پاکستان میں ڈکیتی, چوری کے نت نئے طریقے۔۔۔۔غیور شاہ

دنیا بھر میں اور خصوصاً پاکستان میں حالیہ کچھ  برسوں  میں ہونے والے جرائم کی نوعیت کا تجزیہ کیا جائے تو سرفہرست ڈکیتی اور چوری ہے – گلی, محلوں اور سوسائٹیوں میں رہنے والوں نے اگر ڈکیتی اور چوری سے تدارک کے لئیے سیکورٹی گارڈز, بیرئیرز حفاظتی تالوں, سیکورٹی کیمروں سمیت دیگر احتیاطی تدابیر کا استعمال شروع کیا ہے تو شاطر مجرم بھی اب نت نئے طریقوں اور بڑی منصوبہ سازی کے ساتھ ان جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ چوری, ڈکیتی میں بھی فراڈ, دھوکہ کی طرح نت نئے سائنٹفک طریقے اختیار کئے جا رہے ہیں مجرموں کے گروہ در گروہ آئے دن پکڑے جاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کی تعداد  میں اضافہ ہی ہوتا جاتا ہے۔

ان چوریوں, ڈکیتیوں کے نت نئے طریقہ وارداتوں میں سے کچھ آپ کی خدمت میں پیش ہیں تاکہ خدانخواستہ آپ اگر ان جیسی ملتی جلتی صورتحال کا شکار ہوں تو مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کر سکیں:-

1):-  اے ٹی ایم مشینوں کو گیس کٹر ویلڈنگ سے کاٹنے کی بات سن کر آپ ششدر رہ جائیں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ ایسے گروہ اب ہمارے یہاں موجود ہیں جو نسبتا” ویران جگہوں پر نصب اے ٹی ایم مشینوں کو گیس کٹر ویلڈنگ سے کاٹ کر لاکھوں روپے لوٹ لیتے ہیں – اس واردات میں ڈاکو ایک بڑی وین استعمال کرتے ہیں جس پر عموما” بنک سیکورٹی کے مونوگرام پرنٹ ہوتے ہیں – یہ وین بنک اے ٹی ایم مشین کے سامنے دروازہ پر لگائی جاتی ہے جبکہ وین کا پچھلا دروازہ کھلتے ہی اس سے انتہائی تربیت یافتہ دو ویلڈرز نیچے اتر کر اے ٹی ایم مشین کاٹنا شروع کر دیتے ہیں جس میں انہیں زیادہ سے زیادہ 4 سے 5 منٹ ہی لگتے ہیں جبکہ ان کے 4 سے 5 ساتھی باہر سڑک پر سیکورٹی یا پولیس کی وردی میں آتشیں اسلحہ سے مسلح ہوکر لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ اے ٹی ایم مشین پر کام ہو رہا ہے – ایسی ہی ایک واردات میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ڈاکوؤں نے واردات کرنے سے پہلے اے ٹی ایم مشین کی طرف آنے والے پولیس اسٹیشن کے راستہ میں رکاوٹیں کھڑی کرکے پولیس کے پہنچنے میں بھی وقتی رکاوٹیں پیدا کیں اور ساتھ ہی اے ٹی ایم مشین کے کیمرے اور سیکورٹی الارم بھی خراب کر دئیے گئے تھے – ریسرچ بتاتی ہے کہ یہ واردات زیادہ تر ان ہی اے ٹی ایم مشینوں پر ہوتی ہے جو نسبتا” ویران جگہوں پر ہو, جہاں پولیس کے پہنچنے میں رکاوٹ کھڑی ہو سکتی ہو اور ویک اینڈ یا تہواروں کی وجہ سے اس میں کیش معمول سے کہیں زیادہ ہو – اس واردات کو کرنے کے لئیے ڈاکو صبح صادق سے پہلے کا وقت منتخب کرنا پسند کرتے ہیں – اور جب یہ واردات کرتے ہیں تو ایک کی بجائے دو, تین اے ٹی ایم مشینوں پر یہ کاروائی کی جاتی ہے تاکہ زیادہ کیش حاصل کیا جا سکے

2):-  کراچی میں ڈکیتی کے نت نئے طریقے میں ڈاکوؤں نے ایک نہ دو بلکہ پورے 12 ڈاکوؤں کی بڑی ٹیم بنا کر ملیر کے ایک نجی اسپتال میں لوٹ مار کرکے با آسانی فرار ہوگئے – اس طرح کی واردات میں بھی پولیس اور سیکورٹی اداروں کی یونیفارم پہن کر ڈاکو بڑے آرام سے اپنے جائے واردات میں داخل ہوتے ہیں اور اسلحہ کی دہشت سے واردات کر کے با آسانی فرار ہو جاتے ہیں –

3):-  فیس بُک پر لڑکا لڑکی بن کر پڑھے لِکھے نوجوانوں کو ورغلا کر اکیلی جگہوں پر بلایا جاتا ہے اور وہاں ڈاکو ملاقات کے لئیے آنے والے شکار کو ساری قیمتی اشیاء سے بھی محروم کر دیتے ہیں اور بعض اوقات اغواء برائے تاوان بھی سرانجام دے دیتے ہیں اور شکار نوجوان کے ورثاء سے لاکھوں, کروڑوں کا تاوان وصول کرتے ہیں – کچھ عرصہ پہلے کراچی ڈیفینس میں ایسی ہی کچھ وارداتیں رپورٹ ہو چکی ہیں – ان وارداتوں میں پڑھی, لکھی لڑکیوں سمیت اچھے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ڈاکو شامل ہوتے ہیں کیونکہ فیس بک وغیرہ پر اچھی انگریزی میں چیٹنگ کرنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے

4):-  لاہور پولیس نے گلبرگ لاہور میں سرقہ کی ایک واردات میں گھر کے اندر لگے کچھ سیکورٹی کیمرے دریافت کیے جن کے بارے میں اس گھر کے مکین بالکل لاعلم تھے – جب ان سیکورٹی کیمروں پر مزید تفتیش کی گئی تو پتہ چلا کہ یہ کیمرے وائی فائی کے ذریعہ ڈاکوؤں کے موبائل فونز سے منسلک تھے اور وہ اہل خانہ کی جاسوسی کرکے مناسب وقت کا انتظار کرکے یہ واردات سرانجام دے گئے تھے – مزید تفتیش میں پتہ چلا کہ گھر کی کچھ عرصہ پہلے ڈیکوریشن کروائی گئی تھی جس دوران یہ کیمرے پھولوں کے گلدستوں, ٹائم کلاک, ائیر کنڈیشنرز کی درزوں میں اس طرح نصب کر دئیے گئے کہ اہل خانہ ان سے بالکل لاعلم رہے – خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صرف پیسہ اور دیگر قیمتی اشیاء کی معلومات لینے کے ساتھ ساتھ اہل خانہ کے انتہائی پرائیویٹ لمحوں کی ریکارڈنگ بھی اس  طریقہ سے کی جانی ممکن تھی –

5):-  بلیو ایریا اسلام آباد میں ہونے والی ایک واردات میں کچھ ڈاکو دفتر کے ڈنر اوقات میں اس بلڈنگ کی سیکورٹی جیسی یونیفارم پہن کر اندر گھس آئے اور تمام ملازمین کو ان کی قیمتی اشیاء, موبائل فونز, لیپ ٹاپ, نقدی اور دفتر میں موجود لاکھوں روپے کی سیلز کولیکشن لے کر رفوچکر ہو گئے – یہ دفتر رات گئے تک کھلا رہتا ہے اور ایک معروف فوڈ چین کا ہیڈ آفس ہے جہاں اسلام آباد کی مختلف برانچز کی پورے دن کی سیلز کولیکشن جمع کروائی جاتی ہے – اس طرح کی وارداتوں میں دفتر کا کوئی فرد ڈاکوؤں کے ساتھ ملا ہوتا ہے جو ڈاکوؤں کو سیکورٹی یونیفارمز لینے کے طریقہ کار سے لے کر دفتر میں داخل ہونے تک کی ساری معلومات اور کیش کی تفضیلات سے ڈاکوؤں کو آگاہی فراہم کرتا یے

6):-  ڈیفنس لاہور میں ایک امیر گھرانے کی خاتون خانہ جب ایک اے ٹی ایم سے پیسے نکال کر باہر نکلیں تو ایک نوجوان, ماڈرن لڑکی نے انہیں کہا کہ اس نے ان خاتون کا 5 ہزار کا نوٹ نیچے گرتے ہوئے دیکھا تھا – خاتون نے جب کہا کہ نہیں ایسا نہیں ہے تو لڑکی نے تجویز دی کہ وہ اے ٹی ایم مشین پر جا کے اپنا بیلنس چیک کریں – جب خاتون نے بیلنس چیک کرنے کے لئیے اے ٹی ایم کارڈ مشین میں داخل کیا اور اپنا خفیہ کوڈ ملایا تو اس لڑکی نے وہ کوڈ نمبر یاد کر لیا – بیلنس چیک کرنے کے بعد جب خاتون نے اپنی ٹرانزیکشن ختم کرنے کا بٹن دبایا تو اس لڑکی نے اشارہ کیا کہ مشین کے دائیں طرف نیچے کی طرف دیکھیں جہاں انہیں 5 ہزار کا نوٹ نظر آیا – وہ خاتون جیسے ہی 5 ہزار کا نوٹ اٹھانے کے لئیے جھکیں اس لڑکی نے بڑی پھرتی سے اے ٹی ایم مشین کی سلاٹ میں واپس آنے والے ان کے اے ٹی ایم کارڈ کو اپنے پاس موجود ویسے ہی کارڈ سے تبدیل کر دیا – خاتون وہ جعلی اے ٹی ایم کارڈ کو اپنا سمجھ کر اور 5 ہزار ملنے کی خوشی میں فورا” وہاں سے نکل گئیں جبکہ اس نوسرباز ڈاکو لڑکی نے اس کے فورا” بعد ان کی ایک دن کی جتنی بھی حد باقی تھی والی رقم سے محروم کر دیا

7):- راولپنڈی – لاہور یا لاہور – ملتان کے درمیان چلنے والی ریل کار کے ائیر کنڈیشنر پارلر کاروں میں اچانک آپ کے سامنے ٹیبل ٹرے کھلتی ہے اور وہاں ایک عدد چکن بروسٹ, اور ایک عدد سینڈوچ پر مشتمل کھانے کی ٹرے بمعہ ٹماٹو کیچ اپ ساشے پیل سج جاتی ہے – مخصوص ریلوے طرز کی یونیفارم پہنے یہ ٹرے سجانے والا آپ کی طرف دیکھے بغیر دوسرے مسافر کی ٹیبل ٹرے کھولنے میں مگن ہو جاتا ہے – نئے مسافر یہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ ریلوے کی طرف سے اعزازی کھانا ہے جو آپ کو ان کے ائیر کنڈیشننگ پارلر میں مہیا کیا جا رہا ہے اور آپ یہ انتہائی بدمزہ کھانا طوعا” و کرہا” نوش فرما لیتے ہیں – ابھی آپ اس بدمزہ کھانے کی “لذت” سے صحیح لطف اندوز بھی نہیں ہو رہے ہوتے کہ یک دم پیسے وصول کرنے کے لئیے وہی یونیفارم ملازمین آ موجود ہوتے ہیں اور نارمل ریٹ سے تین گنا پیسے وصول کرکے یہ جا وہ جا ہو جاتے ہیں – اگر ٹیبل ٹرے کھولتے وقت اور کھانے کی ٹرے سجتے وقت آپ اعتراض کر دیں کہ نہیں آپ یہ کھانا نہیں چاہتے تو یہ ملازمین آپ کو اتنی خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہیں کہ جیسا کہہ رہے ہوں کہ جب اوقات نہیں ہے تو ائیر کنڈیشنر پارلر کار میں بیٹھے کیوں ہو اور آپ شرمندہ ہو کر وہ تین گنا مہنگا کھانا لینے اور زیر مار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں

8):-  اسلام آباد کے نئے بےنظیر انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر ایک مسافر تین سال بعد بیرون ملک سے واپس آتا ہے – وہ اپنے ساتھ قیمتی تحائف اور کافی نقد ڈالرز بھی لایا ہے – اس نے اپنے گھر والوں کو سرپرائز دینے کے لئیے انہیں اپنے آنے کی اطلاع بھی نہیں دی – ائیر پورٹ پر جب وہ کسٹمز سے فارغ ہو کر باہر نکلتا ہے تو وقت آدھی رات سے زیادہ کا ہو چکا ہوتا یے – وہ مسافر جب ایک پرائیویٹ ٹیکسی والے سے اسلام آباد کے مضافات میں نسبتا” ویران جگہ پر واقع کوٹلی ستیاں, لہتراڑ روڈ پر جانے کے لئیے گفت و شنید کر رہا ہوتا ہے تو وہ اس بات سے بالکل لاعلم ہے کہ تین ڈاکو اس کی نگرانی کر رہے ہیں اور اپنے دوسرے ساتھیوں کو فون پر “نیا تگڑا بکرا” ملنے کی خوش خبری بھی سنا چکے ہیں – مسافر اپنے گھروالوں سے لمبے عرصہ بعد ملنے کی خوشی میں سرشار خیالوں میں گم ٹیکسی پر محو سفر ہے کہ یکایک ٹھلیاں انٹرچینج سے پہلے ویرانے میں دو گاڑیاں اس کی ٹیکسی کا راستہ روک لیتی ہیں اور تین مسلح ڈاکو اس سے اتر کر اس کی ٹیکسی میں سوار ہوتے ہیں – ان میں سے ایک ڈاکو اگلی مسافر سیٹ پر بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا ڈاکو مسافر کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھتا یے – تیسرا ڈاکو اسلحہ کے زور پر ڈرائیور کو اتار کر اسے اپنی گاڑی کی پچھلی سیٹ میں بٹھا دیتا ہے جہاں پہلے ہی اس کے مسلح ساتھی موجود ہوتے ہیں – ٹیکسی سمیت ساری گاڑیوں کا رخ اب تبدیل ہو جاتا ہے اور وہ کالے چٹے پہاڑ کی طرف سفر شروع کر دیتی ہیں – ایک ویران جگہ تینوں گاڑیاں رک جاتی ہیں – ان تینوں گاڑیوں میں 8 ڈاکو اس مسافر اور ٹیکسی ڈرائیور کو باہر نکالتے ہیں اور ان کی خوب ٹھکائی کرتے ہیں – سارے پیسے, ڈالرز, قیمتی اشیاء, موبائل فونز لے جاتے ہیں اور ان دونوں لٹنے والوں کو درخت سے باندھ جاتے ہیں – ساری رات یہ دونوں جنگلی جانوروں کے خوف سے بری طرح ہراساں رہ کر اپنے زخموں سے ٹیسیں برداشت کرتے رہتے ہیں اور بالآخر صبح ہوتی ہے تو گاؤں کے لوگ انہیں آزاد کرواتے ہیں

9):- جہلم میں ایک فیملی کی کینیڈا امیگریشن ہو جاتی ہے اور وہ جانے سے پہلے اپنی نئی خریدی کار بیچنے کے لئیے اشتہار دیتے ہیں – ایک دن ایک معقول حلیہ میں ایک پڑھا لکھا شخص اپنی ساتھی خاتون کے ہمراہ ان کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کار دیکھنے کی خواہش کرتا ہے – اہل خانہ اسے کار دکھا دیتے ہیں جو وہ بہت پسند کرتا ہے – قیمت پر گفت و شنید ہوتی ہے اور کچھ بحث   کے بعد ان کے درمیان سودا طے پا جاتا ہے – وہ خاتون اپنے پرس سے انہیں 50 یزار روپے ایڈوانس ادا کرتی ہے اور باقی پیسوں کی ادائیگی کے لئیے کچھ مہلت کی درخواست کرتے ہیں – کینیڈا جانے کے حسین تصورات میں گم اہل خانہ انہیں بتا دیتے ہیں کہ وہ کس دن کینیڈا جا رہے ہیں اور نیز یہ بھی واضح کر دیتے ہیں کہ انہیں کار کی باقی رقم کی ادائیگی ان کی روانگی سے تین دن پہلے کر دی جائے تاکہ وہ ان کو ڈالرز میں تبدیل کروا سکیں – یہ سن کر کار خریدنے والے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ ایک مشہور منی ایکسچینج میں بطور مینیجر کام کرتے ہیں – چونکہ فیملی کینیڈا جا رہی ہوتی ہے تو انہیں ڈالرز کی ضرورت ہوتی ہے اس لئیے وہ خریدار باتوں ہی باتوں میں انہیں بہت ہی مناسب ترین ریٹس پر روپوں کے بدلے ڈالرز تبدیل کر کے دینے کی آفر کرتا ہے – بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ ڈالرز بدلنے کے لئیے انہیں ایکسچینج آنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی – وہ صرف بتا دیں کہ انہیں کتنی رقم تبدیل کروانی ہے تو وہ منی ایکسچینج کی سیکورٹی میں ڈالرز انہیں بھیج دے گا اور اس کے بدلہ میں روپے لے جائے گا – اہل خانہ یہ تجویز سن کر بہت خوش ہوتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ گاڑی کے ساتھ ساتھ گھر کی فروخت کی کل رقم بھی ڈالرز میں تبدیل کروانی ہے – جس پر وہ رضا مندی ظاہر کر دیتا ہے – دونوں کے بیچ طے یہ پاتا ہے کہ ان کی کینیڈا روانگی والے دن دفتری اوقات کے دوران یہ خریدار گھر, گاڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی کل رقم کے عوض ڈالرز لے کر گھر آ جائیں گے اور ان کے بدلہ پاکستانی روپے اور گاڑی کی فائل و فروخت معاہدہ/ ٹرانسفر ڈیڈ کا اشٹام سائن کروا کے لے جائیں گے اور اہل خانہ اسی دن کی رات والی فلائیٹ سے اپنے خوابوں کی منزل کینڈا چلے جائیں گے – مگر اس دن جب ان کی روانگی تھی ان کے لئیے ڈالرز تو نہیں آئے مگر منی ایکسچینج کے مونوگرام والی گاڑی میں مسلح ڈاکو ضرور پہنچ گئے جو ان سے ساری رقم اور ان کی نئی گاڑی لے کر رفوچکر ہو گئے – ڈاکوؤں کی دیدہ دلیری دیکھیں کہ جاتے ہوئے مالک سے نئی گاڑی کے اوپن ٹرانسفر لیٹر پر دستخط بھی کروا لئیے اور گاڑی کے تمام کاغذات اور اس کی مکمل فائل لے کر چلتے بنے – کچھ دنوں بعد یہ گاڑی شیخوپورہ میں فروخت بھی ہو گئی اور گاڑی خریدنے والے سے یہ گاڑی اب جہلم سٹی تھانہ میں لے کر کھڑی کر دی گئی ہے – اس طریقہ واردات میں ڈاکوؤں کی کمال ہوشیاری یہ ہے کہ ان میں سے کسی کا سراغ نہیں لگ سکا جبکہ کروڑوں روپے سے محروم ہونے والی کینیڈا امیگریشن فیملی اور گاڑی خریدنے والا دونوں ہی انہیں شکار کرنے والوں کے بارے کچھ نہیں جانتے

10):- بڑے شہروں کے میگا شاپنگ مالز میں ایک اور طرح کی واردات سامنے آ رہی ہے – اس میں ڈاکوؤں کا ایک بڑا گروپ مال میں گھس جاتا ہے اور خصوصا” جیولری شاپس سے خریداری کرنے والوں کو ٹاڑتا رہتا ہے – جو خریدار زیادہ شاپنگ کرکے باہر نکلتا ہے یہ گروپ اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور جہاں موقع ملتا ہے ان کی قیمتی اشیاء کے بیگ ویسے ہی ملتے جلتے بیگوں سے تبدیل کر دیتے ہیں – اس مقصد کے لئیے یہ کندھا مار کر خریدار کو نیچے گرانے, دھکا دے کر گرانے یا کوئی کیمیکل یا تیل وغیرہ گرا کر پھسلوانے کے بعد واردات سرانجام دیتے ہیں – اس طریقہ واردات میں خریدار کو گرانے والے لوگ کوئی اور جبکہ ان کے بیگ بدلنے والے دوسرے لوگ اور ان بدلے جانے والے بیگوں کو شاپنگ مال سے باہر نکالنے والے تیسرے لوگ ملوث ہوتے ہیں – جبکہ ان کے کچھ ساتھی باہر گاڑی میں تیار بیٹھے ہوتے ہیں کہ جیسے ہی واردات کامیاب ہو تو یہ وہاں سے نکل جائیں – بالفرض اگر واردات کامیاب نہ بھی ہو تو یہ اتنی تعداد میں ہوتے ہیں کہ متاثرہ شخص کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ دراصل ہوا کیا ہے اور کس نے کیا ہے –

11):- فیصل آباد کے ایک پوش علاقہ میں ایک عجیب طرح کی واردات ایسے ہوئی کہ ڈاکو گھر والوں کے باہر جانے کا انتظار کرتے رہے جبکہ ان کا نوجوان بیٹا گھر پر ہی تھا کیونکہ اسے اپنے امتحان کی تیاری کرنی تھی – جب گھر والوں کو گئے ایک گھنٹہ سے زیادہ ہو گیا تو ڈاکو کسی بہانے سے گھر گھس آئے اور نوجوان کی بات اپنے موبائل فون سے کسی سے یہ کہہ کر کروائی کہ وہ گھر کے مالک ہیں اور ان سے ایک ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے جس میں ایک بندہ شدید زخمی ہے اور ایک مر چکا ہے – وہ گھر کا مصنوعی مالک اس نوجوان سے کہتا ہے کہ گھر کے سیف میں موجود جتنے بھی پیسے ہیں وہ لے کر ان بھلے مانس لوگوں کے ہمراہ فوراً  ایک نجی ہسپتال پہنچے – وہ گبھرایا نوجوان مہمانوں کو بٹھا کر سیف کھولنے جاتا ہے اور جونہی سیف کھولتا ہے اس کے پیچھے یہ مہمان اسلحہ سمیت کھڑے ہوتے ہیں اور سیف سے سارا زیور اور ساری نقدی لے کر نوجوان کو باندھ کر رفو چکر ہو جاتے ہیں – اس طرح کی واردات میں ڈاکوؤں کا گھر موجود نوجوان سے گھر کے مالک جیسی آواز اور لہجہ اپنانے کی تکنیک بہت ہی حیران کن ہے

12):- کراچی کی ایک خاتون نے اپنے لٹنے کی ایک عجیب داستان سنائی – یہ خاتون ڈولمن مال سے کافی شاپنگ کرکے باہر آنے لگیں تو مال کے مرکزی دروازے سے پہلے ایک ادھیڑ عمر جوڑے نے ان سے درخواست کی کہ وہ اسے کریم یا اوبر کی ڈیفینس خیابان اتحاد کے لئیے بکنگ کروا دے کیونکہ ان کے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی ہے – خاتون نے ازراہ ہمدردی ان کے لئیے بکنگ کروانی شروع کی تو انہیں یہ پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ کب ہپنا ٹائز ہو گئیں اور کیسے انہوں نے اپنی ساری شاپنگ, گاڑی کی چابی, گاڑی کا نمبر اور پارکنگ کی جگہ, نقدی, کریڈٹ کارڈ, اس کا کوڈ وغیرہ سب بتا دیا اور خود 10 منٹ کی غنودگی میں چل گئیں – جب وہ ہوش میں واپس آئیں تو اپنے موبائل فون, گاڑی سمیت سب قیمتی اشیاء اور ہزاروں روپے کی نقدی اور لاکھوں کی جیولری سے محروم ہو چکی تھیں – ہپناٹزم کے استعمال کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے بلکہ 2016ء میں کراچی میں ہی کئی ایک خواتین ہپنا ٹائز ہو کر گھر آنے والی خواتین ڈاکوؤں سے لٹ چکی ہیں – ہپناٹائز ہو کر لٹنے والوں کو یہ بھی یاد نہیں رہتا کہ وہ کیسے ہپناٹائز ہوتے ہیں یا کسی ان کی نظر بندی ہوتی ہے اور وہ بخوشی و رضا اپنی قیمتی اشیاء سے لٹ جاتے ہیں

13):- اسلام آباد سے مری جاتے ہوئے ایک کار سوار نوجوان کو سڑک پر ایک خاتون نظر آتی ہے – اچھا شہری ہونے کے ناطہ یہ اپنی گاڑی روکتا ہے اور اس عورت کی طرف جاتا ہے مگر اچانک اس کے اردگرد مسلح لوگ نمودار ہوتے ہیں اور اس سے نقدی, موبائل فون اور گاڑی چھین کر فرار ہو جاتے ہیں جبکہ اس سڑک پر لیٹی خاتون کا بھی کوئی نام و نشان نہیں ملتا

14):-  سڑک پر جاتے ہوئے آپ کی گاڑی کی ونڈ سکرین پر انڈوں کی بارش ہوتی ہے – آپ رکتے نہیں – اچھا کرتے ہیں – مگر ایک غلطی یہ کر بیٹھتے ہیں کہ ونڈ سکرین وائپر اور پانی کا شاور چلا کر سکرین صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں – پانی اور انڈے کی سفیدی مل کر گاڑھی جھاگ بنا دیتے ہیں اور ونڈ سکرین سے نظر آنا بالکل بند ہو جاتا ہے – مجبورا” آپ گاڑی روکتے ہیں اور ونڈ سکرین صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اس دوران ڈاکو پہنچ جاتے ہیں اور ساری قیمتی اشیاء لوٹ کر رفوچکر ہو جاتے ہیں –

15):-  لاہور ڈی ایچ اے پٹرول پمپ پر ایک آدمی آتا ہے اور ایک عورت کو جو اپنی گاڑی میں پٹرول ڈلوا رہی ہوتی ہے اسے انٹیرئیر ڈیکوریٹر کے طور پر اپنی خدمات پیش کرتا ہے۔ وہ خاتون انکار کر دیتی ہے لیکن تکلفانہ اس کا وزیٹنگ کارڈ لے لیتی ہے ۔ وہ خاتون پھر اپنی گاڑی سٹارٹ کر کے وہاں سے روانہ ہوتی ہے – تب ہی اچانک وہ دیکھتی ہے کہ وہ آدمی بھی اسی وقت وہاں سے روانہ ہوتا ہے ۔ کچھ منٹ کے بعد اس خاتون کو چکر آنے لگتے ہیں اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے ۔ وہ گاڑی کی کھڑکی کھولتی ہے اور محسوس کرتی ہے کہ خوشبو اس کے ہاتھ سے آ رہی ہے ۔ اسی ہاتھ سے جس سے اس نے وہ وزیٹنگ کارڈ پکڑا تھا ۔ وہ پھر نوٹس کرتی ہے کہ اس آدمی کی گاڑی اس کے پیچھے ہے۔ اس خاتون کو محسوس ہوتا ہے کہ کچھ کرنا چاہئے – وہ راستے میں آنے والے پہلے پٹرول پمپ پر رک جاتی ہے اور مدد مانگنے کے لئے مسلسل ہارن بجانا شروع کر دیتی ہے – وہ آدمی جب یہ دیکھتا ہے تو بھاگ جاتا ہے لیکن اس خاتون کو اگلے کئی منٹوں تک سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ کافی دیر بعد اس کا سانس بحال ہوتا ہے – بظاہر وزیٹنگ کارڈ پر ایک دوائی لگی تھی جو سانس لینے کے ساتھ ہمارے جسم میں داخل ہو جاتی ہے۔ اس دوائی کا نام burundaga ہے۔ اور یہ جرائم پیشہ افراد اپنے ٹارگٹ کو قابو میں کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ یہ سیمپل وزیٹنگ کارڈ پر ٹرانسفر ہو کر پکڑنے والے کے ہاتھ سے اس کے سانس کے ساتھ جسم میں داخل ہو کر سانس لینا مشکل کردیتی ہے – لہذا جب آپ گھر, دفتر پر اکیلے ہوں یا گاڑی چلا رہے ہیں اور اکیلے گلی میں ہیں تو کسی سے بھی وزیٹنگ کارڈ نہ پکڑیں

Advertisements
julia rana solicitors

ڈکیتیوں, چوریوں کے یہ نت نئے طریقے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ أپ بہت احتیاط کریں اور اپنے گھر والوں کو, بچوں کو اور دیگر اہل خانہ کو خاص ہدایت کریں کہ ایسی کسی بھی صورتحال کا شکار ہونے سے خود کو بچا کر رکھیں – پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر زیادہ انحصار مت کیا کریں کیونکہ ان کی بڑی تعداد تو عوام کی بجائے سیاستدانوں کو پروٹوکول دینے اور ان کی سیکورٹی کی ذمہ داریوں پر معمور ہیں – جو چند ایک باقی ہیں وہ تھانوں میں آنے والوں سے دیہاڑیاں لگانے, سڑکوں پر کھڑے ہو کر موٹر سائیکلوں والوں, چھوٹی گاڑیوں والوں اور رکشہ, ٹیکسی ڈرائیوروں کے چالان کرنے یا انہیں ہراساں کرکے پیسے کمائیں یا نت نئے طریقوں سے وارداتیں کرنے والے ڈاکوؤں کی سرکوبی کریں –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply