• صفحہ اول
  • /
  • کتاب تبصرہ
  • /
  • وہ سب کچھ جو آپ کو ذیابیطس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے/تبصرہ : نعیم اشرف

وہ سب کچھ جو آپ کو ذیابیطس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے/تبصرہ : نعیم اشرف

مصنفہ : ڈاکٹر لبنیٰ مرزا
زندگی فطرت کا سب سے قیمتی عطیہ ہے اور صحت مند زندگی قدرت کا ایک ایک عظیم تحفہ۔
مگر جیسے جیسےسائنس اور ٹیکنالوجی ترقی کر رہی ہے، زندگی کی سہولتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔اور رہن سہن کے طریقے آسان سے آسان تر ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد ، تن آساں اور سہل پسند بنتی جا رہی ہے۔ اکثر لوگ پیدل چلنے، جسمانی کام کرنے اور باقاعدہ ورزش جیسی عادات اپنانے سے پہلو تہی کرتے ہیں ۔جس کا فطری نتیجہ بیماریوں کی یلغار ہے۔ میڈیکل سائنس کے ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ انسانی جسم کو مکمل طور پر صحت مند رہنے کے لیے حرکت اور کسی قدر مشقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جہاں ، سادہ و متوازن غذا، تازہ ہوا اور صاف پانی بھی ایک صحت مند زندگی کے لیے لازمی عناصر ہیں وہاں جسم کے اندر موسمی اثرات برداشت کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ بیماروں میں اضافے کے دیگر اسباب لوگوں کی دیہات سے شہروں کی طرف منتقلی ، غیر معیاری خوراک اور فربہ پن بھی ہیں۔

اوپر بیان کیے گئے اسباب کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں ذیابیطس ، بلند فشارِ خون اور امراضِ قلب صفِ اول میں آتی ہیں۔ اوّل الذکر دیگر دو بیماریوں کا ایک اہم سبب ہے اور دنیا کی دس مہلک ترین بیماروں میں چھٹا درجہ ذیابیطس کا ہے ۔

12 نومبر 2021 ء کو جب دنیا بھر میں یومِ ذیابیطس منایا جا رہا تھا تو انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن نے کچھ اعدادو شمار جاری کیے۔ جن کے مطابق دنیا بھر میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد (دو سال قبل) 53 کروڑ 70 لاکھ تھی۔یہ تعداد 2019ء کے اندازوں سے 7 کروڑ 40 لاکھ زیادہ تھی۔ گویا ذیابیطس میں مبتلا فراد کی تعداد میں اضافہ 26 فی صد سالانہ ہے۔

2021ء کے اعداد شمار کے مطابق ، پاکستان میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد 3 کروڑ 30 لاکھ تھی۔ 26 فی صد شرحِ اضافہ سے 2023ء میں یہ تعداد بڑھ کر 4 کروڑ 15 لاکھ سے اوپر ہو جائیگی۔ یعنی رواں سال میں ہر چار پاکستانی بالغ افرد میں سے ایک فرد ذیابیطس میں مبتلا ہوگا۔جو دنیا بھر کے ممالک کے مقابلے میں بلند ترین سطح ہے۔ اگرچہ پاکستان دنیا بھر میں ذیابیطس میں مبتلا افراد کی کثیر ترین سطح رکھنے کے اعتبار سے تیسرے نمبر پر ہے اورچین(14 کروڑ) اور ہندوستان ب(7 کروڑ 40 لاکھ )بالترتیب پہلے اور دوسرے نمبر پر ہیں ، قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ اس تعداد میں کمی کرنے کے لیے یا اس کے اسباب میں کمی کرنے کے لیے ہماری حکومتیں ، معاشرہ اور افراد سنجیدہ نہیں ہیں۔

2021ء میں ہی پاکستان میں 4 لاکھ افراد ذیابیطس کے باعث موت کے منہ میں چلے گئے ۔ پاکستان میں ذیابیطس کے دل دہلا دینے والے اعداد و شمار میں دو اور باتیں بھی قابلِ ذکر ہیں :
پاکستان میں 26.9 فی صد سے اوپر افراد ذیابیطس کا شکار تو ہیں مگر وہ اس کی تشخیص اور علاج سے محروم ہیں۔

پاکستان میں 1 کروڑ 70 لاکھ سے اوپر افراد ، امپئیرڈ گلوکوز ٹالرینس (IGT) یا نشاستہ برداشت نہ کرنے کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ جس کی وجہ سے ایسے افراد کسی وقت بھی ذیابیطس کی دوسری قسم( DIABETES TYPE 2) میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ جب کسی وجہ سے ذیابیطس کی تشخیص نہیں ہو پاتی یا مناسب علاج نہیں کروایا جاتا تو انسانی زندگی کو شدید خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ جن میں دل کا دورہ، فالج کا حملہ، گردوں کا فیل ہونا ، اندھا پن اور ذیلی اعضا ء( ٹانگ یا پاوں کا کٹنا) شامل ہیں ۔ایسا ہوجانے سے نہ صرف مریضوں کا معیارِ زندگی کم تر ہو جاتا ہے اور زندگی ایک بوجھ بن جاتی ہے بلکہ علاج پر اٹھنے والے اخراجات سے مالی مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔

بقائی میڈیکل یونیورسٹی کراچی میں تعینات بقائی انسٹی ٹیوٹ برائےڈیابی ٹالوجی اینڈ انڈو کرینالوجی کے پروفیسر عبدالباسط کے مطابق: ’’ پاکستان میں ذیابیطس میں مبتلا مریضوں کی دن بدن بڑھتی ہوئی تعداد ، افراد اور معاشرے کے لیے لمحہءفکریہ ہے۔‘‘

ڈاکٹر لبنیٰ کی تحریر کردہ کتاب :
وہ سب کچھ جو آپ کو ذیابیطس کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے۔
حال ہی میں نروان پبلیکیشن لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ کتاب میں ڈاکٹر صاحبہ نے آسان زبان میں ذیابیطس میں مبتلا ہو جانے کی وجوہات، علاج اور حفاظتی اقدامات سے متعلق مفصل آگاہی دی ہے۔ اس کتاب کا سرورق نامور آرٹسٹ سعید ابراہیم نے ڈیزائن کیا ہے ۔ طباعت کے لیے عمدہ کاغذ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ کوئی طویل یا ضخیم کتاب نہیں بلکہ 221 صفحات پر مشتمل مختصر اور دلکش سی کتاب ہے جس کو آسان بنانے کے لیے چھوٹے چھوٹے 28 ابواب میں تقسیم کر دیا گیا ہے ۔ تاکہ ذیابیطس کے ذیلی موضوعات الگ الگ پیرائے میں بیان کیے جا سکیں ۔

کتاب ذیابیطس کی تاریخ سے شروع ہوتی ہے ، جس میں بتایا گیا ہے کہ:
’’ ذیابیطس کوئی نئی بیماری نہیں ہے بلکہ دنیا میں صدیوں سے موجود ہے۔انڈیا اور چین کی ہزاروں سالہ پرانی کتابوں میں ذیابیطس کا تذکرہ ملتا ہے۔ ذیابیطس کا پرانا ترین کیس مصر میں ملتا ہے۔جس میں 1552 قبل مسیح میں مصری طبیب ’ہیسی را‘ کا لکھا ایک نوٹ ملا ہے ایک اس اس نے ایئک ایسے مریض کے لیے چھوڑا تھا ، جس میں مریض کو بار بار پیشاب آنے کا ذکر تھا۔ ڈاکٹر کو یہ تو معلوم نہ تھا کہ یہ کیا بیماری تھی مگر انھوں نے مریض کو ایک خاص خوراک کھانے کا مشورہ دیا جس میں پھل ، اناج اور شہد شامل تھے۔اس غذا سے مریض کو کچھ فائدہ تو ہوا مگر اس کی بیماری دور نہیں ہوئی۔ دیگر ڈاکٹروں نے اس مریض کو بئیر ، کھیرے کے پھول اور تالاب کا پانی استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔

’سسروتا ‘ جن کوہندوستان میں طب کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے ۔انھوں نے 600قبل مسیح میں ایک بیماری تشخیص کی جس کو بعد میں ذیابیطس کا نام دیا گیا۔اور ’سسروتا ‘ ہی وہ پہلے طبیب تھے جنھوں نےذیابیطس کی اقسام ، ذیابیطس ٹائپ ون اور ذیابیطس ٹائپ ٹو کا فرق پہچانا۔۔۔‘‘

نہایت آ سان زبان میں اور خاص ترتیب سے لکھے گئے 22 ابواب میں ذیابیطس کی علامات سے لے کر حفاظتی اقدامات تک کو سلیس اردو میں بیان کیا گیا ہے۔کتاب میں شامل اہم موضوعات میں :
٭ ذیابیطس کی تشخیص اور اس کا علاج۔
٭ ذیابیطس کی مانیٹرنگ ( نگرانی) ۔
٭ ذیابیطس کے مریض اور ورزش۔
٭ ذیابیطس میں استعمال کی جانے والی دوائیں۔
٭ ذیابیطس اور بلڈ پریشر۔
٭ ذیابیطس اور ہائی کولیسٹرول ۔
٭ذیابیطس اور ہمارے پاؤں۔
٭ ذیابیطس اور موٹاپا۔
٭موٹاپے اور ذیابیطس کی ماحول کیا قیمت ادا کر رہا ہے؟
٭ذیابیطس اور سگریٹ نوشی،۔
۔ ذیابیطس اور سوتے میں دم گھٹنے کی بیماری ۔
٭ذیابیطس اور ٹیسٹاٹرون کم ہو جانے کی بیماری۔
٭ذیابیطس کی دیکھ بھال میں کتوں کی مدد۔
٭حمل کے دوران ہو جانے والی ذیابیطس۔
٭ذیابیطس اور روزے
اور
ذیابیطس میں پیش آنے والی ہنگامی سرگرمیاں، جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔

مجھے امید ہے کہ پاکستان ، جنوبی ایشیا اور دنیا بھر میں موجود ذیابیطس سے متاثرہ افراد اس کتاب سے مستفید ہو کر اپنی زندگی کو صحت مند، پرسکون اور خوشگوار بنا سکیں گے۔یہ کتاب نروان پبلیکیشن لاہور سے شائع ہوئی ہے اور اس کے رُوحِ رواں سعید ابراہیم سے فیس بک پر رابطہ کر کے منگوائی جا سکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ڈاکٹر لبنیٰ مرزا 1972 ء میں سکھر میں پیدا ہوئیں ، ابتدائی تعلیم سکھر میں حاصل کی اور چانڈکہ میڈیکل کالج لاڑکانہ سے ڈاکٹر بن کر اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ چلی گئیں۔ امریکہ جا کر انھوں نے انٹرنل میڈیسن میں ریذیڈینسی کرنے کے بعد متعدد پیشہ وارانہ کورسز اور ڈپلومے حاصل کیے۔ بعد ازاں طب کی مسابقتی دنیا میں اپنے فن کی مہارت کی بلندی کو چھونے کے لیے انھوں نے اینڈکرینالوجی، ڈیابی ٹیز اور میٹابولزم میں سپیشلائزیشن کی۔ وہ عرصہ 25 سال سے انسانوں کے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے کے لیے کوشاں ہیں۔ وہ زمانہ حال میں امریکہ کی ریاست اوکلا ہومہ کے شہر نارمن کے ریجنل ہسپتال میں انٹرنل میڈیسن کی سربراہ ہیں۔ ڈاکٹر مرزا طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ادیب بھی ہیں ۔ ان کے پیشہ وارانہ اور سماجی مسائل پر مشتمل سینکڑوں مضامین معاصر ویبسائٹ کی  زینت بن چکے ہیں۔
سماجی فلاح و بہبود اور انسانی خدمت کی اس اہم کاوش پر میں ڈاکٹر لبنیٰ مرزا کو مُبارک باد پیش کرتا ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply