جادوئی دوربین۔احسان عبدالقدوس/کہانی

تیس سال کی عمر ہونے سے پہلے مجھے کوئی مشکل لاحق نہیں تھی۔۔۔! میں ایک عام انسان تھا، بزنس میں ڈپلوما حاصل کیا، سرکاری نوکری مل گئی، تنخواہ بھی معقول ہوگئی، ماہانہ پچیس پاؤنڈ تنخواہ تھی۔ اسٹیشن گراؤنڈ میں واقع ایک بڑی عمارت کی اعلی ترین منزل پر ایک چھوٹے سے فلیٹ میں سکونت پذیر تھا۔ زندگی میں زیادہ خواہشات نہیں تھیں، نہ میں کسی کو تنگ کرتا تھا نہ کوئی مجھے، نہ مجھے کسی کا احساس تھا نہ کسی کو میرا۔ ہاں، شادی کرنے کی سوچ رہا تھا۔۔۔!!
پھر ایک دن میرا رفیقِ کار استاذ عبد العظیم ایک بہت بڑی بہت ہی بڑی دوربین لے کر آیا۔ یہ دوربین ویسی نہیں تھی جیسی کہ گھوڑسواری مقابلہ کے شائقین استعمال کرتے ہیں۔ یہ ایک جنگی دوربین تھی جس کا استعمال افسران میدانِ جنگ میں کرتے ہیں۔ دوربین نہیں بلکہ کوئی جنگی ہتھیار معلوم پڑ رہی تھی۔ دوربین میں ایک ہی آنکھ تھی۔ لینس کو چھوٹا بڑا کیا جا سکتا تھا۔ لینس کی سیٹینگ کے لئے مخصوص گنتیوں کا استعمال ہوتا تھا۔ دوربین نصب کرنے کے لئے ایک اسٹینڈ بھی تھا۔ پہلی ہی نظر میں یہ دوربین میرے حواس پر چھا گئی۔۔۔!
معلوم نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا۔ جب دوربین کو پکڑا تو یوں لگا کہ جیسے میں اس دوربین کو پا کر دنیا کا سب سے خوش و خرم انسان بن سکتا ہوں۔۔۔!
استاذ عبد العظیم مجھے دوربین کے طریقہ استعمال کے بارے میں بتانے لگا پھر اسے کھڑکی کے سامنے نصب کر دیا، اس کا لینس سیٹ کیا اور اس میں دیکھ کر چلایا:
– آ، دیکھ اس پٹاخہ کو جو کھانا پکا رہی ہے۔۔۔!
میں نے اپنی آنکھ دوربین پر رکھی اور استاذ عبد العظیم سے پوچھا:
– کہاں، کہاں ہے وہ پٹاخہ؟
جواب میں استاذ عبد العظیم نے ساحۃ اسٹریٹ پر واقع ایک دوردراز عمارت کی جانب اشارہ کیا اور بولا:
– اس عمارت میں۔۔۔!
مجھ پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔۔۔ہم وزارۃ کی کھڑکی سے لاظوغلی میدان کو دیکھ سکتے تھے۔ میرے اور اس کے درمیان ٹرام کے چار اسٹیشن واقع تھے، اس کے باوجود مجھے یہ لگ رہا تھا کہ اسے اپنے ہاتھوں سے چھولوں گا۔۔۔!!
میں نے اپنی آنکھ پھر سے دوربین کے ساتھ لگادی۔۔۔وہ رہی اس کی اوڑھنی جس سے وہ اپنی زلفوں کو باندھے ہوئے ہے، پیلے رنگ کی اس کی گاؤن جو اس کے جسم کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی، اس کے پیروں کی جوتی بھی دکھائی دے رہی تھی، نہ صرف جوتی بلکہ اس کا رنگ بھی عیاں تھا، جوتی کا رنگ لال تھا۔۔۔مجھے وہ کھانا بھی دکھائی دے رہا تھا جسے وہ پکا رہی تھی۔۔۔بھنڈی پکا رہی تھی۔۔۔!
یاہو۔۔۔!
میں نے جب دوربین سے اپنی آنکھ ہٹائی تو میری سانسیں حیرت و استعجاب کے مارے اکھڑ رہی تھیں۔ میں نے استاذ عبد العظیم سے پھنسی پھنسی سی آواز میں پوچھا:
– بیچے گا؟
استاذ عبد العظیم سخت مٹی کا بنا ہوا تھا، نخرے دکھانے لگا، میں گزارش کرتا رہا بلکہ گڑگڑاتا رہا تب جا کر پگھلا۔ دس پاؤنڈ میں دوربین فروخت کرنے پر آمادہ ہوگیا۔ طے یہ پایا کہ کل قیمت پانچ پانچ پاؤنڈ کے حساب سے دو قسطوں میں ادا کروں گا۔۔۔
میں نے دوربین یوں اٹھائی جیسے کہ میرا کل سرمایہ حیات ہو، اٹھا کر اسے اپنے گھر لایا اور بالکنی کی دیوار پر نصب کر دیا۔ دن کے بچے کھچے وقت میں اس کے لینس کو ہی سیٹ کرنے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔!!
اوہو۔۔۔!
اسٹیشن گراؤنڈ میں رہتے ہوئے 26 جولائی اسٹریٹ تک دیکھ سکتا تھا۔ سپریم کورٹ کے کمروں کے اندر کیا چل رہا ہے یہ بھی دیکھ سکتا تھا۔ ریوولی سینما کے اوپر واقع نائٹ کلب کی شوخ سرگرمیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ اور۔۔۔!
میں نے دوربین کا رخ اپنے اردگرد واقع گھروں کی جانب کر دیا، ان کی کھڑکیوں کے راستے!!
دوربین میں ایک جوان عورت دکھائی دی، اس کے پہلو میں ایک آدمی بیٹھا کھانا کھا رہا تھا، شاید اس کا شوہر تھا۔۔۔عورت مرد پر جھک جھک کر اس کے منہ میں نوالے ڈالتی، پھر اس کو بوسہ دیتی، مرد گھوم کر اسے اپنے بانہوں کے حصار میں لیتا اور بوسہ دیتا، پھر کھانا کھانے لگتا۔۔۔اور۔۔۔یہ کیا ہے؟!!!
ایک حسینہ اپنے کپڑے اتار رہی ہے، میری نظروں نے اس کا پیچھا کیا یہاں تک کہ وہ کمرے سے غائب ہوگئی، شاید غسل خانہ میں چلی گئی تھی۔۔۔پھر آئی، شب بسری کا لباس زیب تن کیا اور بستر پر دراز ہوکر پڑھنے لگی۔۔۔کتاب کا ٹائٹل تھا: میرا اکلوتا پیار۔۔۔پھر لائٹ بجھ گئی۔۔۔!
اور۔۔۔
ایک بوڑھا آدمی تھا۔۔۔یونانی لگ رہا تھا۔۔۔زیتون کے تیل اور گوشت کے پارچہ سے تیار کردہ کھانا کھا رہا تھا، اس کے نزدیک اس کی بیوی بیٹھی ہوئی تھی، اسی کی طرح عمردراز تھی، کھا نہیں رہی تھی، لیکن اس کی زبان چل رہی تھی۔۔۔بہت بولتی ہے یہ عورت۔۔۔!
میں چار بجے صبح تک دوربین سے اپنی آنکھ لگائے کھڑا رہا۔۔۔جب تمام روشنیاں بجھ گئیں اور دیکھنے کو کچھ نہ رہا۔۔۔تو میں بھی سو گیا۔۔۔
شاید میں سویا نہیں تھا۔۔۔میں نے صرف اپنی آنکھیں بند کر لی تھیں تاکہ دیکھے ہوئے مناظر کو پھرسے دیکھ سکوں۔۔۔لوگوں کی نجی زندگی سے جڑے ہوئے مناظر باریک ترین تفاصیل کے ساتھ۔۔۔لوگ اپنی نجی زندگی میں نا، ایک عجیب و غریب اور دلچسپ مخلوق ہیں، گلیوں اور سڑکوں میں ملنے والے لوگوں سے بالکل مختلف۔۔۔!
میں نے سات بجے کراہتے ہوئے اپنی آنکھیں کھولیں اور دوڑتے بھاگتے بالکنی تک پہنچا اور پھر دوربین پر نگاہ جما دی۔۔۔لوگ اچھل کود رہے تھے، اپنے چہرے دھو رہے تھے، کچھ پژمردہ تھے تو کچھ ہشاش بشاش۔۔۔!
کیا جانتے ہو کہ سو میں سے ایک بھی ایسا شخص نہیں ملے گا جو ٹھیک اسی طرح بستر سے اترے جیسا کہ دوسرا اترتا ہے۔۔۔؟! کیا یہ بھی جانتے ہو کہ ایک بھی شوہر ایسا نہیں ہے جو صبح آنکھیں کھلنے پر اپنی بیوی کو بوسہ دیتا ہو۔۔۔؟! بلکہ سب سے پہلے وہ اپنا رخ اس کی جانب سے پھیرتا ہے۔۔۔! عجیب و دلچسپ زندگی ہے یہ لوگوں کی نجی زندگی بھی۔۔۔!! جب گھڑی کی سوئی آٹھ پر پہنچی تو میرے منہ سے ایک آہ نکلی۔۔۔آج کام پر پہنچنے میں تاخیر ہوگئی تھی۔۔۔اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ میں کام سے لیٹ ہو گیا تھا۔۔۔
میں نے جلدی سے کپڑا پہنا اور وزارۃ کی جانب چل دیا۔۔۔خلاف عادت ساتھیوں سے بات تک نہ کی۔۔۔میں اسی زندگی میں گردش کرتا رہا جسے میں نے دوربین سے دیکھا تھا۔۔۔بلکہ اپنے سامنے ڈھیر کی صورت میں پڑی فائلوں میں سے ایک بھی فائل پر توجہ مرکوز نہ کر سکا۔۔۔میرا دل کام سے اچاٹ ہوگیا تھا۔۔۔یہی انتظار کرتا رہا کہ کب گھر واپس جانے کا وقت ہو۔۔۔وقت ہوتے ہی گھر کی طرف مجنونانہ انداز میں دوڑا اور بھاگ کر دوربین پر آنکھ ٹکا دی۔۔۔
دن گزرتے گئے۔۔۔
میری پوری زندگی اسی تنگ لینس میں محصور ہو کر رہ گئی تھی جس کے سہارے میں لوگوں کی نجی زندگی میں جھانکتا تھا۔۔۔میں نے ان لوگوں کو اس طرح جان لیا تھا جس طرح انہیں کوئی اور نہیں جانتا تھا اور جس طرح وہ نہیں چاہتے تھے کہ کوئی انہیں جانے۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ ہی رہ رہا ہوں۔۔۔میں ان میں سے ہر ایک کے لوٹنے کا وقت جان گیا تھا، یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ کیا کھاتے ہیں اور ان کی الماری میں کتنے جوڑے یا سوٹ ہیں۔۔۔ہر ایک کے مزاج کو پہچان گیا تھا۔۔۔ہر ایک کی انفرادیت بھی مجھ پر منکشف ہوگئی تھی۔۔۔مجھے اس کا بھی علم ہوگیا تھا کہ۔۔۔
مجھے اس کا بھی علم ہو گیا تھا کہ۔۔۔۔آہ۔۔۔مجھے ان کے بارے میں جو معلوم ہے، وہ مجھے بھی پوری طرح ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔۔۔اگر ان لوگوں کو اس بات کا علم ہو جائے کہ میں ان کے بارے میں اتنا کچھ جانتا ہوں تو وہ مجھے جان سے مار ڈالنا چاہیں گے۔۔۔!
کبھی کبھی راستہ میں ان میں سے کسی کا سامنا ہو جاتا اور میں بے ساختہ ان سے مصافحہ کرنے کا ارادہ کرتا۔۔۔! مجھے لگتا کہ وہ میری زندگی کا حصہ ہے، میں اسے اس طرح دیکھتا ہوں جس طرح وہ خود کو نہیں دیکھ سکتا، بلکہ اس کی بیوی بھی اس کو اس طرح نہیں دیکھ سکتی۔۔۔کبھی کبھی کسی کو وقار و ہیبت کے ساتھ چلتا دیکھ کر بے ساختہ ہنسی چھوٹ جاتی۔۔۔جی بھر کر ہنستا۔۔۔یہ وہی ہے جسے میں نے کل اس کی بیوی کے پیروں پر پڑا دیکھا تھا۔۔۔کسی حسینہ کو ناز و نخرہ اور رعب و داب کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھ کر اپنی ہنسی روک نہیں پاتا۔۔۔یہ تو وہی ہے جس کو کل میں نے اس کے شوہر کے ساتھ دیکھا تھا، بے لگام و خونخوار جانور کی طرح تھا اس کا طرز ‘عمل’…!!!
دن گزرتے گئے۔۔۔!
میرے پاس دوربین کے سوا کچھ بھی نہ بچا۔۔۔نہ دوست، نہ رشتہ دار، نہ احساس، نہ مزاج۔۔۔ نہ یہ۔۔۔نہ وہ۔۔۔کچھ بھی نہیں۔۔۔ہر چیز اسی دور بین میں مقید ہوکر رہ گئی تھی۔۔۔!
پھر میں بیمار پڑگیا۔۔۔!
مجھے بستر سے اٹھ کر دوربین سے دیکھنے کی بھی تاب نہ رہی۔۔۔میرا وجود عذاب کی زد میں آ گیا۔۔۔مجھ پر ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگے، میری حالت منشیات کے عادی ایسے شخص کی طرح ہوگئی جس پر منشیات نہ ملنے کی وجہ سے ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں۔۔۔!
لیکن اگلے دن دورہ کی شدت میں کمی آگئی۔۔۔اس کی جگہ بیماری کے آلام نے لے لی۔۔۔! میں بیحد بیمار ہو چکا تھا۔۔۔میں اپنے کمرے میں تنہا تھا۔۔۔مجھے ایک بھولی بسری ہوئی چیز یاد آگئی۔۔۔مجھے یاد آیا کہ میں نے ابھی تک شادی نہیں کی۔۔۔ایک چیز اور یاد آئی، مجھے یاد آیا کہ میں بھولے بسرے ہوئے ملازمین کے زمرہ میں آ چکا ہوں۔۔۔مجھے بیس سے بھی زیادہ سالوں سے نہ تو کوئی ترقی ملی تھی اور نہ ہی تنخواہ میں کوئی اضافہ۔۔۔ہاں۔۔۔!
میں خود کو بھول چکا تھا۔۔۔!
میں اپنی خود کی زندگی بھول چکا تھا۔۔۔اور لوگوں کی زندگیوں کا پیچھا کرتے کرتے اپنی زندگی کا ستیاناس کر چکا تھا!
وجہ۔۔۔؟!
وجہ یہ دوربین ہے۔۔۔!
میرے اندر دوربین کے خلاف غیظ و غضب کا طوفان امڈ پڑا۔۔۔میں اس سے چھٹکارا حاصل کرکے ہی رہوں گا۔۔۔میں اسے توڑ کر ہی رہوں گا۔۔۔مجھے اپنی زندگی جینی ہوگی، دیگر لوگوں کی نہیں۔۔۔میں خود پر ضبط کرتے ہوئے اور درد و الم سے لڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔بالکنی کی جانب بڑھا۔۔۔دونوں ہاتھوں سے دوربین اٹھائی تاکہ اسے سڑک پر پھینک کر چکناچور کر دوں۔۔۔
لیکن۔۔۔
دوربین کو اس کی جگہ سے نکالنے سے پہلے میں نے اپنی آنکھ چھوٹے لینس پر ٹکا دی۔۔۔اور پھر اس کو وہاں سے ہٹا نہیں پایا۔۔۔۔!

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ اردو چینل

Magic Binocular A Short Story by Ihsan Quddous

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”جادوئی دوربین۔احسان عبدالقدوس/کہانی

Leave a Reply