• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مائیں بیٹوں کو مستقبل میں مردانہ کمزوری سے کیسے بچا سکتی ہیں؟۔۔گُل ساج

مائیں بیٹوں کو مستقبل میں مردانہ کمزوری سے کیسے بچا سکتی ہیں؟۔۔گُل ساج

سلیم خان کے بیٹے علیم خان کی عمر تقریباً 12 سال ہے ۔

علیم خان کو بعض اوقات پیٹ میں درد کی شکایت ہوتی تھی، کئی بار تو یہ درد بےحد شدید ہوتا۔
ڈاکٹرز کو چیک کرایا تو انہوں نے گردوں پہ ورم بتایا اور آگمینٹن وغیرہ کا کورس ریکمنڈ کیا ۔

یہ میڈیسنز لینے کے کچھ عرصہ تو بچے کو تکلیف نہ ہوئی مگر چھ ماہ بعد پیٹ میں شدید درد اٹھا ۔
پس تفصیلی چیک اپ کرایا گیا متعدد ٹیسٹ ،الٹراساونڈ وغیرہ ہوئے۔
مقامی ڈاکٹر نے ایک گردے میں انفیکشن اور نالیوں میں کچرا بتادیا۔۔(گردے میں کچرے کی ٹرم ناقابلِ فہم تھی)

سلیم خان کے لئے یہ صورتحال تشویشناک تھی چار و ناچار وہ بیٹے کو قریبی بڑے شہر ملتان چیک اپ کے لیے  لے گیا۔

چلڈرن کمپلیکس ملتان میں سلیم خان کا پڑوسی ایم ایس تعینات تھا ۔سلیم سیدھا چلڈرن کمپلیکس پہنچا ۔
چیک اپ ہوا پھر سے چند ٹیسٹ اور یونیک الٹرا ساؤنڈ کرایا گیا۔
بقول ڈاکٹر کے گردے وغیرہ سب نارمل تھے۔
دوست ڈاکٹر نے کہا بچے کو کوئی پرابلم نہیں
بچہ والدین سے کوئی فرمائش پوری کرانا چاہتا ہے اور اسی سبب درد کا بہانہ کرتا ہے۔مگر سلیم جانتا تھا کہ اسکے بچے کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں ۔۔اسکا بیٹا سلجھے ہوئے ذہن کا حساس بچہ ہے۔
بہرحال وہ ملتان سے مطمئن شاداں و فرحاں واپس آیا۔

ایک ماہ بعد پھر بچے کو شدید تکلیف ہوئی ۔اس بار سلیم خان نے یورالوجسٹ کو چیک کرانے کا سوچا ۔
یورالوجسٹ نے بچے کے پیٹ سے کپڑا اٹھا کے پیٹ کو دبا کے دیکھا پھر بچے کو شلوار نیچے کر کے مثانے کی جگہ اور عضو تناسل کے نیچے ٹٹول کے چیک کیا۔۔
ڈاکٹر چونک گیا اور گھمبیر لہجے میں سلیم سے مخاطب ہوا۔
“آپکے بچے کے ٹیسٹیز تھیلی میں نہیں ہیں ”
آپ بچے کا ناف سے نیچے تک دوبارہ الٹراساونڈ کرائیے
الٹرا ساؤنڈ میں ٹیسٹیز وجائنل کینال میں پائے گئے۔

سلیم بہت حیران پریشان ہوا اس نے کبھی اس طرف غور ہی نہیں کیا تھا ۔
علیم خان کی پیدائش کے وقت کوئی ایسا مسئلہ محسوس نہیں ہوا تھا ۔
ڈاکٹر نے مزید سینئرز سے کنسلٹ کیا انہوں نے دوبارہ بچے کا تفصیلی معائنہ کیا اور اس بات پہ متفق ہوئے کہ بچے کے ٹیسٹیز یا تو وجائنل کینال میں ہیں یا پھر ضائع ہو گئے ہیں ۔
کچھ میڈیسن دے کر تین دن بعد چیک کرانے کا کہا۔

معائنے کے بعد سلیم خان کو بتایا کہ وہی پوزیشن ہے یہ کہ ایک ٹیسٹیز کے بچنے کا امکان ہے آپ فورًا آپریشن کے لیے ذہن بنا لیجئے ۔
“اس صورتحال میں جب بچے کے ٹیسٹیز ایک یا دونوں نیچے تھیلی میں اترے ہوئے نہ ہوں تو تین ماہ بعد آپریشن کرا لینا چاہیے زیادہ دیر خطرناک ہو سکتی ہے “۔

پھر انہوں نے سلیم خان کو تفصیل سے بریفنگ دی کہ ٹیسٹیز کے لیے تھیلی میں قدرت نے موسموں کی شدت سے بچاو کے لیے سازگار ٹمپریچر رکھا ہوتا ہے جس میں ٹیسٹیز محفوظ طریقے سے نشو ونما پاتے ہیں یہ تھیلیوں میں نہ اتریں تو ضائع ہو جاتے ہیں کیونکہ یہ حساس ترین آبجیکٹ ہے درجہ حرارت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے انکی افزائش رک جاتی ہے اور یہ ختم ہوجاتے ہیں اور اگر زیادہ عرصہ تھیلی سے باہر اوپر کسی کینال میں رہیں اور ضائع نہ ہوں تو کینسر کا خطرہ ہوتا ہے۔

یہ کہہ کر تو ڈاکٹرز نے سلیم خان کے پاؤں تلے سے زمین ہی کھینچ لی کہ
“ٹیسٹیز کی اس ابنارمیلٹی کی وجہ سے قوتِ مردمی بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ ان میں ٹیسٹو سٹیرون ہارمون پروڈیوس ہوتے ہیں جو مردانہ صلاحیت کا منبع ہیں “۔

سلیم خان نہایت پریشانی کے عالم میں گھر آیا اسکی آنکھوں سے نیند روٹھ گئی تھی اس کا کلیجہ جیسے پھٹ سا گیا تھا۔نوجوان ہوتے علیم خان کا چہرہ اسکے سامنے آتا تو اسکی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا جاتا یہ سوچ کر کہ کیا میرا خاموش طبع ذہین اور حساس بیٹا تمام عمر کے لئیے مردانہ معذوری کا شکار ہوجائے گا۔؟

اگلے دن سلیم خان نے مختلف ڈاکٹرز سے مشورہ کیا اور ملتان سٹی ہاسپٹل میں پروفیسر سرجن عمر فاروق سے اپائنٹمنٹ لے لی۔

ڈاکٹر عمر فاروق کی شخصیت پہ اُنکے نام کا بےحد اثر تھا وہ سنجیدہ و متین بردبار شخصیت کے مالک تھے۔انہوں نے بچے کا معائنہ کیا اور جانے معجزہ ہوا کہ تمام رات سلیم خان کی بے چینی و آہ و زاری اللہ کو پسند آگئی ۔۔
ڈاکٹر عمر فاروق نے سلیم خان کو قریب بلایا اور کہا۔
“دیکھیے آپ کا بیٹا ٹھیک ہے ۔۔یہ بالز چیک کریں”
سلیم خان نے تشکر آمیز حیرانی سے دیکھا کہ تھیلیوں میں بالز محسوس ہورہی تھیں ۔
سلیم خان نے تجسس بھرے انداز میں ڈاکٹر عمر سے پوچھا ۔۔
“یہ کیسے ۔۔؟ میں نے خود دیکھا تھا یہ بالز کہیں نہیں تھی تھیلی خالی تھی بالکل ۔”

ڈاکٹر عمر فاروق کے ہونٹوں پہ مہربان سی مسکراہٹ ابھری ۔انہوں نے سلیم خان کو بیٹھنے کا اشارہ کیا اور رسان سے گویا ہوئے ۔۔

“دراصل بچوں کے فوطے پیدائش سے پہلے ہی پیٹ کے اندر بن جاتے ہیں اور سکروٹم یعنی تھیلیوں میں منتقل ہوجاتے ہیں بعض کیسسز میں ایسا نہیں ہوتا خصئیے پیٹ میں موجود نالی میں ہی رہ جاتے ہیں جو سکروٹم کی طرف آتی ہے یہ ایسی حالت ہے جس میں “خصیے ” پیٹ سے نیچے ‘سکروٹم’ (تھیلی) میں نہیں اترتے اگر یہ صورتحال مستقل ہو تو ایسی بیماری کو
“undescended testicle ”
کہا جاتا ہے ۔

عموماً خصیے پیدائش کے پہلے سال تھیلی میں اتر آتے ہیں اگر نہ اتریں تو فورًا ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے ۔
ڈاکٹر عمر فاروق بولتے جارہے تھے اور سلیم خان توجہ سے سن رہا تھا۔

“ماؤں کو چاہیے کہ نوزائیدہ بچے کو بغور چیک کریں باقاعدہ ٹٹول کے کہ خصیے تھیلی میں ہیں کہ نہیں ۔۔پیدائش کے وقت نہیں ہیں تو پریشان نہیں ہونا چاہیے ،تین ماہ یا زیادہ سے زیادہ سال کے اندر اندر خصیے تھیلی میں اتر آتے ہیں۔اگر سال بعد بھی نہ اتریں تو پریشانی کی بات ہے ۔

فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کریں ڈاکٹر میڈیسن یا تھراپی سے خصیوں کو تھیلی میں لے آئے گا۔اگر دوائی یا تھراپی سے خصئیے تھیلی میں منتقل نہ ہوں تو سرجری کے ذریعے یہ عمل مکمل کیا جائے گا۔۔

ڈاکٹر عمر فاروق نے مزید کہا
“بعض اوقات ٹیسٹیز سکروٹم اور نالی کے درمیان آگے پیچھے ہوجاتے ہیں اور خصیہ نالی میں رہتا ہے اور ہاتھ سے کھینچ کے اسے تھیلی میں لے آیا جا سکتا ہے اور یہ عموماً خود بھی تھیلی میں آ جاتا ہے اور یہ آنا جانا اس وقت لگا رہتا ہے جب تک بچہ بالغ نہیں ہوجاتا ۔

ایسے خصیوں کو “retractile testicle ” کہا جاتا ہے

” زیادہ تر لڑکوں میں بلوغت سے پہلے یا اس کے دوران پیچھے ہٹنے والے خصیے کا مسئلہ دور ہو جاتا ہے۔ خصیہ سکروٹم میں اپنے صحیح مقام پر چلا جاتا ہے اور مستقل طور پر وہاں رہتا ہے۔

بعض اوقات پیچھے ہٹنے والا خصیہ نالی میں رہتا ہے اور اب حرکت پذیر نہیں ہوتا ہے جب ایسا ہوتا ہے تو یہ انڈیسینڈڈ خصیہ کہلاتا ہے اگر یہ خصیہ کئی سالوں تک تھیلی  میں نہ اترے تو یہ نالی میں موجود ٹمپریچر کی وجہ سے گل سڑ جاتا ہے جس کے نتیجے میں ایک تو بچہ میں مردانہ معذوری پیدا ہوجاتی ہے دوسرا کینسر کا خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔۔”

ڈاکٹر عمر فاروق نے سلیم خان کو تسلی دی کہ
” آپ کے بیٹے کو انڈیسنڈڈ ٹیسٹیز کی شکایت نہیں ہے یہ “ری ٹریکٹائل ٹیسٹیکلز “ہیں جو بالغ ہونے پہ سکروٹم میں مستقلاً منتقل ہوجائیں گے اگر پھر بھی آپکو تسلی نہ ہو تو کچھ دن انتظار کر لیں میں مائنر سا آپریٹ کروں گا ٹیسٹیز کو تھیلی میں ڈال کر ٹانکا لگادوں گا کہ یہ نالی میں نہ جا سکیں ۔”

سلیم خان دل ہی دل میں بارگاہ الٰہیہ میں شکر بجا لایا کہ اللہ نے اسے بہت بڑی آزمائش سے بچا لیا ۔سلیم خان نے ڈاکٹر عمر فاروق کا شکریہ ادا کیا اور جانے کی اجازت طلب کی۔

ڈاکٹر عمر فاروق نے سلیم خان کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا اور پر تفکر انداز میں کہنے لگا ۔
“ہمارے معاشرے میں والدین کو  بچوں کی صحت افزائش کے متعلق آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔
چونکہ مائیں بچوں کی  پرورش کرتی ہیں بچوں کے بنیادی معاملات جیسے غذا اور حوائج ضررویہ عموماً مائیں ہی سر انجام دیتی ہیں اس لئیے انہیں چاہیے کہ وہ اس چیز کا خیال رکھیں اور چیک کرتی رہیں کہ بچے میں کوئی اس قسم کی پرابلم تو نہیں جو آپکے بچے میں تھی۔”

عموماً ماؤں کا اسطرف دھیان نہیں جاتا کیونکہ اس سلسلے میں کسی نے انکی رہنمائی نہیں کی ہوتی اس وجہ سے ایسے بچوں کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔بچوں میں زنانہ عادات و خصائل پیدا ہوجاتے ہیں وہ زنخوں کی طرح سے حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔
کیونکہ ٹیسٹو سٹیرون ہارمونز بچوں میں جنسی افزائش کا سبب ہیں ۔۔اس ہارمون کی بدولت بچے کی آواز میں مردانگی اور چہرے اور جسم پہ بال آتے ہیں ۔ ٹرانس جینڈزر کے80 فیصد کیسز میں انڈیسنڈڈ ٹسیٹیکلز پرابلم کا عمل دخل ہوتا ہے اور یہ ماؤں کی غفلت کا نتیجہ ہے اگر بچپن میں ہی اس مسئلے کا حل نکال لیا جائے تو بچوں کو بڑے ہونے پہ غیر فطری زندگی گزارنے سے بچایا جا سکتا ہے ۔”

Advertisements
julia rana solicitors

سلیم خان نے توجہ سے ڈاکٹر عمر فاروق کی باتیں سنیں اور دل ہی دل میں تہیہ کیا کہ وہ اپنی اہلیہ کو یہ سب بتائے گا اور اسے کہے گا کہ اپنے جاننے والی ماؤں کو اس اہم معاملے سے آگاہ کرے تاکہ وہ بروقت اس مسئلے کا تدارک کر سکیں جس پہ ان کے پھول سے بچوں کے مستقبل استوار ہیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply