نیل کے سات رنگ -قسط17/انجینئر ظفر اقبال وٹو

بلیو نیل پر سورج کی پہلی کرنیں پڑ رہی تھیں۔ یہ ابھی ابھی ایتھوپیا سے ہوکر سوڈان پہنچا تھا اور میں رات بھر کی تھکاوٹ کو پس پشت ڈال کر یہ منظر اپنے اندر کشید کرنے دریا کنارے پہنچا ہوا تھا۔ دریا میں کچھ مچھیرے ایک کشتی پر مچھلیاں پکڑ رہے تھے جب کہ دوسرے کنارے پر گھنے درختوں کا جنگل تھا۔
ہم رات کافی دیر سے سینار شہر پہنچے تھے جو کہ ریاست سینار کا دارلحکومت بھی تھا۔اس وقت رات کا اندھیرا تھا اور مقامی حکومت کےمیزبان ہمیں ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس میں چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ تاہم میرے لئے بلیو نیل پر طلوع ہوتے سورج کو دیکھنے کا یہ شائد واحد موقع تھا اس لئے میں صبح تڑکے ہی الارم پر اٹھ بیٹھا اور اب دریا کنارے اپنے دوست سے محو گفتگو تھا جسے میں اکثر سندھ کنارے چشمہ جھیل کے پانیوں میں دیکھتا تھا۔
جب سورج اوپر اٹھ آیا اور اس کی چمک بہت تیز ہوئی تو میں نے ریسٹ ہاؤس واپسی کی راہ لی۔ ریسٹ ہاؤس سے پہلے اس وسیع وعریض احاطے میں ایک اور دو منزلہ وکٹورئین اسٹائل گھر نظر آرہا تھا جس پر بالکل سفید رنگ کیا گیا تھا۔ اس کی چاردیواری نہیں تھی۔ اس کے سامنے ایک شوفر گاڑی لے کر کھڑا تھا جس میں ایک جوڑا اسکول یونیفارم میں ملبوس ایک بچی کو بٹھا رہا تفا۔ میرے قریب پہنچنے پر مرد نے مجھے سلام کیا اور میں جوابی سلام کرکے روانہ ہوا چاہتا تھا کہ اس نے مجھے ناشتے کی دعوت تھی۔ میں نے شکریہ کے ساتھ معذرت کرلی۔ اس دوران شوفر بولا “مسٹر گورنر۔ کیا میں جاسکتا ہوں؟” اور اجازت ملتے ہی اس نے گاڑی آگے بڑھا دی اور گورنر صاحب اپنی ملکہ کے ہمراہ گھر کے اندر تشریف لے گئے۔
“ہم گورنر ہاوس کے ریسٹ ہاوس میں ٹھہرے ہوئے ہیں” واپسی پر میں شاہ جی کو بتا رہا جوکہ میری بات کو شائد مذاق سمجھ رہے تھے۔ہمارے میزبانوں نے ہمیں صبح ایک مقامی طور پر مشہور جگہ سے ناشتہ کروانا تھا اور اس کے بعد خرطوم واپسی تھی۔ سینار کا علاقہ زراعت اور پھلوں کے لئے بہت مشہور تھا اور یہاں کی پھل منڈی سے پورے سوڈان اور ایتھوپیا کے سرحدی علاقوں کو پھل جاتے تھے۔ امرود اور آم تو یہاں کے خاص پھل تھے۔ گنا ، گندم اور کپاس بھی بہت کاشت ہوتےتھے۔ ہم یہاں ایک تعمیر شدہ ڈیم کی بحالی کے منصوبے کے لئے ابتدائی وزٹ پر آئے تھے۔
بہت ہی پرانے اور گھنے برگد کے درخت تلے ایک لحیم وشحیم سوڈانی عورت نے ناشتے کا ٹھیئہ بنایا ہوا تھا جس کا مقامی گندم کی ڈبل روٹی (لمبوتری خبز) کے ساتھ زیتون، چیز اور فُول (جنگلی لوبیا) کے ساتھ ناشتہ پورے علاقے میں مشہور تھا۔ ہم درخت تلے کھلے میدان میں ایک بینچ پر بیٹھے ناشتہ شروع ہی کرنے والے تھے کہ درخت سے بندروں نے اتر اتر کر خبز اٹھانا شروع کردیا ۔ موٹی عورت ادھر بیٹھے ہی بیٹھے بہت زور سے غرائی اور ڈنڈہ لے کر بندروں کو مارنے لگی۔ آدی آنکھ مچولی میں عزت سادات بچاتے میں نے اور شاہ جی نے ناشتہ مکمل کیا جب کہ ہمارے میزبان زمین پر محفل جمائے ہوئے تھے۔
ناشتے کے بعد سوڈانی دوست پھل منڈی میں گھس گئے جب کہ میں اور شاہ جی سوق کی طرف جا لپکے کیوں کہ منڈی کے آم اور امرودوں نے ہمیں بہت مایوس کیا تھا۔ بالکل کچے کچے سبز رنگ کے آم۔ دودن کے تھکا دینے والے سفر کے بعد چونکہ آج واپسی کا سفر تھا تو ہم دونوں ریلیکس تھے اور ہم نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی لیکن کنٹراسٹ کے ساتھ۔ میرے کپڑوں کا رنگ سفید تھا جب کہ شدہ جی نے کاکا جوڑا پہنا ہوا تھا۔
مقامی دوستوں کی شاپنگ ختم ہوئی تو واپسی کے لئے گاڑیوں میں بیٹھے اور روانگی پکڑ لی ۔ گاڑیاں وہاں سے چلیں اور شہر میں دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ایک بہت بڑے سرکاری احاطے میں داخل ہو گئیں جہاں پر پرانی طرز کی عمارتوں کے بہت سے آفس بلاک بنے ہوئے تھے۔ شاہ جی بڑبڑائے “ہمیشہ کی طرح سوڈانی دوست ہمیں پھر سرپرائز دینے کے موڈ میں ہیں”۔ سوڈانی بھائی آپس میں عربی میں جو بات چیت کرتے رہتے تھے تو وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں بھی سمجھ آرہی ہے اور اکثر ہمیں بہت برا پھنسا دیتے تھے اور آج شائد پھر ایسا ہونے جا رہا تھا۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply