کل حقائق تھے آج خواب ہوئے||ڈاکٹر مجاہد مرزا

میں گھر پہنچا اور تقریبا” چیختے ہوئے کہا،” اگر بیاہ پر پابندی لگانا ممکن نہیں تو کم از کم ایک بچے سے زائد پیدا کرنے پر پابندی لگا دینی چاہیے ۔”
ہمارے گھر کی عقبی دیوار کے پیچھے کھیت ہوا کرتے تھے۔ جہاں سے ہمارے بچپن کے دنوں میں نقب لگا کر چور گھر کا صفایا کر گئے تھے لیکن اب دور دور تک کھیت نہیں ہیں۔ مٹی سے اٹی گلیوں کے جال ہیں اور پکے مکانات کے ہجوم۔ مجھے معلوم ہے کہ شہر، قصبے اور بستیاں بہت بڑھ چکے ہیں مگر آج جس طرح مایوس ہوا پہلے کبھی نہ ہوا تھا۔
میرے قصبے میں تب دو پرائمری سکول ہوا کرتے تھے یعنی پرائمری سکول نمبر ایک یا پیپل والا سکول اور پرائمری سکول نمبر دو۔ ہم پرائمری سکول نمر ایک کے بچوں کو سردیوں میں استاد پلاٹوں یعنی میونسپل سپورٹس گراؤنڈز میں لے جا کر دھوپ میں پڑھایا کرتے تھے۔ ایک ایک بچہ ماسٹروں کی کرسی اٹھائے ہوئے اور باقی کپڑے کے ٹکڑے میں بندھے ہوئے اپنے اپنے بستے ساتھ ہی تختی دوات اٹھائے ہوئے۔
اب وہ پرائمری سکول سرخ اینٹوں سے بنی اونچی دیوار جس پر خار دار تار بھی لگی ہے، والی نئی عمارت میں گورنمنٹ ایلیمنٹری سکول فار گرلز ہے۔ ویسے بھی اس شہر میں پرائیویٹ سکولوں کی بھرمار ہے یعنی بیسیوں چھوٹے، بڑے اور بہت زیادہ بڑے سکول ہیں تبھی اسے علی پور کے علاوہ پاکستان کا علی گڑھ بھی کہا جاتا ہے۔ خیر ایسا ہے نہیں۔
مجھے ایک بار پھر سے پلاٹوں کو دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ پہلے تو گھر میں بھتیجی سے پوچھا جس نے تصدیق کی کہ “پارک ” اب بھی ہے، میرے لیے یہ لفظ نیا تھا۔ دوچار روز بعد بھتیجی نے پھر یاد دلایا کہ آپ کو تو پارک دیکھنے جانا تھا تو میں کچھ تساہل کے بعد نکل کھڑا ہوا۔ وہی پرانا راستہ اختیار کیا یعنی خیرپور دروازے سے داخل ہو کر فتح پور گیٹ سے نکل کر سامنے کی اس گلی میں جہاں سے چلتے مڑتے کھیتوں کے نزدیک پہنچتے تھے، پھر کچھ دور گراؤنڈز ہوا کرتے تھے جہاں تحصیل سپورٹس سے لے کر دیوبندی علماء کا سالانہ جلسہ تک ہوا کرتا تھا جہاں میں نے عطاء المنعم فرزند عطاءاللہ شاہ بخاری، مولانا عبیداللہ انور اور مولانا درخواستی صاحب کی تقاریر والدہ کے ساتھ جا کر سنی تھیں۔
سارا شہر بازار بن چکا ہے۔ یہ گلی بھی بازار بن چکی ہے جس میں کٹ پیس کپڑے اور پردوں کی چھوٹی بڑی دکانیں ہیں، گلی مڑ گئی پھر ایک بازار آ گیا۔ ادھر ادھر گلیاں، مکانات اور محلے، آخر کار مجھے پوچھنا پڑا کہ گراؤنڈ کہاں ہے تو خشخشی داڑھی والے جوان دکاندار نے مجھے مشکوک نگاہوں سے دیکھ کے کہا کہ آگے سے مڑ جائیں۔ آگے سے مڑ گیا تو پھر دکانیں، مجھے لگا کہ میں تو ملتان جانے والی سڑک پر لاری اڈے کے نزدیک پہنچنے والا ہوں، جہاں کے نلکے سے ہم ماسٹر صاحب سے اجازت لے کر پانی پینے آیا کرتے تھے۔ ایک اور دکاندار سے پوچھا تو اس نے بے دلی سے بائیں ہاتھ کا اشارہ کرکے کہا، ادھر ہے۔ دو ستونوں پر ٹکے ایک نیم دائرہ بوڑد پر لکھا تھا ” علی پور میونسپل پارک”۔
ایک طرف مسجد تھی جس کے ادھ کھلے دروازے سے دو باریش نوجوان جھانک رہے تھے۔ دوسری جانب بڑی سے عمارت جس کے آگے ایک کار کھڑی تھی۔ مسجد کی جانب بھی مسجد کی دیوار سے آگے دفاتر۔ میں چلتا گیا، کار والی عمارت کی پشت کی جانب ایک چھوٹی سڑک جس کے ایک طرف علی پور پریس کلب کی عمارت اور سڑک کے آخر پر ایک سیاہ آہنی گیٹ جس میں سے گھاس والا گراؤنڈ دکھائی دے رہا تھا۔ میں پریس کلب کی عمارت سے آگے چلا گیا، ایک دروازے پر لکھا تھا ” برائے خواتین، مردوں کا داخلہ منع ہے۔ میں امتناع کا خیال کرتے ہوئے لوٹا اور آہنی دروازے کو دیکھتا آگے بڑھا جو لگتا تھا بند ہے مگر اس کے اندر ایک شخص بیٹھا دکھائی دے رہا تھا۔
جب میں گیٹ کے نزدیک پہنچا تو وہ شخص اٹھ کے گیٹ کی جانب چلنے لگا۔ دائیں طرف کا چھوٹا دروازہ نیچے زنجیر سے بندھا تھا اور ایک محدود حد تک کھلے گیٹ سے اندر جانا پڑتا تھا۔ اس میں سے فربہ شخص نہیں گذر سکتا۔ اندر داخل ہوا تو سکتے میں آ گیا۔ یہ پلاٹ، گراؤنڈ یا پارک جو کچھ کہہ لیں اتنا چھوٹا تھا جس میں ہاکی بھی نہ کھیلی جا سکے، فٹ بال تو دور کی بات ہے اور اس کے چاروں طرف اونچے اونچے گھر بنے ہوئے تھا۔ اندر والا باریش جوان شخص بھی دروازے کے نزدیک پہنچ چکا تھا۔
میں نے اسے بتایا کہ میں پچاس سال بعد یہ پارک دیکھنے آیا ہوں مگر یہ تو سارا علاقہ یا بیچ ڈالا گیا یا سرکاری عمارات بنا دی گئی ہیں۔ جب میں نے اسے بتایا کہ یہ “پارک” کوئی دو ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا جس میں روشیں تھیں۔ دو چھوٹے گراؤنڈ تھے جو ٹینس گراؤنڈ جتنے تھے اور دو بڑے گراؤنڈ جن کے بیچ ہاکی اور فٹ بال کھیلنے کے لیے چونے سے لکیریں کھینچ کر بنائے گئے گراؤنڈز کے ارد گرد بھی گزوں جگہ بچ جایا کرتی تھی تو عظمت پور کے پرائمری سکول کے یہ استاد بہت حیران ہوئے۔
میں سر پٹختا، فتح پور دروازے سے داخل ہو کر چھتا ہوا بازار عبور کرکے خیرپور دروازے سے نکل کر موٹر سائکلوں اور چنگچی کے ہجوم سے بچتا گھر پہنچا اور چارپائی پر ڈھے کے چیخا کہ آبادی کم کی جائے۔ بھتیجی ہنستی رہی، بڑے بھائی نے تسلی دی کہ بھئی سب طرف یہی حال ہے جبکہ چوبارے سے بڑے بھتیجے نے کہا کہ ہمارے ہاں فی کنبہ بچوں کی تعداد کم سے کم چھ بچے ہیں، ان سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔
سانس لینے کو جگہ نہیں، ہر جانب گندگی ہے، مکھیاں بڑھتی جا رہی ہیں لگتا ہے ادویہ خوب بکتی ہونگی۔ ڈاکٹر بھی اتنے زیادہ ہیں کہ الامان، سرکاری ہسپتال میں ہی ساٹھ ہیں اور پریکٹیشنر کہیں زیادہ۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply