بندر کی بلا، طویلے کے سر

بندر کی بلا، طویلے کے سر
محمد لقمان
2002 کے عام انتخابات ميں قاف ليگ برسر اقتدار آئی تو شيخ رشيد احمد وزير اطلاعات اور فروغ ابلاغ مقرر ہوئے۔ لاہور ميں ہونے والی ايک پريس کانفرنس ميں انہوں نے جماعت اسلامي کے مبينہ دہشت گردوں کے ساتھ تعلق کے بارے ميں دعویٰ کيا تو ہر اخبار نے اس کو اگلے دن شہ سرخی کے ساتھ چھاپا۔ پريس کانفرنس کو اے پي پي لاہور کے اس وقت کے بيورو چيف سيد فواد ہاشمي نے بھي کور کيا اور اپني خبر ميں شيخ رشيد کے جماعت اسلامي پر الزام کو رپورٹ کيا۔
خبر چھپنے کے بعد چوبيس گھنٹوں ميں جماعت اسلامي اور ديگر مذہبي جماعتوں کی طرف سے سخت رد عمل آيا تو شيخ رشيد اپنے بيان سے مکر گئے اور اخبارات پر سياق و سباق سے ہٹ کر خبر دينے کا الزام بھي لگا ديا۔ فوجی حکمران جنرل پرويز مشرف کی چھتر چھاوں ميں قائم قاف ليگ کی وفاقی حکومت نجي اور آزاد ميڈيا کے خلاف تو کوئی ايکشن نہيں لے سکتي تھي۔ مگر شيخ رشيد اور وزارت اطلاعات کا تمام تر نزلہ اے پي پي پر ہي پڑا اور سيد فواد ہاشمي کو معطل کرديا گيا۔ يوں وہ چھ مہینےتنخواہ اور ديگر مراعات سے محروم رہے۔ ان کو اس جرم کی سزا دی گئی جوانہوں نے کيا ہي نہيں تھا۔ بالآخر سفارشوں کے بعد ان کی بحالی ہوئی۔
اے پي پي، پی ٹی وی، ريڈيو ، پی آئی ڈی اور ديگر سرکاری ميڈيا ميں ايسے واقعات ہميشہ سے ہي ہوتے آئے ہيں۔ سرکار ميں رہنے والے سياستدان جب حزب اختلاف ميں آتے ہيں تو تب بھي سرکاری ميڈيا پر ہي تنقيد کرتے ہيں۔ گويا کہ سرکاریميڈيا کا ملازم نہ جائے ماندن نہ نہ پائے رفتن والی کيفيت ميں ہي رہتا ہے۔ چند ماہ پہلے اے پی پی اسلام آباد کے ايک رپورٹر نے سابق وزير اطلاعات پرويز رشيد سے ايک چبھتا سوال کيا تو اسے بھي معطل کرديا گيا اور بعد ميں بہاولپور تبادلہ کرديا گيا۔ اس کو کئي ماہ سے تنخواہ بھي نہیں ملي۔ معطل ہونے والے رپورٹر نے حال ہي ميں سپريم کورٹ ميں وزير مملکت برائے اطلاعات مريم اورنگزيب کے سامنے احتجاج کيا ہے۔پتہ نہيں اب اس کے خلاف کيا تاديبي کارروائی ہوتی ہے۔ پاکستان کے برعکس ترقي يافتہ ممالک کے قومي خبر رساں ادارے تھوڑا سا مختلف رويہ اختيار کرتے ہيں۔ يہي وجہ ہے کہ بی بی سی، رائٹرز، اے ايف پي اور ڈی پی اے کے رپورٹرز کو ايسي مشکلات کا سامنا نہيں کرنا پڑا۔ اگر پاکستان ميں جمہوری اقدار کو فروغ دينا ہے تو سرکاری خبر رساں اداروں کو تھوڑی سی آزادی دینی ہی پڑے گي۔

Facebook Comments

محمد لقمان
محمد لقمان کا تعلق لاہور۔ پاکستان سے ہے۔ وہ پچھلے 25سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ پرنٹ جرنلزم کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کا بھی تجربہ ہے۔ بلاگر کے طور پر معیشت ، سیاست ، زراعت ، توانائی اور موسمی تغیر پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply