غازی علم دین شہید۔۔۔پرو فیسر محمد عمران ملک

رحمت عالم ﷺ پر جان قربان کرنے والے ہر دور میں رہے۔ جنہوں نے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضور ﷺ کی عزت کی حفاظت کی۔ اس لیے کہ نبی مہربان ﷺ نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا کہ جب تک میں اسے اپنی جان مال اور اولاد سے پیارا نہ ہو جاؤں ۔ اس لیے جب بھی نبی اکرم ﷺ کی ناموس کی بات آئی مسلمانوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر حضور نبی کریم ﷺ کی عزت کو بچانے کی کوشش کی۔ کہ
جب تک میں کٹ مروں نہ خواجہ یثرب کی حرمت پر
خدا شاہد ہے ایماں میرا کامل ہو نہیں سکتا
غازی علم دین شہید کہ جن کایوم شہادت 31اکتوبر ہے، قافلہ عاشقان مصطفے ٰ کا ایک راہی تھا۔غازی علم دینؒ 4 دسمبر 1908ءکو “کوچہ چابک “لاہور میں متوسط طبقے کے ایک فرد طالع مند کے گھر میں پیدا ہوئے جو بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ طالع مند اعلیٰ پائے کے ہنرمند تھے۔ جن کا اپنے علاقے کے جانے پہچانے کاریگروں میں شمار ہوتا تھا۔۔ وہ علم دین کوگاہے گاہے اپنے ساتھ کام پرلاہور سے باہر بھی لے جاتے ، علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسے میں حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ نے اپنے آبائی پیشہ کو ہی اختیار کیا اور اس فن میں ہی اپنے والد اور بڑے بھائی میاں محمد امین کی شاگردی اختیار کی۔
اس دوران لاہور کے ایک ناشر شیطان صفت “راج پال” نے نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف ایک کتاب شائع کر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا۔ جس پر مسلمانوں میں سخت اضطراب پیدا ہوا،مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سےاس گستاخانہ کتاب کو ضبط کرانے اور ناشر کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ تو مجسٹریٹ نے ناشر “راج پال” کو صرف چھ ماہ قید کی سزا سنائی جس کو ایک ہی اپیل میں جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے ختم کردیا۔انگریز حکومت کی ہٹ دھرمی کو دیکھ کر مسلمانوں نےمتعدد جلسے جلوس منعقد کئے،مگر انگریز حکومت نے روایتی مسلم دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کردیا۔مسلمانوں میں یہ احساس بڑھنے لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور وہ جان گئے کہ اس ملعون کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا،اسی دوران بہت سے لوگوں نے خود سے اس ملعون کو قتل کرنے کی کوشش کی۔جن میں لاہور کے ایک غازی خدابخش نے24 ستمبر 1928 کو اس گستاخ کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا، تاہم وہ خبیث بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوگيا، غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی۔ اسی طرح ایک اور مرد مجاہد گھر سے کفن باندھ کر نکلا، جو افغانستان کا ایک غازی عبدالعزیز تھا، جس نے لاہور آکر اس شاتم رسول ﷺکی دکان کارخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا اس کی جگہ اس کا دوست سوامی ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو ہی راج پال سمجھ کر ٹھکانے لگا دیا، غازی عبدالعزیزکو حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی۔راج پال ان دو حملوں کے بعد نہایت خوف زدہ رہنے لگا۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا۔اخبارات چیختے چلاّتے رہے، راج پال کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے۔ جلسے ہوتے جلوس نکلتے، لیکن حکومت اور عدل وانصاف کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ مسلمان دلبرداشتہ تو ہوئے لیکن سرگرم عمل رہے۔ دلّی دروازہ سیاسی سرگرمیوں کا گڑھ تھا۔ یہاں سے جو آواز اٹھتی پورے ہندوستان میں گونج جاتی۔ علم دین ایک روز حسب معمول کام پر سے واپس آتے ہوئے دلّی دروازے پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر رک گئے۔ انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ راج پال نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتاب چھاپی ہے اس کے خلاف تقریریں ہورہی ہیں۔ کچھ دیر میں ایک اور مقرر آئے جو پنجابی زبان میں تقریر کرنے لگے۔ یہ علم دین کی اپنی زبان تھی۔ تقریر کا ماحصل یہ تھا کہ راج پال نے ہمارے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے، اور وہ واجب القتل ہے، اسے اس شرانگیزی کی سزا ضرور ملنی چاہیے۔ علم دین گھر پہنچے تو والد سے تقریرکا ذکر کیا۔ انہوں نے بھی تائید کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کرنے والے کو واصلِ جہنم کرنا چاہیے۔علم دین اپنے دوست “شیدے” سے ملے اور راجپال اور اس کی کتاب کا ذکر کرتے۔ لیکن پتہ نہیں چل رہا تھا کہ راج پال کون ہے؟ اُس کی دکان کہاں ہے ؟ اور اس کا حلیہ کیا ہے ؟ شیدے کے ایک دوست کے ذریعے معلوم ہوا کہ شاتمِ رسول ہسپتال روڈ پر کتابوں کی دکان کرتا ہے۔ علم دین اس کی تحقیق پر لگ گیا، جس کے لی اس نے بہت سے لوگوں سے پوچھا، اور جلسے جلوسوں میں ہونی والی تقاریر سنی، بعد از یقین اک رات اس کا دل بہت پسیجا، جہاں پھر ایک رات انہیں خواب میں ایک بزرگ ملے، انہوں نے کہا: ”تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی ہو رہی ہے اور تم ابھی تک سورہے ہو! اٹھو جلدی کرو۔“ علم دین ہڑبڑا کر اٹھے اور سیدھے شیدے کے گھر پہنچے۔ پتہ چلا کہ شیدے کو بھی ویسا ہی خواب نظرآیا تھا۔دونوں ہی کو بزرگ نے “راج پال” کا صفایا کرنے کو کہا۔ دونوں میں یہ بحث چلتی رہی کہ کون یہ کام کرے، کیونکہ دونوں ہی یہ کام کرنا چاہتے تھے۔ پھر قرعہ اندازی کے ذریعے دونوں نے فیصلہ کیا۔ تین مرتبہ علم دین کے نام کی پرچی نکلی تو شیدے کو ہار ماننی پڑی۔ علم دین ہی پھرشاتمِ رسول کا فیصلہ کرنے پر مامور ہوئے۔ چنانچہ غازی علم الدین 6اپریل 1929ءکو لاہور آئے، معلوم ہوا کہ راج پال کی دوکان واقع ہسپتال روڈ انار کلی نزد مزار قطب الدین ایبک میں ہے، آپ وہاں گے، تو معلوم ہوا، راج پال ابھی نہیں آیا۔ آتا ہے تو پولیس اس کی حفاظت کے لیے آجاتی ہے۔ آپ نے انتظار کیا اور پھر اتنے میں وہ لعین ایک بجے دوپہر پہنچ گیا، جسے کار سے نکلنے والے کے بارے میں کھوکھے والے نے بتایاکہ یہی راج پال ہے، اسی نے کتاب چھاپی ہے۔ وہ دفتر میں جاکر اپنی کرسی پر بیٹھا اور پولیس کو اپنی آمد کی خبر دینے کے لیے ٹیلی فون کرنے ہی والا تھا کہ علم دین دفترکے اندر داخل ہوئے۔غازی نے راج پال کو للکارا،اور پلک جھپکتے میں ہی چھری نکالی، اور ہاتھ فضا میں بلند ہوا اور راج پال کے جگر پر جالگا۔ چھری کا پھل سینے میں اترچکا تھا۔ ایک ہی وار اتنا کارگر ثابت ہوا کہ راجپال کے منہ سے صرف ہائے ہائےکی آواز ہی نکلی اور وہ اوندھے منہ زمین پر جاپڑا۔اس کی دکان کے ایک ملازم نے قریبی تھانے انارکلی کو خبر دی جس پر پولیس نے آپ کو گرفتار کرلیا۔ آپ اس واقعہ کے بعدناصرف مکمل پرسکون رہے بلکہ آپ نے فرار ہونے کی بھی کوئی کوشش نہیں کی۔ آپ نے اس کاروائی کا اعتراف کیا اور گرفتاری پیش کردی۔ مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لوئس کی عدالت میں پیش ہوا جس نے ملزم پر فرد جرم عائد کرکے صفائی کا موقع دیئے بغیر مقدمہ سیشن کورٹ میں منتقل کردیا۔آپ کی جانب سے سلیم بارایٹ لا پیش ہوئے جنہوں نے آپ کے حق میں دلائل دیئے مگر نیپ نامی انگریز جج نے آپ کو مورخہ 22 مئی1929 کو سزائے موت کا حکم سنایا۔ مسلمانان لاہور نے فیصلہ کیا کہ کہ سیشن کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی جائے اور اس مقدمے میں غازی کی وکالت کے لئے جناب قائد اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو نامزد کیا گیا۔ چنانچہ محمد علی جناح رحمۃ اللہ تعالی علیہ بمبئی سے لاہور تشریف لائے جن کی معاونت جناب فرخ حسین بیرسٹر نے کی۔7 جولائی 1929ءکو غازی علم دین کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا، جسے اپیل کے بعد 15 جولائی 1929 کو ہائی کورٹ کے دو ججوں نے بھی سیشن کورٹ کی سزا کو بحال رکھا۔ اور غازی کی اپیل خارج کردی۔ اپیل خارج ہونے کی اطلاع جب جیل میں غازی علم دین کو ملی تو آپ نے مسکرا کر فرمایا ” شکر الحمداللہ ! میں یہی چاہتا تھا۔ بزدلوں کی طرح قیدی بن کر جیل میں سڑنے کے بجائے تختہ دار پر چڑھ کر ناموس رسالت پر اپنی جان فدا کرنا میرے لیے ہزار ابدی سکون وراحت ہے” ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف لندن کی پریوی کونسل میں بھی اپیل دائر کی گئی۔اس اپیل کا مسودہ قائد اعظم رحمۃ اللہ تعالی علیہ کی زیر نگرانی ہی تیار کیا گیا۔ مگر اس نے بھی اپیل کو بھی رد کردیا۔ 31 اکتوبر 1929 بروز جمعرات کو میانوالی جیل میں اس سزا پر عمل درآمد کیا گیا۔ آپ کی شہادت کے بعد انگریز حکومت نے آپ کے جسد خاکی کو قبضے میں ہی رکھا، اور کسی نامعلوم مقام پر سپردخاک کردیا جس پر شدید احتجاجی لہر اٹھی۔ اور 4 نومبر 1929 کو مسلمان رہنماؤں کے ایک وفدجن میں سر فہرست شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ ، سر محمد شفیع، مولانا عبدالعزیز، مولانا ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع،میاں امیر الدین،مولانا غلام محی الدین قصوری صاحبان شامل تھے نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے ۔ مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی۔13 نومبر 1929 کومسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کر لیا گیا۔ موقع پر موجود لوگوں کا بیان ہے کہ دو ہفتے گزر جانے کے باوجود جسد خاکی بالکل تازہ تھا۔ جیسے ابھی دفن کیا گیا ہو۔چہرے پر خوبصورتی ، اور ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔ محکمہ ریلوے نے یہ جسد خاکی 15 نومبر 1929 کو لاہور چھاؤنی میں دو مسلم رہنماؤں جناب محمد علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ اور سر محمد شفیع صاحبان کے حوالے کیا۔غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ شہید کا جنازہ لاہو ر کی تاریخ کے بڑے جنازوںمیں سے بڑا جنازہ تھا، جنازہ کا جلوس تقریبا ساڑھے پانچ میل لمبا تھا۔ جناب محترم غازی علم دین شہید صاحب کی نماز جنازہ قاری شمس الدین خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔ اور مولانا دیدار شاہ اور علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے غازی علم دین شہید رحمۃ اللہ تعالی علیہ کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے وہ مشہور قول فرمایا کہ ” یہ لوہاروں کا لڑکا ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا “۔لوگوں نے عقیدت میں اتنے پھول نچھاور کئے کہ میت ان میں چھپ گئی۔بہاولپور روڈ کے کنارے میانی صاحب قبرستان میں آپ کو دفن کیا گیا۔

Facebook Comments

پروفیسر محمد عمران ملک
پروفیسر محمد عمران ملک وزیٹنگ فیکلٹی ممبر پنجاب یونیورسٹی لاہور پی ایچ ڈی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply