صحافتی اداروں کے مالکان اور نمائندگان

کسی بھی معاشرے میں صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے۔صحافت کا مقصد عوام میں شعور،ہم آہنگی اور اچھے برے کی تمیز کروانا ہے۔ تحریک پاکستان میں صحافتی مجلات اور اخبارات نے اہم کردار ادا کیا۔ رمیندار ہو یا ہلال یا پھر کامریڈ تمام اخبارات نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا اور دونوں طرف کی عوام میں شعور پیدا کیا۔ صحافت ایک زمانے تک عبادت سمجھی جاتی تھی۔عوام کے اندر احساس محرومی کو دور کرنا اور حقوق کو پہچاننا۔ وقت گزرتا گیا اور صحافت کی اقدار بدلتی گئیں۔ لوگوں نے اسکا استعمال ذاتی مقاصد کے لئے شروع کردیا۔ عوام کے اندر ایک نئے طرز کی تحریک شروع کردی، کوئی صحافت کے ذریعے لبرل ازم کا پرچار کررہا ہے تو کوئی شدت پسندی کا،کوئی سوشلزم کا حامی ہے تو کوئی سرمایہ دارانہ نظام کا۔ہر بندے نے اپنی سوچ کی مسجد بنالی.

صحافت مختلف نظریات اور طبقات میں بٹ گئی۔ حکمرانِ وقت کا حامی طبقہ مراعات یافتہ کہلایا جبکہ مخالف گروپ پر پابندیان بھی لگیں۔ سرمایہ داروں نے اپنے کالے دھن کو سفید کرنے کی خاطر اس مقدس شعبے کا استعمال کیا اور بے تحاشہ پیسہ لگا دیا۔ جس سے یہ مقدس شعبہ ایک صنعت کی شکل اختیار کرگیا۔ ایک ایسی صنعت جہاں پیسے کا معیار اور شخصیت ہے،جو زیادہ دے وہ بڑا محب وطن اور جو کم دے سب سے بڑا باغی۔ صحافت کے ذرائع بڑھتے گئے۔اخبارات آۓ،ٹی وی چینلز بنے۔ صحافت دو درجات میں بٹ گئی برقی اور اخباری صحافت میں۔ اخباری صحافت کا تعلق اخبارات ،رسائل،ماہنامے وغیرہ سے ہے جبکہ برقی میڈیا جس میں نیوز چینلز،سپورٹس چینلز اور بزنس چینلز شامل ہیں۔

اس وقت پاکستان میں صحافتی ادارے بجاۓ معیار کے، مقابلے کی فضاء کو قائم کئے ہوۓ ہیں۔ سینکڑوں اخبارات اور درجنوں نیوز چینلز اس وقت مارکیٹ میں ہیں۔ہر طرف بریکنگ نیوز،آج کی بڑی خبر،دھماکہ خیز نیوز کے Ticker چل رہے ہیں۔ہر طرف منفی سرگرمیوں کی نشاندہی ہورہی ہے۔بات کا بتنگڑ بنایا جارہا ہے،ذاتی مفادات اور مقاصد کو مضبوط کیا جارہا ہے۔ اخباری نمائندگان اور رپورٹرز کی لوٹ سیل لگی ہوئی ہے۔ تعلیم کی کوئی بندش نہیں آپ انگوٹھا چھاپ ہیں آئیں پچاس ہزار ،لاکھ سیکورٹی جمع کروائیں اور پھر لے جائیں نمائندگی کا کارڈ اور پھر آپ کو لکھا اور بطور صحافی پکارا بھی جاۓ۔ اخباری نمائندگان بڑے دھڑلے کے ساتھ اپنے نام کے ساتھ لفظ ” سینئر صحافی” لکھواتے ہیں۔ جبکو موصوف کو فیس بک پر پوسٹ لگانا نہیں آتی۔

پاکستان میں اس وقت ہزاروں ایسے افراد ہیں جن کو الف،ب کا پتہ نہیں لیکن پیسے کے زور پر کسی اخبار یا چینل کے نمائندہ ہیں۔ یہی افراد تھانے اور کچہری میں پریس کارڈ کا دھونس دکھاتے ہیں،بلیک میل کرتے ہیں اور اداروں کو غیر جانبدارانه کام کرنے سے روکتے ہیں، یہی افراد بعد میں رشوت ستانی اور غنڈہ گردی کا باعث بنتے ہیں۔جس سے صحافت جیسے مقدس پیشے کی ساکھ داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ پاکستان میں اس وقت زرد صحافت کا بول بالا ہے آج سرکاری ملازمین اپنی کرپشن کو چھپانے کےلئے مختلف اخبارات کے نمائندگان بنے پیٹھے ہیں اور اسی اخبار کارڈ کی وجہ اپنے ملازمین اور افسران کو محکمہ جاتی بلیک میل کرتے ہیں۔ آج کل ہر فرد اپنے آپکو معاشرے کا چوہدری ثابت کرنے کےلئے پریس کارڈ لگے میں لٹکاۓ جانبدار سرگرمیوں میں مصروف عمل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس ساری صورت حال میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کا کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ صحافتی تنظیموں کو چاہیے کہ اس بابت کوئی مناسب لائحہ عمل اور شرائط ترتیب دیں۔ اخباری نمائندگان کے لئے کم از کم تعلیمی معیار انٹرمیڈیٹ مقرر کیا جاۓ، سرکاری ملازمین کو پریس کارڈ کا اجراء روکا جاۓ اور بطور رپورٹر تقرری سے پہلے تحریری امتحان بھی لیا جاۓ۔اس عمل سے صحافت جیسے مقدس شعبے میں شفافیت اور معیار دونوں آئیں گے۔بدعنوانی کم هوگی،بلیک میلنگ کی حوصلہ شکنی ہوگی اور تھانہ کلچر میںبھی تبدیلی آۓ گی۔ کیونکہ اس وقت اخباری نمائندگان تھانوں میں بطور رشوت کے سہولت کار اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوۓ ہیں۔ اس بابت اخباری مالکان کو بھی اس مقدس شعبے کا احساس کرتے ہوۓ اہلیت کی بنیاد پر تقرریاں کرنی چاہئیں۔

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply