میری کرسمس اور رحمت للعالین ﷺ/محمد وقاص رشید

ہر سال کی طرح اس سال بھی ہماری عظیم قوم نے اپنا ریکارڈ خراب نہیں کیا اور سوشل میڈیا پر ایک پُر مغز (مغز کو پُر کرنے والی) بحث جاری رہی کہ مسیحی برادری کو انکے تہوار کی مبارکباد دینی چاہیے یا نہیں اور یہ کہ اگر انکے تہوار کی مبارکباد دی گئی تو ایمان جاتا رہے گا اور آدمی مشرک ہو جائے گا۔

آج تلک اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ نیت کے سورج کے گرد اپنے اپنے مدار میں گھومتے اعمال کے سیاروں کے نظامِ شمسی کا یہ دین جو “اعمال کا دارومدار نیات” پر قرار دیتا ہے اس میں جب ایمان بغیر عزم ارادے یعنی نیت کے آتا نہیں، تو چلا کیسے خود بخود جاتا ہے۔

طالبعلم کی عاجزانہ نگاہ میں ایمان کا آنا اور جانا قطعی طور پر شعوری ،ارادی اور سوچی سمجھی چیزیں ہیں، یہ غیر ارادی ،حادثاتی اور لا شعوری نہیں۔

دوسری بات یہ کہ آج تک اس بات کی بھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ دائرہِ اسلام کیا ہے۔ مختلف مسالک اور مکتبہ ہائے فکر کے زیرِ اثر آخر اسلام کے دائرے ہیں کتنے؟ یہاں جس کا جب جی چاہے جس کو چاہے اس دائرے سے خارج کر دیتا ہے۔ داخل صرف وہ رہتے ہیں جو ان دائروں کے کڑے بنوا کر اپنے سروں پر پہنے رہتے ہیں۔

رب العالمین کا رحمت للعالمینﷺ ص پر مکمل کیا گیا سلامتی کا دین ایک عظیم آفاقی مذہب ہے۔ کاش کہ معاشی مفادات کے لیے اپنی عصبیتیں قائم کرنے والے کند ذہن ، متعصب ، تنگ نظر اور سنگدل لوگ (اکثریت میں) اسکی تفہیم و تشہیر پر مامور نہ ہوتے تو آج اس طرح کی کج بحثیوں کا کوئی وجود ہی نہ ہوتا۔

اس کے ماننے والوں کو یہ علم ہوتا کہ مختلف مذاہب کے لوگ ایک جگہ بستے ہیں تو ان میں بین الامزاہب ہم آہنگی ، خیر سگالی اور بھائی چارہ ایک ایسی قدر ہے جس سے سماج کی بنت ہوتی ہے اور حیرت ہے کہ جس مذہب کے نام کا مطلب ہی سلامتی ہے وہ کیسے اسکا مخالف ہو سکتا ہے۔

مذہب ہے کیا ؟ انسانیت کی تمام اقدار کی خداوند کا حکم سمجھ کر پیروی کرنا۔ انسانیت کیا ہے ؟ طالبعلم کی نگاہ میں انسانیت انسان کا بے ضرر ہونا ہے۔ تو اس تناظر میں اسلام انسانیت کا سب سے بڑا پیامبر ہے جسکے مطابق مسلمان ہے ہی وہ جسکے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرے محفوظ رہیں۔

حضرت عیسیٰ  ع اللہ کے جلیل القدر نبی ہیں اور اللہ کے آخری نبی محمد رسول اللہ ﷺ  سے پہلے تمام انبیاء پر ایمان ہمارے دین کا حصہ ہے۔ ہم پاکستان میں اکثریت میں ہیں۔ یہاں ایک اقلیت بستی ہے جو کہ حضرت عیسیٰ ع کو خدا کا آخری نبی ، روح القدس ، خدا کا بیٹا یا خود خدا کہتے ہیں۔ ہم مسلمان یقینی طور پر اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ 25دسمبر کا دن اس تناظر میں اکثریت کے لیے ایک نبی ع کی پیدائش کا دن ہے جبکہ اقلیت کے لیے یہ انکا تہوار ہے۔ انکی خوشی کا دن ہے۔ ہم ان سے فکری اختلاف رکھتے ہوئے وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں انکی خوشی میں مبارکباد دیں گے تو یہ شرک کیونکر ہو گا ،بلکہ میرا ماننا تو یہ ہے کہ سلامتی امن بھائی چارے محبت اور خیر سگالی کے دین کی یہ نیک نامی کا باعث ہے جسکو ہماری روایتی طرزِ فکر کا خمیازہ اپنے بارے میں غلط فہمیوں کی صورت برداشت کرنا پڑتا ہے۔

اسے ایک اور تناظر میں بھی دیکھا جانا چاہیے کہ جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں (اور اکثریت میں ہونا چاہتے ہیں ) وہاں ہم اکثریتی قوموں مثلاً ہندو ، عیسائی ، یہودی وغیرہ سے کیا توقع کرتے ہیں کہ وہ ہمارے تہواروں پر کیسا رویہ رکھیں۔ ؟ یاد رکھیے اگر آپ اپنی عصبیتوں کو درست گردانتے ہیں تو اسی اصول پر ان ممالک میں انکے تعصبانہ طرزِ عمل پر اعتراض کیوں ؟

اجی، دور کیوں جائیے صاحب ؟ خود اپنے ہاں دیکھیے کہ وحدانیت کے دین میں معاشی بقا کی خاطر قائم فرقوں میں ہم ایک دوسرے سے فکری اختلاف کے باوجود مختلف رسموں رواجوں اور تہواروں میں اسی بنیاد پر ہم آہنگی کا مظاہرہ نہیں کرتے ؟ نہ کرنے کا انجام ہم 90 کی دہائی میں دیکھ چکے کہ 10 محرم کو دونوں طرف جنابِ حسین رض کے ماننے والے مگر ایک دوسرے کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے والوں کو ان دائروں کی لکیریں خون سے لگانے سے روکنے کے لیے کرفیو لگانے پڑتے تھے۔

قربان جائیے کیا شان ہے کیا عظمت ہے کیا ذہن و دل کی  کشادگی ہے کیا وسعتِ قلبی ہے واقعی رحمت للعالمین ﷺ  ہونے کا حق ادا کرتی پیغمبرانہ رفعت ہے کہ جو لوگ مسجد میں نماز نہیں پڑھنے دیتے تھے گیارہ برس کی جلا وطنی دینے والوں کو واپسی پر بحیثیت فاتح یقین دلاتے ہیں کہ اگر اسلامی ریاست میں اپنے مذہب پر بھی رہنا چاہو تو رہ سکتے ہو، تمہاری عبادت گاہوں کی حفاظت یہ ریاست کرے گی ۔

سوال یہ ہے کہ کیا ریاست نہیں جانتی تھی کہ ان عبادت گاہوں میں شرک ہوتا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ جانتی تھی لیکن منبر پر موجود شخصیت کی رحمت کے دائرے میں عالمین سما جاتے تھے۔ یہاں سے خارج کوئی نہیں ہوتا تھا، کاش کہ ہم 25 دسمبر کو صرف اس” رحمت للعالمین”کے دو الفاظ ہی پر غور کر سکیں۔۔
درودوسلام آقاﷺ

Advertisements
julia rana solicitors

پسِ تحریر ! یہ تحریر میں نے 25 دسمبر کو مسیحی بھائیوں کو “میری کرسمس” کہنے کے بعد شروع کی، دیر سے مکمل ہونے کی وجہ شاید ایمان کی واپسی کا انتظار ہی ہو جو مجھے ایک دوست نے ان باکس میں بتایا تھا کہ “بھائی تو تو گیو”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply