احمد عطا اللہ کی غزل گوئی بہ زبان فرہاد احمد فگار/محمود خان

جب اردو ادب وشاعری لاوارث ہونے لگی تو پروانے اس کی ترویج کےلیے تن مَن سے میدان ِ عمل میں اُترتےرہے اوراُترتے رہیں گے۔اندرونی و بیرونی سازشی اپنے وار چلاتے  رہے، لیکن دیوانے اپنی ہی دُھن میں مگن رہے اور اس کی آبیاری کرتے رہے۔ اردو ادب و شاعری دوسری زبانوں کی طرح ترقی کی منازل طے کرتی جارہی ہے۔دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں اس کے دیوانے تندہی سے اپنے کام میں مگن نظر آئیں گے۔ انھیں نہ تو کسی صِلےکی پروا ہ اور نہ ہی ستائش کی تمنا ہے۔   اُردو کےانہی دیوانوں میں ایک جنونی فرد فرہاد احمد فگار  ہے۔جو نا  صرف اس زبان کی ترویج کے لیے کوشاں ہے، بلکہ املاء  کے میدان میں بھی جان کھپا رہا ہے جو جان جوکھم کا کام ہے۔ اس محاذ پر خطۂ بے نظیر کشمیر سے یہ جنونی اس علم کو لے کر   جانبِ منزل ہی رواں دواں ہے۔ بالکل مجروح سلطان پوری کے اس شعر کے مصداق جس میں وہ اپنا مدعا بیان کرتے ہیں کہ:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

اب دیکھنا یہ ہے کہ  کب فرہاد احمدفگار کے ساتھ افراد ملتے ہیں اور کارواں بنتا ہے اور اردو املاء  کی ترویج میں ان کا ہاتھ بٹاتے ہوئے ایک جانثار فوج تیار ہوتی ہے۔
میری فرہاد سے بالمشافہ ملاقات تو نہیں لیکن ان کے کام نے مجھے ان کاگرویدہ بنا دیا ہے۔ میرا ان سے رابطہ بذریعہ واٹس ایپ گروپ  میں ہُوا،جس میں انھوں نے میرے بھیجے گئے میسج پر املا ء کی گوشمالی کر ڈالی ۔ یورپ میں رہتے اردو زبان سے انگریزی زبان کی طرف مراجعت ایک قدرتی امر ہے لیکن اپنی قومی زبان اردو کوپسِ پشت ڈالنے کی سزا اور املاء کی غلطی کی تصحیح پر زور دارگوشمالی فرہاد جیسا انسان جن کی اس کاز کے ساتھ مکمل وابستگی ہو و ہی کر سکتے ہیں۔ان کی اس گو شمالی پر مجھے نا  صرف اچھا لگا بلکہ اپنائیت کا احساس بھی ہُوا۔ یہی بات ہماری جان پہچان کا باعث بنی۔میں نے یہ امید باندھ رکھی ہے کہ ان شاءاللہ زندگی میں ان سے بالمشافہ ملاقات کا شرف ضرورحاصل ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اب آگے بڑھتے ہوئے ان کی کتاب “احمدعطااللہ کی غزل گوئی” کے بارے میں اپنے تاثرات نذرِ قارئین کرتا ہوں۔ میں فرہاد کا تہِ دل سے احسان مند ہوں کہ انھوں نے انتہائی سلیس اردو کی تمہید باندھتے ہوئے احمد عطا اللہ کی غزل پہ روشنی ڈالی۔ کتاب پڑھتے ہی احمد عطاا للہ کی شاعری کی کئی پرتیں کھلتی چلی گئیں اور ایک ایسا ہیولہ میرے سامنے آن کھڑا ہوا جیسے کہ میری احمد عطا اللہ سے ازلوں سے جان پہچان ہے اور ان کی شاعری کو عرصۂ درازسے جانتا ہوں۔یہ صرف فرہاد کی مہارت تھی کہ کیسے لفظوں کےچناؤ سے تمام موتیوں کو ایک لڑی میں پروتے ہوئے ایک مالا تیار کی جس سے مجھ جیسا کم آہنگ انسان بھی لطف اندوز ہو نے پر مجبور ہوا یہ انھی کا خاصا ہے۔دل تو چاہتا ہے کہ ان کی تعریف میں رطب اللسان رہوں، وقت تھم جائے اور میں اپنے  دل کی تمام باتیں سپردِ قلم کرتا چلا جاؤں۔لیکن ابھی  بس اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ اللہ کرے زور ِ قلم اور زیادہ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply