• صفحہ اول
  • /
  • مشق سخن
  • /
  • ضمیر فروش اردو پروفیسر، رشوت اور چور بازاری/ڈاکٹر راشد راشدی

ضمیر فروش اردو پروفیسر، رشوت اور چور بازاری/ڈاکٹر راشد راشدی

اگر ہم آج اکیسویں صدی میں کہیں کہ اُردو پر ہندوستان میں زوال خود اُردو والوں بالخصوص ضمیر فروش پروفیسروں  کی وجہ سے آیا ہے ، تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہ اُردو کے پروفیسر ہی ہیں جنہوں نے ٹولیاں بناکر اور رشوت کھاکر یونیورسٹی اور کالجوں میں نالائقوں کو اپائنٹ کیا اوریوں نالائقوں کی یہ ٹولی بڑھتی ہی جارہی ہے اور اب کئی ٹولیاں وجود میں آگئی ہیں۔ یونیورسٹی بورڈ  اور مختلف ریاستوں کے PSC اور بھرتی ایجنسیوں سے مل کر انہوں نے اُردو زبان و ادب کے پیروں پر خود کلہاڑی ماردی ہے۔اور حرام کی کمائی سے اپنا پیٹ بھرا ۔ بنگلے تعمیر کیے اور گاڑیاں خریدیں۔
یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک جے آر ایف، یو جی سی نیٹ ، پی ایچ ڈی والا اور جس کے ملک کے مقتدر رسالوں میں مضامین چھپے ہوں سلیکشن میں ڈراپ ہوجائے۔بلکہ یہ تو کھلی لُوٹ ہے۔دن دیہاڑے چوری،اور دوسرے امیدواروں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اور ان کی محنت پر پانی پھیر دینا۔ اُردو والوں نے پہلے گروہ بندی سے اُردو کو نقصان پہنچایا پھر مشاعرے اور بریانی سے اس کا بیڑا غرق کر دیا۔فضول کی کتابیں لکھ لکھ کر طالب علموں کو گمراہ کیا اور باقی رہی سہی کسر رشوت کھاکر پوری کر دی۔  حق دار  اپنے حق سے  محروم ہے اور جو جتنا “چالاک ” ہے وہ رشوت اور چاپلوسی سے اتنا  زیادہ کمارہا ہے۔

مگر  رشوت اور چاپلوسی سے تو انہوں نے اپنے پیٹ بھرلیے ، اس سے اُردو کا کچھ بَھلا نہیں  ہُوا۔بلکہ دن بہ دن اُردو زبان  زوال کی طرف  جارہی ہے۔

ایک مرحوم نقاد نے کبھی کہا تھا کہ اُردو کے پروفیسر جاہلوں کی چوتھی نسل سے تعلق رکھتے ہیں (حالانکہ مرحوم نقاد خود ایک گروہ بنائے بیٹھا تھا) لیکن اب حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب یہ پروفیسر بے ایمانوں کی چوتھی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسا کئی بار دیکھنے میں آیا ہے کہ اُردو کے  پروفیسروں نے رشوت کا مال کھایا اور ایک امیدوار سے دس سے پندرہ لاکھ میں سودا طے کیا۔جموں و کشمیر سے لے کر بہار و مہاراشٹرتک کئی بار ایسی خبریں آئیں کہ پروفیسروں نے خوب مال کھایا اور اس میں PSC ممبران نے بھی ان کا ساتھ دیا۔یہ ایک افسوناک پہلو ہے بلکہ ایک مجرمانہ فعل بھی۔لیکن جس ملک میں سب کچھ رشوت میں ڈوبا ہُوا ہو، اس ملک میں انصاف اور ایمانداری کی توقع کرنا کارِ  بےکار  کے سوا کچھ نہیں۔

کشمیر کی یونیورسٹیوں سے لے کر علی گڑھ کی یونیورسٹی تک کئی پروفیسروں نے خاتون سکالروں کو اپنے جال میں پھنسایا،ا ور پھر ڈیپارٹمنٹ میں بھرتی کیا ۔ کچھ نے رشوت وغیرہ سے اپنی بیویوں کے لئے راہ ہموار کی۔ باوثوق ذرائع کے مطابق عموماً  سودا دس سے پندرہ لاکھ میں طے ہوتا ہے۔ اور یہ خبریں راز نہیں بلکہ سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے منٹوں میں پوری دنیا میں پھیل جاتی ہیں۔

ضمیر فروش پروفیسروں نے اُردو کا جتنا بیڑا غرق کیا اتنا کسی نے نہیں کیا۔رشوت اور چاپلوسی سے انہوں نے پوری طرح اُردو   کو ہائی جیک کیا ہے۔ طالب علموں کو گمراہ کیا۔ 2017 کے جمو ں و کشمیر کالج لیکچرر تقرریاں سے کر بہار و یوپی کالج سلیکشن تک انہوں نے بڑی دھاندلیاں کی۔کروڑوں روپیہ اُمیدواروں سے ہڑپ لیا، جس کی خبریں مختلف اخباروں یہاں تک کہ ریڈیو پر آئیں۔لیکن چونکہ حکومت یا حکومتی اہلکار اس میں کہیں نہ کہیں خود ملوث تھے۔ اس لیے اس پر کچھ کارروائی نہ ہوئی۔

کسی پروفیسر  نے اس پر آواز نہیں اٹھائی۔سب نے خاموشی اپنائی، جیسے ان کو کوئی سانپ سونگھ گیا تھا۔اور یہ خاموشی اس وجہ سے بجا بھی ہے کہ خود یہ خود ساختہ دانشور اس چور بازاری میں ملوث رہے ہیں اور ان کے تعمیر کیے ہوئے محل اسی رشوت اور حرام کی کمائی سے کھڑے ہیں۔

مسئلہ یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ یونیورسٹی شارٹ لسٹ بھی اب پروفیسرمل کر طے کرتے ہیں۔کس کو انٹرویو کے لیے لانا ہے، کس نے زیادہ چاپلوسی کی ہے اورکس سے ”مال”وصول کرنا ہے۔یہ سب معاملات   مل جل کر طے کیے  جاتے ہیں اور اپنے منظورِ نظر امید واروں کو انٹرویو میں بلاتے ہیں۔ اور پھر انٹرویو ایک فارمیلٹی بن جاتا ہے۔
اس سلسلے میں راقم الحروف نے کئی سابقہ امیدوار وں سے بات کی اور ان کا کہنا ہے کہ اردو دنیا میں جتنی دھاندلیاں ہوتی ہیں اتنی شایدہی کسی مضمون کی سلیکشن میں ہوتی ہوں۔ اور یہی رشوت اور دھاندلیاں اردو زبان و ادب کے زوال کا باعث ہیں۔

ایک سابقہ امیدوار نے نام ظاہر نہ کرنے پرکہا کہ ”میرے امتحان میں اچھے نمبر آئے تھے اور انٹرویو کے لیے پہلے تین امیدواروں میں شامل تھا۔یو جی سی جے آر ایف بھی ہوں۔دو کتابیں اور دس سے زیادہ مضامین یو جی سی سے تسلیم شدہ رسائل میں چھپ چکے ہیں۔۔انٹرویو بھی اچھا ہُوا،لیکن نتائج دیکھے تو میں ویٹ لسٹ میں بھی نہیں۔ـ پھر پتہ چلا کہ سودا پہلے ہی دس پندرہ لاکھ میں طے ہوچکا تھا۔’’
ایک اور  اُمید وار کے مطابق ‘ اردو پروفیسر آپس میں ملے ہوئے ہوتے ہیں ، ان کا اپنا ایک نیٹ ورک ہوتا ہے اور جب کسی پروفیسر کو کوئی بھرتی ایجنسی  بلاتی ہے تو وہ دوسرے پروفیسروں کو اطلاع دیتے ہیں جہاں سے پیسہ وغیرہ ملنے کے امکانات ہوتے ہیں۔’’

ایسے حالات میں اردوزبان و ادب کی ترقی کے امکانات کیا ہوں گے ،اس کا اندازہ ہر صاحب فہم لگا سکتا ہے۔ اردو کو سب سے پہلے رشوت اور چاپلوسی سے آزاد کروانا ہوگا۔ اردو کے پروفیسروں کو چاہیے کہ موٹی موٹی کتابیں لکھ کر اوراپنے رشتہ داروں  کو اپائنٹ کرکے وہ اردو کا کچھ بھلا نہیں کررہے ہیں بلکہ دوسری طرف رشوت کا بازار گرم کرکے وہ اردو کو زوال کی طرف لے جارہے ہیں۔اپنے آپ کو دانشور کہلوانے سے اردو کا کچھ فائدہ  نہیں ہورہا ہے،اوریہ ہم سب کے لیے بھی لمحہ ء فکریہ ہے۔

نوٹ: مضمون نگار دہلی کی ایک خبر رساں ایجنسی سے وابستہ ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس تحریر میں پیش کیے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، مکالمہ ویب ان کے لیے ذمہ دار نہیں ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply