• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ایک ایسی ڈاکٹر جن سے لا علاج مریض شفاء یاب ہوتے ہیں/ابوذر علی تونسہ

ایک ایسی ڈاکٹر جن سے لا علاج مریض شفاء یاب ہوتے ہیں/ابوذر علی تونسہ

(میں گاہے بگاہے اُن خواتین اور مرد حضرات کا تعارف مختلف اخبارات سائٹس اور میگزین میں لکھتا رہتا ہوں , تاکہ ہم سب ایک دوسرے کے ناموں سے زیادہ کام سے پہچانے جائیں , اور انکے کام جرات قابلیت کو سراہا جائے، حوصلہ بڑھانے کا جذبہ ہمیں آگے بڑھنے کی تقویت دیتا ہے۔)

  میں عرصہ دراز سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ان عظیم شخصیات بارے ریسرچ کر کے لکھنے کا عمل سر انجام دے رہا ہوں جنہوں نے معاشرے میں حقیقی معنوں میں ملک اور قوم کی خدمت کی ہے، اس ریسرچ سے پہلے میں مختلف لکھاریوں کی زندگی کو قریب سے کھنگالنے کا  کام کرتا رہا ٫ اس وقت گزشتہ کئی ماہ سے میں مختلف ڈاکٹرز کے حوالے سے لکھنے کا کام سر انجام دے رہا ہوں اب ڈاکٹرز صاحبان کے کردار تو ہر گلی محلوں میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں لیکن ایک ایسے ڈاکٹر کے بارے لکھنا جو حقیقی مسیحا کہلانے کا حقدار ہو وہ کسی  چیلنج  سے کم نہیں ہے کیونکہ آپ جانتے ہیں اس طرح کے ڈاکٹر ہمارے معاشرے میں خال خال ہی پائے جاتے ہیں کیونکہ آپکے لکھے ہوئے کو پڑھ کر جب کوئی اس ڈاکٹر تک پہنچتا ہے تو ان کی شخصیت اگر آپکے لکھے ہوئے مضمون سے برعکس ہو تو قاری سمجھ لیتا ہے کہ لکھنے والے نا  صرف بد دیانتی سے کام لیا یا شاید اپنے ذاتی تعلقات کی بِناء پر لکھا ہے ایک  لکھاری کیلئے  تحریر  لکھنے سے مراد ایک مکمل ذمہ داری لینا ہوتا  ہے کہ وہ  اپنے ہر  لفظ کا  امین ہے ۔

اسی طرح ایک ہفتہ قبل مجھے ایک بہن کا پیغام موصول ہُوا٫ ابوذر بھائی آپ نے ڈاکٹرز کے اچھے بُرے رویوں بارے بہت سارے آرٹیکل لکھے لیکن میں چاہتی ہوں آپ  ڈاکٹر انعم حنیف صاحبہ بارے لکھیں جو لا علاج بیماریوں کا علاج کرتی ہیں۔
میں بڑا ششدر رہ گیا ،کیا ایسی ڈاکٹر بھی ہو سکتی ہے ؟

میں نے کچھ معلومات لیں، اور سرچ کیا اور لوگوں کی رائے اکھٹی کی تو معلوم ہُوا  کہ بیشک انسان دولت مند بن کر تو شاید کسی کے دل میں مقام نہیں بنا سکتا ،البتہ اچھے رویے حسن ِ اخلاق سے نا صرف لوگوں کے دل جیتے جاتے ہیں بلکہ کہ لا علاج بیماریوں کا علاج بھی ممکن ہے اگر آپ کسی کو زندگی جینے میں دو میٹھے بول سنا  کر یا اس کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھ کر ڈیل کرتے ہیں تو اگلا اپنا دکھ بھول کر آپ کی محبت و اخلاص میں مزید جینے کی امنگ پیدا کر لیتا ہے کہ وہ آپکے جانے کے بعد بھی دعاؤں کے ساتھ آپکو آپکی شخصیت کو زندہ رکھتے ہیں۔

رب ِذوالجلال کا فرمان ہے کہ ہم نے ہر مرض کی دوا پیدا کی ہے کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کائنات میں بیماریاں تو ہوں، لیکن ان کا کوئی علاج نہ ہو، بنی نوع انسان نے سائنسی ترقی کی بناء پر بے شمار لا علاج سمجھی جانے والی بیماریوں کا علاج دریافت کر لیا ہے تاہم کچھ بیماریاں ابھی بھی ایسی ہیں جن کا میڈیکل سائنس کوئی تسلی بخش علاج تلاش کرنے میں تاحال کامیاب نہیں ہو سکی۔ان بیماریوں میں کینسر اور گردہ کے امراض ،آنکھ کی بینائی کا چلے جانا بھی شامل ہے۔

ڈاکٹر انعم حنیف صاحبہ کی ایک بزرگ  جن کی آنکھ کی بینائی چلی گئی تھی ان کے ساتھ ایک ویڈیو وائرل ہے جس طرح آپ بابا جی کا ہاتھ تھام کر حوصلہ دے رہی ہیں۔

اسی طرح کچھ علاج آئی سرجن کے ہاتھ میں بھی نہیں ہوتے۔

جب آپ کےمریض کی آنکھوں کی روشنی کا علاج ممکن نہ ہو لیکن اگر آپ ایک پیشہ ور ڈاکٹر ہیں، خدمتِ  خلق کے جذبے سے سرشار ہیں، خلقِ  خدا سے محبت کرتے ہیں اپنے دل میں خوفِ  خدا لیے ہوئے ہیں تو آپ لا علاج مریضوں کا علاج بھی ڈاکٹر انعم حنیف جیسی شخصیت کی طرح محبت کے دو میٹھے بول سنا کر  کر  سکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

الفاظ میں ہمدردی، اپنائیت اور خلوص، لہجے میں زمانے بھر کا درد اور مٹھاس، ہاتھوں میں اپنائیت کا لمس کسی بھی عام سے انسان کو بھی مسیحا بنا دیتی ہے اور اگر یہی سب خصوصیات کسی ڈاکٹر میں موجود ہوں تو یقین جانیں مریضوں کو ان سے عقیدت ہو جاتی ہے کیونکہ بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو بلا غرض اور بلا تفریق مخلوقِ  خدا کی خدمت میں کوشاں رہتے ہیں۔ ایسے ہی ڈاکٹر دن بھر کی تھکن کو بھی اپنے فرائض کے آڑے نہیں آنے دیتے۔ کسی مریض کو تسلی سے سننا ہی اس کی 50 فیصد بیماری کا خاتمہ کر دیتا ہے۔ کسی مریض کو اس کی بیماری کے متعلق سمجھانا، اس کے سادہ سے سوالات کا احسن طریقے سے جواب دینا، اس کے بار بار پوچھنے پر بھی ماتھے پر بل لاۓ بغیر اس کو جواب دینا ہی آپ کے اپنے پیشے سے مخلص ہونے کا ثبوت ہے اور اس کی بہترین مثال ڈاکٹر انعم صاحبہ ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply