لیڈرشپ کی خوبیاں اور ہمارے موجودہ حکمران

بہت سی خوبیوں سے مل کر ایک اچھا رہنما بنتا ہے۔ ان میں سے وژن یا بصیرت، جموریت پسندی، ایمانداری، راست گوئ اور انسپائریشن پر مشتمل کم از کم پانچ خوبیوں کو مدنظر رکھتے ہوئ ہم دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ ہماری موجودہ پارٹیوں کے کون کون سے رہنما ان خوبیوں پر پورا اترتا ہے۔
وژن یا بصیرت : ہم تمام پارٹیوں کے لوگوں سے یہ تو سنتے آۓ ہیں کہ ہمارا لیڈر بہت وژنری یا صاحب بصیرت شخصیت ہے۔ اور اپنی بات کو ثابت کرنے کیلیۓ ٹھیروں مثالیں دیتے ہیں۔ لیکن ہم میں سے کبھی کسی نے بھی یہ غور نہیں کیا کہ ہم اپنی پارٹی کا منشور دیکھیں ،اور پھر اب تک پارٹی کی اُس سمت میں ہونے والی کارگردی کا جائزہ لیں، تو ہمیں بہت کچھ واضح نظر آ سکتا ہے۔ اگر دیکھا جاۓ تو روٹی ,کپڑا، مکان کا نعرہ لگانے والوں نے عوام کو روٹی کپڑا مکان دینے کی بجاۓ ان سے چھینا ہی ہے۔ کسی نے کشکول توڑنے کا نعرہ تو لگایا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے خاندان اور رشتہ داروں کے کشکول توڑ کر انکو تو ارب پتی بنا دیا۔ لیکن عوام اور ملک اسی طرح قرضے میں ڈوبا ہوا ہے۔ اسلام کا نعرہ لگانے والوں نے کس قدر پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ بنایا۔ سیکولر یا سکیولر اسلام کے داعیان نے عدم تشدد کا نعرہ لگانے کے بعد کیا کیا گل کھلاۓ ہیں اور کس طرح دہشتگردی کا ساتھ دے کر اپنے وژن سے دور گۓ، اسکو بھی کبھی دیکھ لیں تو آپکو انکی حقیقت سمجھنے میں آسانی ہو گی۔قوم پرست لیڈروں پر تو شروع سے ہی بیرون ممالک کے ساتھ تعلقات کہ الزام لگتے ہیں۔ اسکو بھی دیکھنا ہو گا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ بالادست قوتوں نے ہمارے لیڈران کو کام نہیں کرنے دیا یا جو تاریخی حقائق ہمارے خلاف ہیں۔ وہ سرا سر بغض ہے۔ تو پھر یہ بھی مان لیجیۓ کہ مخالف پارٹیوں کا یہ موقف بھی ٹھیک ہی ہے کہ انکو بھی کام نہیں کرنے دیا جاتا۔
ڈیموکریسی یا جمہوریت: اگرچہ ہمارے نظام حکومت کو کہا تو جمہوری ہی جاتا ہے۔ لیکن اگر ہم اپنی پارٹی لیڈر شپ پر نگاہ دوڑائیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ جماعت اسلامی کہ علاوہ کسی پارٹی میں حقیقی جمہوریت کا نام و نشان بھی نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی بھٹو اور زرداری خاندان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی ہیں۔ تو شریف خاندان مسلم لیگ کے سیاہ و سفید کا مالک ہے۔ پی ٹی آئ جو تبدیلی کا نعرہ لے کر آئ تھی۔ اس کے بارے میں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ایک لیڈر جو اختلاف راۓ پر اپنے پرانے ساتھیوں کا پارٹی سے نکال دیتا ہے۔ یا جو لیڈر پارٹی انتخاب نہیں کروا سکتا تو پھر وہ کیسے عوام کو آگے لاۓ گا۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ وہاں انگلی نہیں تو جہاز والوں کی تو ضرور چلتی ہے۔ آپ قوم پرست، سیکولر یا سیکولر اسلام کا نام لینے والی پارٹی بھی کو ہی دیکھ لیں کہ وہاں سب سب کچھ شخصیتیں اور خاندان ہیں۔ جبکہ نچلی سطح سے آنے والے لوگوں کو کیسے دبایا جاتا ہے۔ اگر کسی کے پیچے کوئ مضبوط ہاتھ ہو تو وہ اپنی نئ پارٹی بنا لیتا ہے۔ جو بذات خود اس شخص کے اردگرد گھومے گی۔ اس لیۓ اگر کبھی جہموریت کا نعرہ لگانے کا شوق چڑے تو پہلے ذرا اپنا پارٹی سٹرکچر یا اس کی تاریخ پر ضرور نظر دوڑا لیں۔
ایمانداری: کسی بھی لیڈر میں اس خوبی کا ہونا بہت اہم اور ضروری ہے۔ کیونکہ اگر لیڈر ہی ایماندار نہیں ہو گا تو وہ دوسروں کا احتساب کیسے کرے گا۔ جس کی حالیہ مثال پانامہ کیس ہیں۔ جس میں تقریباً تمام پارٹیوں اور بیوروکریسی سے چار سو شخصیتوں پر آف شور کمپنیوں کا الزام ہے۔ جبکہ ہمارے وزیر اعظم صاحب رسیدیں دکھا کر اپنے خاندان کی دولت کو جسٹفائ کر پاۓ ہیں۔
پیپلزپارٹی پر پچھلے دور میں کرپشن کے بے تحاشا الزام لگ چکے ہیں۔ اور خود آصف علی زرداری کی ذات اس حوالے سے بہت زیادہ مشکوک ہے۔ تحریک انصاف یں پارٹی ٹکٹ سے لے کر پارٹی فنڈز تک میں کرپشن کے الزام اور صوبہ خیبر پختون خواہ کے وزیر اعلٰی اور وزرا پر انکے اپنے ایم این ایز کی طرف سے کرپشن کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔ جس کے جواب میں کروائ کی بجاۓ سزا ہمیشہ الزام لگانے والے کو ہی ملی ہے۔ جمعیت کے لیڈر اگرچہ کرشن کے الزام سے پاک ہیں۔ لیکن یہ علیحدہ بات ہے کہ انکے وزیر موصوف کی کروڑوں کی کرپشن کو گول مول کر دیا جاتا ہے اور وہ کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کرتے پاۓ جاتے ہیں۔ باقی قوم پرست لیڈروں پر تو شروع سے ہی مالی الزام لگتے آۓ ہیں۔ اگر حالیہ ہوٹل گرینڈ حیات کی سٹوری پڑھ لیں تو آپ پر بہت کچھ آشکار ہو سکتا ہے
راست بازی: تمام پارٹی کے ورکر اور خیر خواہ اپنے اپنے لیڈر کو تو حق اور سچ کی آواز سمجھتے ہیں۔ جبکہ مخالفین کو ہمیشہ تاریخی جھوٹا قرار دینے میں لگے رہتے ہیں۔ ہمارے پاس کوئ ایسا لیڈر نہیں جس کو ہم کہہ سکتے ہوں کہ یہ واقعی راست گو یا سچ کا ساتھ دینے والا ہے۔ ہم علی بابا چالیس چوروں کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے والے کی پھرتیاں، انصاف و تبدیلی لگانے والوں کا نعرہ لگانے والوں کے تاریخی یوٹرن اور اینٹ سے اینٹ بچا دینے والوں کی دبئ اور امریکہ میں لگائ جانی والی ٹپوسیاں یاد رکھیں تو ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو مل جاۓ گا۔ دوسری طرف سراج صاحب بھی بہت معصوم ہیں۔ انکی باتوں سے تو لگتا ہے کہ وہ امریکہ سے کشمیر تک سب کچھ فتح کر کے دم لیں گے۔ لیکن عمل کے میدان میں انکے بھی بس خالی خولی نعرے ہی ہیں۔
انسپائریشن: سب سے آخر پر یہ کہ ایک لیڈر نے آنے والی نسل کیلیۓ کتنے لیڈر پیدا کیے ہیں۔جو اسکے مشن کو آگے لے کر جائیں گے۔ تو ہمی ںسواۓ لیڈران کی اولادوں کے کوئ موضوع شخص ہی نہیں ملتا جس کو ہم اپنا لیڈر کہہ سکیں۔ ہر پارٹی بس ایک خاندان کے گرد ہی گھومتی ہے۔ کیوں حمزہ, مریم یا بلاول اور آصفہ کے علاوہ ہمیں اپنے لیے کوئ لیڈر نہیں نظر آتا۔ کیوں پی ٹی آئ عمران خان کے بعد کوئ رہنما نظر نہیں آتا۔ اگر آپکو اپنی پارٹی میں ہی آپکا جائز حق نہیں مل رہا تو پھر آپ حکومت سے پہلے اپنی پارٹی سسٹم پر غور کریں۔ تا کہ اگر آپ اپنی پارٹی میں اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں تو پھر آئندہ جب آپکی پارٹی حکومت میں آۓ گی تو پھر آپکے دیکھےخواب پورے ہو سکتے ہیں۔
آخر میں یہ کہوں گا کہ میں کوئ تاریخ دان یا دانشور نہیں بلکہ ایک طالب علم ہوں۔ اور نہ ہی میرا مقصد کسی کو اسکی پارٹی سے متنفر کرنا ہے۔ بلکہ چند سوال جو مجھے لگا کہ ہم سب خاص کر نوجوانوں جو اپنی لیڈرشپ کو سب سے اچھی اور دوسرے کی لیڈرشپ کو گھٹیا ترین سمجھتے ہیں۔ سب سے پہلے ذرا دیکھ لیں کہ کہیں جو الزام آپ دوسروں پر اُٹھا رہے ہیں۔کیا وہ الزام آپ کی پارٹی پر نہیں لگے۔ اور اگر لگے ہیں۔ تو پھر ان میں کچھ تو حقیقت ہو گی۔ جس طرح آپکے لگاۓ الزام میں آپکو حقیقت نظر آتی ہے۔ آئندہ ڈیڑھ سال سیاست کا میدان سجا رہے گا۔ اور اگر ہم اپنے اپنے لیڈر کی صرف اچھی تصویر کو سامنے رکھ کر دوسرے رخ سے نظر چرائیں گے۔ تو خود کو ہی تضحیک کا نشانہ بنوائیں گے۔ اس لیے آئیے پہلے اپنے لیڈروں کی اصلیت جانیں اور پھر دوسروں پر تنقید کریں۔

Facebook Comments

بلال حسن بھٹی
ایک طالب علم جو ہمیشہ کچھ نیا سیکھنے کی جستجو میں رہتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply