اے اہلِ کشمیر ہم شرمندہ ہیں
پیارے پڑھنے والو !
آج 5 فروری ہے اور آج کے دن کو ہم مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے طور پر مناتے ہیں۔
کچھ کھردرے سوال ہیں!
اتنے برس گزر جانے کے بعد کیا آج بھی کوئی امید کوئی آس کوئی دلاسہ ہے ہمارے پاس، جو ہم کشمیریوں کو دے سکیں جن کی کئی نسلیں بھارتی جبر و استبداد سہتی چلی آ رہی ہیں۔
اب تو ہمارے حکمرانوں کے سارے چورن منجن اور لالی پاپ بھی زائد المعیاد ہو چکے ہیں ذرا ایک نظر ان کھوکھلے نعروں کو تو دیکھیے
کشمیر ہماری شہ رگ ہے
ہم مقبوضہ کشمیر مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں
کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کرتے ہیں
کوئی ہے جو پوچھے
ارے بھائی تمہاری شہ رگ دشمن کے بوٹوں تلے دبی ہے تو تم زندہ کیسے ہو ؟ غیرت مر چکی ہے یا ضمیر؟
اور اتنے سالوں سے کھڑے اب تھک گئے ہو ناں ذرا دیر بیٹھ جاؤ
اور یہ تمہاری حمایت بھی ایک لطیفے سے کم نہیں
آئیے ذرا کنٹرول لائن پار کے مناظر دیکھیے جہاں بھارت نے نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ چنگیز خان اور ہلاکو خان کی روحیں تک شرما گئیں
یہاں تک کہ اس نے کشمیر کی صدیوں سے قائم آئینی حیثیت ہی پامال کر دی۔
اب سنا ہے کہ وہ خطہ کشمیر میں معیشت اور روزگار کا جال بچھانے جا رہا ہے جس کی ایک کڑی دنیا بھر میں بننے والے آئی فونز کا نصف کشمیر میں تیار ہوں گے۔
اور آج کشمیری جس قوم سے محمد بن قاسم نکلنے کا انتظار کر رہے ہیں اس کے طاقتور اپنے ہی لوگوں کو فتح کرنے میں مصروف ہیں۔ کبھی ان کو طفل تسلی دی گئی کہ بس یہ جہاد افغانستان سے سرخرو ہو لیں پھر کشمیر کی باری ہے۔
بھارت کی طرح ہر الیکشن میں تمام جماعتوں نے جہاد کشمیر کا منجن بیچ کر ووٹ لئے
کسے بھولا ہے وہ نعرہ
چلیں گے ہم کشمیر اپنی سائیکل پہ
اب لینا ہے کشمیر اپنی سائیکل پہ
اب تو ہمسائے ملک میں ہمارا مذاق اڑانے کی بجائے ترس کھایا جانے لگا ہے
اپنے ہی لوگوں کو محض بولنے کے جرم میں اٹھا کر ننگا کرنے اور پھر ویڈیوز بنانے والے کس منہ سے آج کشمیریوں سے یوم یک جہتی منائیں گے۔
اب تو وادی لولاب سے پاکستان کی محبت میں ڈوبی توانا آواز بھی خاموش ہو چکی ہے کئی دہائیاں پوری توانائی سے یہ نعرہ بلند کرنے والا سید علی گیلانی بھی آزادی کا خواب آنکھوں میں لئے رب کے حضور پیش ہو گیا۔
پاکستان ہمارا ہے!
تو آج کے دن مقبوضہ کشمیر میں بسنے والے اپنے بے بس کمزور مظلوم مسلمانوں سے معافی کا طلب گار ہوں
اے بھائیو اور بہنوں!
ہم تو ایمان کے آخری درجے سے بھی نیچے گر چکے ہیں
آپ پر طاری غلامی کی سیاہ رات کی زبانی کلامی مذمت
ایک ہومیو پیتھک قسم کا ٹویٹ زیادہ ترنگ میں آئے تو ایک آدھ نغمہ کھڑکا دیں گے بس۔اور افسر شاہی ذرا دیر اپنے آراستہ دفتروں سے نکلے گی سرخ قالینوں کو روندتے ہوئے چند درباریوں کے ساتھ مل کر انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائیں گے فوٹو سیشن ہوگا کسی مال دار آسامی کے بندوبست سے لائی گئی کیک پیسٹریاں کھائیں گے اور یوں آپ سے یک جہتی کا فریضہ سرانجام پائے گا۔اور پھر مجھ سمیت ہر پاکستانی سوشل میڈیا پر آزادی کشمیر کی جنگ لڑنے کی خاطر اپنا اپنا مورچہ سنبھال لے گا بس ہم اتنے ہی مسلمان ہیں۔
تو اے ساکنان وادی فردوس
ہم شرمندہ ہیں
اپنے استاد اور مرشد پروفیسر سید وجیہہ الحسن صفدر کے اس کلام کے ساتھ
ہے کوئی واقف یہاں میرے وطن کے حال سے
پربتوں پہ برف کیوں روتی ہے اتنے سال سے
کوئی بتلائے کہ چشمے خشک کیوں ہوتے نہیں
اس طرح تو ٹوٹ کر پتھر کبھی روتے نہیں!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں