مزاح اور تنقید

اچانک آنکھ کھلی دیوار پرلگی گھڑی پر نظر پڑی تو رات کے 2 بج رہے تھے ۔آنکھ کچھ اس طریقے سے کھلی کہ دوبارہ نیند نے آغوش میں لیا ہی نہیں ۔ خیال آیا کیوں نہ مکالمے کے لیئے کچھ لکھا جائے وقت اچھا کٹ جائے گا ۔اب کمپیوٹر کا سوئچ آن کیا ہی تھا کہ بیگم کے کھنکھارنے کی آواز آئی ۔میں سمجھا بیگم بھی جاگ گئی ہے ۔میں ایک دم بیڈ پر دوبارہ نیم دراز ہوگیا۔ اور نیم واہ آنکھوں سے بیگم کو دیکھنے لگا ۔پتہ لگا بیغم سورہی ہیں ۔میرا مطلب ہے بیگم سو رہی ہیں ۔وجہ یہ نہیں تھی کہ ہم بیگم سے ڈر رہے تھے ۔وجہ یہ تھی کہ محترمہ کو شکا یت ہے کہ ہم جب بھی لکھتے ہیں ۔بیگم پر لکھتے ہیں ۔اور وہ بھی برائیاں۔میں انھیں سمجھاتا ہوں کہ دنیا میں جتنا بھی مزاح لکھا جاتا ہے وہ زیادہ تر ہوتا ہی بیگمات پر ہے ۔لیکن وہ اپنی بیگم نہیں ہوتی وہ دوسری کی بیگم ہوتی ہے جسے بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ شائد جان گئی ہیں کہ جو بھی لکھا جاتا ہے وہ بالکل ہوبہو ایسا ہی لکھا ہوتا ہے جیسے میرا رویہ ہوتا ہے۔بہر حال جب مطمئن ہوگئے کہ محترمہ محو استراحت ہے تو اٹھے اور جوڑا خود کو مکالمے سے اور لگے لکھنے کہ آخر مکالمے کے لیئے ایسا کیا پیش کیا جائے کہ تمام پڑھنے والے دم بخود ہوجائے ۔اور تنقید کرنے والوں کا بھی تانتا نہ ٹوٹے اور سلسلہ یونہی دراز ہوتا چلاجائے محبوبہ کی زلفوں کی طرح ۔اور بیگم کی بیجاء فرمائشوں کی طرح ۔لیکن پھر خواہش کو خواہش ہی رہنے دیا ۔اور لگے ڈھونڈنے موضوع کہ کیا لکھا جائے ۔پہلے تو خیال آیا کہ عامر لیاقت پر لکھا جائے ۔لیکن پھر سوچنے لگا لیاقت ہی نہیں تو لکھوں کیا ،پھر اچانک جاوید چودھری یاد آگئے ۔جن کا اپنا ایک مخصوص طریقہ ہے لکھنے کا ۔بہت ہی خوب صورت انداز اپناتے ہیں لکھنے میں ،سوچا ان ہی کی نقالی کرتے ہیں ۔لکھنے میں ۔لیکن پھر خیال آیا کہ بری بات ہے۔کہیں کسی چاھنے والے قاری کی دلآزاری نہ ہوجائے ۔اور لٹھ لے کر پیچھے ہی نہ پڑ جائے۔ویسے ہی تنقید سے بڑا ڈر لگتا ہے اس لیئے تو بہت کم لکھتے ہیں ۔اور لکھتے بھی ایسا ہیں کہ کہیں سے کوئی آواز نہیں اٹھتی۔ویسے ہمارا لکھنا اور لوگوں کی تنقید کرنا ایک ہی زمرے میں آتا ہے ۔میں تنقید سے گھبراتا ہوں ۔اور میرا لکھا ہوا تنقیدی انداز میں ہوتا ہے ۔خود میں جرۤات نہیں آئینہ دیکھنے کی ۔اور دوسروں کوآئینہ دکھانے چلے ہیں ۔ویسے اس بات کا معترف ہونا پڑے گا کہ ہم نے مکالمے سے بہت کچھ سیکھا۔خاص کر میں اپنی بات ضرور کرونگا ۔جہاں اس تیز رفتاری کی دوڑ میں بہت ساری چیزوں سے دور ہٹتے چلے گئے ۔وہیں ہم کتابوں سے بھی دور ہوتے چلے گئے ۔اور پڑھنے پرھانے کے وہ سلسلے بھی ہم کہیں دور چھوڑآئے۔لیکن مکالمے سے جڑنے کے بعد وہ تمام چیزیں دوبارہ لوٹ آئی ہیں ۔جسے ہم کہیں چھوڑآئے تھے۔مکالمے کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہیکہ یہ سب کو موقع دیتا ہے ۔کہ آؤ اور طبع آزمائی کرو ۔اور تمام ساتھی اپنی مہارت کا بہت خوبصورت استعمال کرتے ہیں ۔اور مکالمہ انھیں جگہ بھی دیتا ہے ۔میں نے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز یہیں سے کیا اور مجھے کافی کچھ سیکھنے کو ملا ۔یہ ایک اچھی ریت ڈالی ہے مکالمے نے ۔اسے اگر صدقہ جاریہ کہا جائے تو بیجاء نہ ہوگا ۔کیونکہ کچھ ساتھی اس سے فیض حاصل کرتے ہیں ۔ویسے مکالمہ کافی زود ہضم ہے آپ جتنا بھی پیٹ بھر کر لکھ لو ۔تنقید آپ کی تمام ہوا خارج کردیتی ہے ۔ویسے یہ نقاد بڑے ظالم ہوتے ہیں ۔ یہ کسی کی دلجوئی نہیں کرتے جھوٹے سے بھی ۔یہ آپ کے اچھے لکھے ہوئے پر بھی وہ نشتر برساتے ہیں ۔کہ آپ کا لکھنے سے دل ہی اچاٹ ہوجاتا ہے ۔لیکن میں نے پہلے عرض کیا کہ مکالمہ کافی زودہضم ہے ۔جلد ہی سب ہضم ہوجاتا ہے دوسرے دن انگلیاں اور دماغ پھر انگڑائیاں لیتا ہے ۔اور آپ پھر ایک لمبی کتھا دیوار پر تھوپ دیتے ہو۔نقاد اور لکھاری کا یہ سلسلہ سدا یونہی چلتا رہے گا۔اور دونوں ایک دوسرے کا منہ چڑاتے رہیں گے۔مکالمے کی اس کاوش کو ہم سراہتے ہیں ۔کہ اس نے ہم جیسے اٹھائی گیروں کو بھی اپنے مکالمے میں جگہ دی ورنہ ہمارے لیئے تو ہماری ڈائری میں بھی جگہ نہیں تھی ۔یہ ہم ممنون ہیں ۔مکالمہ ٹیم کے جنھوں نے ہمیں یہ عزت بخشی ۔دعا ہے کہ مکالمہ اور ترقی کرے ۔ اور ہمارا مکالمہ کے ساتھ یونہی سلسلہ جڑا رہے۔آمین
عبدالرؤف خٹک

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply