لڑکی خراب ہے،آنکھ مارو/ہارون وزیر

مجید (فرضی نام ) کی شیخوپورہ کے ایک ذیلی شہر میں، ہمارے بالکل ساتھ میں، سریے، گاڈر ٹی آر اور دروازے وغیرہ کی دکان تھی۔ چھت کا سامان خریدنے والے اکثر لوگ کچھ پیسے ادھار بھی کر جاتے تھے جو بعد میں بتائے گئے وقت پر دکاندار لینے جایا کرتے تھے۔ اسی طرح کے بقایاجات واپس لینے کیلئے ایک دن مجید نے مجھے ساتھ چلنے کو کہا۔
اس نے بتایا کہ یار تجھے میں اپنے ساتھ اس لئے لے جا رہا ہوں کہ وہاں پر ایک لڑکی ہے میں جب بھی وہاں جاتا ہوں تو وہ مسلسل مسکرا مسکرا کر میری طرف دیکھتی ہے۔ میرے خیال میں لڑکی ٹھیک نہیں ہے لیکن میری ہمت نہیں پڑتی کہ اشارہ کروں۔ اشارہ کر تو لوں لیکن مجھے خود پہ بھروسہ نہیں۔ تو ساتھ جائے گا تو تیرے ساتھ ہنڈرڈ پرسینٹ سیٹ ہو جائے گی۔ اب ہم ٹین ایج تھے اس وقت صحیح اور غلط کا اندازہ نہیں تھا،سو کہہ دیا کہ ٹھیک ہے۔

ہم عصر سے تھوڑا پہلے اس گاؤں پہنچے۔ گاؤں اور علاقے کا نام اس لئے نہیں لکھ رہا کہ فرینڈ لسٹ میں موجودچند دوست جان جائیں گے جو کہ میری نظر میں مناسب نہیں۔
تو جس بندے سے ادھار کے پیسے مجید نے لینے تھے ہم اس کے ڈیرے پر بیٹھے تھے۔ وہ حقہ گڑگڑا رہا تھا اور ہم چائے پی رہے تھے۔

اتنے میں ایک فرلانگ کے فاصلے سے وہ لڑکی (فرضی نام آسیہ) آتی دکھائی دی۔ آسیہ کی کی عمر اندازاً پچیس کے قریب تھی۔ حقے والا بندہ آسیہ کا شوہر تھا جس کی عمر پچاس سے زیادہ تھی۔آسیہ خراماں خراماں چلتی ہوئی حقے والے بندے کے پیچھے جا کر کھڑی ہو گئی۔ ہم سے سلام دعا کی۔ مجید نے اس کا حال چال پوچھا۔ اس نے میرے بارے میں پوچھا کہ یہ کون ہے مجید نے میرا تعارف کروایا۔ مجید چونکہ یہاں پہلے بھی کئی بار آ چکا تھا۔ اس لئے آسیہ اسے جانتی تھی۔

میں چائے پی رہا ہوں اور بے صبرا مجید مجھے کہنی مار رہا ہے کہتا ہے آنکھ مار ۔ آنکھ مار۔۔۔ میں اسے کہتا کہ یار سامنے بندہ بیٹھا ہے اور ہماری طرف دیکھ بھی رہا ہے میں کیسے اس کے سامنے لڑکی کو آنکھ ماروں۔ مرواؤگے کیا؟ مجید کہتا کچھ نہیں ہوتا تو بس آنکھ مار۔
اچھا، مجید کی یہ آبزرویشن بالکل ٹھیک تھی کہ لڑکی مسکرا مسکرا کر دیکھتی ہے۔ وہ جب سے حقے والے بندے کے پیچھے آ کر کھڑی ہوئی تھی تب سے ہمیں مسکرا کر تکے ہی جا رہی تھی۔
یہ آنکھ مارو والی باتیں ہم پشتو میں کر رہے تھے۔ ہمیں پشتو میں باتیں کرتا دیکھ کر حقے والے بندے نے مجید سے کہا۔ مجید خان! آسیہ سے پشتو میں بات کرو۔
مجید نے پوچھا ، کیا۔۔؟
ہاں ہاں پشتو میں بات کرو اس سے ۔ یہ تمہاری پٹھانی ہے۔ حقے والے چچا نے اپنے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے کہا۔
یہ بریکنگ نیوز ہمارےسروں پر فرہاد کے تیشے سے بھی زیادہ زور سے لگی۔ مجید خان اتنا حواس باختہ ہوا کہ مجھے ڈر لگا کہ مجھے ادھر ہی چھوڑ کر کہیں بھاگ نہ جائے۔ مجید خاں مشکل حالات میں ہکلانے بھی لگ جایا کرتا تھا۔
مجید نے اس منحوس انکشاف کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ نہیں  نہیں میں نہیں مانتا۔
حقے والے نے پیچھے مڑ کر آسیہ سے کہا کہ پشتو میں بات کرکے دکھاؤ۔
آسیہ نے ماتھے پہ بل ڈالتے ہوئے مجید سے کہا۔
تا دے ھلک تہ سہ اوئیل؟ تم نے اس لڑکے سے کیا کہا؟
آسیہ کو خالص پشتو میں بات کرتے دیکھ کر تو مجید بالکل ہی وار خطا ہو گیا۔
اس نے کہا ما خو سہ نہ دی وئیلی۔ میں نے تو کچھ نہیں کہا۔
آسیہ نے کہا۔
دروغ مہ وایا۔ تا ورتہ ویل چے سترگہ ورتہ اووھہ۔ جینئی دو نمبر دا۔۔۔جھوٹ مت بولو۔ تم اسے کہہ رہے تھے کہ آنکھ مارو لڑکی دو نمبر ہے۔

یقین کرو، اس وقت جو شرمندگی مجھے اٹھانی پڑی۔ اور مجید کا ذلت کے احساس اور خوف کے مارے جو حال تھا وہ نا قابل بیان ہے۔
آسیہ شاید مزید بھی مجید خان کی درگت بناتی لیکن حقے والا چچا بیچ میں کود پڑا۔ چچا ہم پہ ہوئی بمباری سے لاعلم فاتحانہ انداز میں کہنے لگا ۔ کیوں مجید خاں میں نے کہا نہیں تھا کہ آسیہ تمہاری پٹھانی ہے۔

جوان آسیہ کے پی سے بیاہ کر لائی گئی تھی۔ حقے والا بوڑھا شخص اس کا شوہر تھا۔ میرا دوست جو اسی گاؤں کا رہنے والا تھا اس نے چند ماہ بعد مجھے بتایا کہ آسیہ کی ایک اور بہن بھی اسی گاؤں بیاہ کر لائی گئی تھی۔ دونوں بہنیں ایک رات گھر میں موجود سارا سونا اور نقدی لے کر رفوچکر ہوگئیں۔

یہ فقط ایک کہانی تھی جس میں پشتونخوا کے کسی علاقے کی کوئی لڑکی پنجاب میں اپنے سے کسی دوگنی عمر کے بندے سے بیاہی گئی تھی۔ یہ دونوں بہنیں فراڈ تھیں۔ لیکن اس طرح کی دیگر سینکڑوں یا شاید ہزاروں جینوئن کہانیاں اور بھی ہیں جس میں کے پی کی کوئی معصوم لڑکی پنجاب میں کسی ادھیڑ عمر شخص کو بیاہ دی جاتی ہے۔ کیا وہ لڑکی کوئی ڈھور ڈنگر ہے جسے جس مرضی کھونٹے سے باندھ دیا جائے؟

میں interracial marriages کے خلاف نہیں ہوں۔ میں نسل پرستی پر بھی یقین نہیں رکھتا۔ اگر دو ایسے خاندانوں کے بیچ رشتہ ہوتا ہے جن کی سوچ قدرے مشترک ہو۔ جن کے رہن سہن میں زیادہ فرق نہ ہو  تو بہت اچھی بات ہے لیکن ایک ایسی لڑکی جو گھر کی چار دیواری سے باہر نہ نکلی ہو۔ جو اپنے ہونے والے جیون ساتھی کی زبان سے نا آشنا ہو۔ ان کے رسوم و روایات سے قطعی ناواقف ہو تو سوچیں ایسی لڑکی کیسے خود کو وہاں ایڈجسٹ کر پائے گی؟ وہ پل پل اذیت میں نہیں جیے گی؟ یہ ظلم ہے۔ یہ اس بچی کی زندگی کے  ساتھ بھیانک مذاق ہے۔

اس عمل میں سارے پشتونخوا کے لوگ ملوث نہیں ہیں۔ یہ شمالی کے پی کے فقط ایک شہر کے ایک مخصوص علاقے میں ہوتا ہے۔ میں اس علاقے کا نام لے کر شہر کے سارے لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن ہو رہا ہے اور عین ہماری آنکھوں کے نیچے ہو رہا ہے۔

مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ جو لوگ یہ کر رہے ہیں وہ پشتونوں کے بیچ رہ تو رہے ہیں ان کو پشتو بھی آتی ہے لیکن وہ پشتون نہیں ہونگے۔ کیونکہ پشتون میں ہزار برائیاں ہونگی  لیکن ایسی گھٹیا حرکت کبھی نہیں کرے گا۔ جو پشتون اپنی بہن بیٹی کو حتی الوسع کسی دوسرے پشتون قبیلے تک میں نہیں بیاہتا وہ اپنی بہن بیٹی کو اتنی دور بالکل ایک انجان معاشرے  میں کس طرح بیاہ سکتا ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ ہمارے ہاں جس بندے کی کسی دوسرے پشتون قبیلے کی عورت سے شادی ہو جاتی ہے اس کے بچوں کو تاحیات اس کی ماں کے قبیلے کے حوالے سے پکارا جاتا ہے۔ اس بچے کی اچھی بُری خصلتوں کو اس کی ماں کی  قوم کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے۔ جیسا کہ دا خٹکے زوئی، دا مروتے زوئی، دا وزیرے زوئی وغیرہ وغیرہ۔ پشتونوں میں ایسی باتوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ پنجاب کے شہروں  میں کے پی سے جو بچیاں پیسوں کی خاطر بیاہی جاتی ہیں وہ پشتو تو بولتی ہیں لیکن پشتون نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہاں بڑے شہروں میں جہاں مختلف صوبوں، قومیتوں اور زبان کے لوگ اُسی شہر کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ جن کا رہن سہن، کلچر ، زبان اور رسوم و روایات اس شہر کے طور طریقوں میں مدغم ہو جاتے ہیں وہاں پر interracial marriages بالکل ایک الگ بات ہے۔
لیکن معذرت کے ساتھ یہ جو انسانی خرید و فروخت کا کاروبار شروع ہوا ہے یہ باعثِ  شرم اور قابلِ  مذمت ہے۔ اس کی روک تھام اور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply