیجا “ابو میں کراچی لیاری میں اپنے رشتے دار جان محمد کے گھر پر ہوں میرے لیے پریشان نہ ہوں، امی کو میرا سلام۔”

اسی شام کو جب نا خداخدابخش گوادر کے کریمک کے ہوٹل کے تھڑے پر چائے پینے وہاں پہنچا تو ناخدا سوالی چاک، ناخدا اسماعیل کمہاڑی، ناخدا داود، ناخدا حسین سب جیسے ناخدا خدا بخش کا انتظار کر رہے تھے….. ”سنا ہے تم نے علی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجا ہے، اڑے ہم کو بڑا خوشی ہے وہ پڑھ لکھ کر بڑا بابو یا بڑا اپسر بنے گا تو گوادر میں ہم لوگ لیوا اور مالد کریں گے خوشی منائیں گے۔”

ناخدا سبزل نے جلدی سے کریمک ہوٹل کے بار والے کو ایک دودھ پتی چائے کا آرڈر دیتے ہوئے سامنے والی بنچ پر ناخدا خدابخش کو بٹھایا۔ اور خود چائے کی چسکی لیتے ہوئے پوچھا، “اڑے یہ بتاؤ ہم اپنا اسلم کو بھی داکتر بنائے گا اس پر کتنا خرچہ آتا ہوگا”۔ سب نے کہا ہاں یار ہم لوگوں کو داکتر کی بہت ضلورت ہے اب دیکھو ہمارا ملک میں صرف ایک ہی داکتر ہے اڑے اس کا کتنا عزت ہے ہم تو چاہتا ہوں کہ ہمارا بیٹا بنے تو داکتر بنے کیا بھروسہ کل ہم سمندر کے کسی طوپان میں مر جائے تو ہمارا بیٹا ڈاکتر ہوگا تو ہمارے گھر کے لوگوں کا آسرابنے گا۔

سب چائے پی کر اور کے ٹو سگریٹ اور بیڑی کا دھواں اڑاتے اپنی اپنی رام کہانی اور اپنے بچوں کی مستقبل کے تانے بانے بُن رہے تھے۔

علی کراچی پہنچا۔ نئے ماحول سے وہ خوش بھی تھا اور اداس بھی تھا، جہاں گوادر میں وہ اپنے والدین گھر دوستوں کی کمی شدت سے محسوس کرتا تھا، کہاں کراچی بہت رش تھا ہر شخص کو جیسے جلد بازی کی عادت تھی۔ روڈ کراس کرنا بھی نئے بندے کے لیے بہت مشکل تھا۔ پھر کالج میں داخلہ لینے کے لیے دوسرے دن سندھ اسلامیہ کالج میں داخلہ تو ملا لیکن اس کی اس نئے شہر میں انگریزی انتہائی کمزور تھی کیونکہ گوادر میں چھٹی جماعت سے اے بی سی ڈی پڑھنا ہوتا تھا اور میٹرک میں بھی انگریزی سبجیکٹ میں اس کے نمبر اتنے تھے کہ وہ بمشکل پاس ہوا تھا۔

لیکن کراچی میں اس کے ساتھ والی ڈیسک پر وہ لڑکے ایسے انگریزی بولتے تھے کہ وہ اس کی سمجھ میں بھی نہیں آتی تھی۔ میٹرک آرٹ میں پاس کرنے کے باوجود بڑی سفارش و التجا پر پرنسپل نے اس کو انٹر سائنس میں داخلہ تو دیا لیکن یہاں اکثر لیکچرار انگریزی میں لیکچر دے کر کبھی کبھار سوال پوچھتے تو علی دل ہی دل میں دعا کرتا کہ لیکچرار مجھ سے کوئی سوال نہ پوچھے۔ آخر ایک روز لیکچرار کریم کو احساس ہوا کہ علی کی انگریزی کمزور ہے تو انہوں نے مشورہ دیاکہ بیٹا بدقسمتی سے آپ کا علاقہ پسماندہ تھا یہاں بچوں کو موقع ملا اب تم امریکن لینگویج سینٹر میں داخلہ لو اور پھر ضروری نہیں کہ تم سائنس کے مضامین لو، تم آرٹ کے مضمون لو کیونکہ تمہارا بنیاد کمزور ہے۔ دوسرے روز علی نے امریکن سینٹر میں داخلہ لیا۔ اس کی انگریزی روز بروزبہتر ہوتی گئی۔ اس نے سر کی بات مان کر سائنس کے سبجیکٹ چھوڑ کر آرٹس کی کلاس لینے شروع کیں۔

والد مچھلیوں کا شکار کر کے تمام تکالیف کے باوجود علی کو رقم بھیجتا رہا۔ علی نے انٹر فرسٹ پوزیشن میں پاس کی اور پھر یونیورسٹی سے سوشالوجی میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔

ایک بار پھر وہ اپنے چھوٹے شہر گوادر چلا آیا۔ اس نے انگریزی اور اردو رسالوں میں آٹیکل لکھے۔ ماہی گیروں کے مسائل اور ان کے حالات زندگی سے لوگوں کوآگاہی دی۔

پھر اس نے کئی جگہ نوکری کے لیے اپلائی بھی کیا لیکن ہر طرف سے وہ مایوس کر دیا گیا۔ کیونکہ ڈگری کے ساتھ اس کے پاس سفارش نہیں تھی۔ وہ کسی سیاسی جماعت کا ورکر نہیں تھا۔ سفارش اور کسی سہارے کے بغیر ملازمت حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن غیر اضلاع سے آنے والے گوادر کا لوکل سرٹیفکٹ اور سفارش سے گوادریوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتے رہے، وہ دیکھتا رہا۔ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اس کو یہ گوارا نہیں تھا کسی ڈرگ مافیا یا لینڈ مافیا یا کسی سیاسی جماعت سے سفارش کے توسط سے نوکری حاصل کرے۔

اس نے ایک بار بلوچستان پبلک سروس میں بھی کوشش کی اور دل ہی دل میں خوش تھا کہ وہ کامیاب ہوگا لیکن وہ وہاں بھی ناکام ہوا۔ اب وہ روز بروز مایوس ہوتا جا رہا تھا۔ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بوڑھے والد کا سہارا بنے، ان کے ساتھ سمندر میں مچھلیوں کے شکار پر ان کے ساتھ جائے گا۔ شاید یہ اس کا آخری فیصلہ تھا کہ ضروری نہیں کہ وہ سرکاری ملازمت کرے۔

اس کے والد، اس کی امی اور خاندان کے تمام افراد نے اس کے فیصلے کی مخالفت کی کہ اتنی تعلیم حاصل کرنے والا ایک جانشو اور مچھیرا بنے، لیکن اس نے کہا کہ ہم مچھیرے ہیں سرکاری اداروں میں ہمارے لیے کوئی ملازمت طشتری اور پلیٹ میں رکھ کر پیش نہیں کرے گا اور مجھے کسی سفارش کی ضرورت نہیں، میرے جیسے کئی پڑھے لکھے دوست بہتر ماہی گیر بنے ہیں۔ ویسے بھی ہماری پہچان یہی ہے، ایک مید کا بچہ کیسے سرکاری ملازمت کے خواب نہ دیکھے۔

اس کے والد خدا بخش کو ان کے اس فیصلے سے اختلاف ضرور تھا لیکن وہ ان کے سامنے بے بس تھا۔

گوادر کے ساحل پر غیر معمولی شدت کی حامل ہواؤں، سمندری جھکڑ اور لہروں کی بلندی نے تباہی مچا دی، 2 لانچیں اور 30 چھوٹی کشتیاں ڈوب چکی تھیں جب کہ چھوٹی بڑی گنجائش کئی لانچیں تاحال لاپتہ ہیں جن کی تلاش کے لیے گہرے سمندر میں سرچ اینڈ ریسکیو آپریشن جاری رہا۔ اور ان میں کئی بازیاب ہوگئے۔

خدابخش کا بیٹا علی اور اس کے بھتیجے کی لاش کئی دنوں کے بعد گھر میں پہنچی۔

اسی ساحل پر کئی مائیں کئی دنوں سے اپنے بیٹوں کی گمشدگی پر تڑپ رہی تھیں، اور پھر دو لاشیں ایک ہی گھر میں آنے سے اس گھر میں جیسے قیامت آ گئی ہو۔ وہ مائیں جن کی کوکھ سے بچے جنم لیتے ہیں، ان کی تڑپ درد وہ دکھ بہت بڑا ہوتی ہے، ان کی درد ناک چیخیں آسمان تک پہنچتی ہیں، لیکن مرنے والے کسی امیر کے گھر کے افراد نہیں کہ کسی ہارٹ اٹیک یا کسی ایکسیڈنٹ سے مرے بلکہ بھوک افلاس کے ہاتھوں سمندر میں روزی تلاش کرنے گئے اور پھر سمندر برد ہونے کے بعد ان کی تیرتی ہوئی لاشیں لہریں کنارے پر آتی ہیں۔

یہ سلسلہ برسوں سے جاری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مرنے والوں کی قیمت سرکار نے بہت ہی سستی رکھی ہے، جس کو کوئی باپ کوئی ماں شاید ہی قبول کر سکے۔ ان کے بچے جو یتیم ہوئے، وہ شاید اپنی تعلیم بھی مکمل کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ جیسے کہ جس نے ایم اے کیا وہ سمندر میں ڈوب کر جان دے گیا، اڑوس پڑوس کی عورتوں نے مسجد کے اعلان پر یا اللہ خیر کہتے اعلان سنا؛ “ایک نوجوان ایم اے پاس مچھیرا علی اور اس کے ایک اور ساتھی اصغر کی لاشیں سمندر سے نکالی گئی ہیں، آج دوپہر کو مقامی قبرستان میں ان کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی”۔ اور پھر کالے کپڑوں میں ملبوس تمام مچھیروں کی عورتیں روتی اور اپنے کالی چادروں کے ساتھ ان ماؤں کو رلانے کے لیے تیزی سے ناخدا کے گھر پہنچ کر ماتم کرنے اور سوگ کرنے پہنچ گئی تھیں جہاں میت کے قریب ماں روتے روتے بے ہوش پڑی تھی۔

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply