فوج میں گزرے روز وشب/6-ڈاکٹر مجاہد مرزا

پہلی اور آخری بار علی پور میں گھر والوں کو فوج کی وردی پہن کر دکھائی تھی ۔ماں بہنیں خوش تھیں کہ میں نے بالآخر عملی زندگی میں قدم رنجہ فرمالیا ہے۔ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ عملی زندگی کی راہیں کتنی غلاظتوں سے اٹی ہوئی ہیں جن سے بچنے کی پاداش میں مجھے ہی مطعون ہونا پڑے گا تو میں خاکی وردی کی بجائے اون کا خرقہ پہن کر ، یا تو بالکل خاموش ہوجاتا یا پھر کسی ایک مرشد کے نعرے مارتے مارتے خود بھی بہت سوں کا مرشد بن جاتا ۔
میں ریاست سے تو متنفر تھا ہی اور ریاست کے اِس مارشل لائی ستون سے ویسے ہی نالاں، لیکن ایک تو ملک میں پہلی بار جمہوری حکومت تھی، لنگڑی لولی ہی سہی ،دوسرے فوج کی سروس میں جگہ جگہ جا کر دنیا دیکھنے اور اُس سے براہ راست متعارف ہونے کے مواقع زیادہ تھے۔ مثال کے طور پر پہلی پوسٹنگ ہی مہم جوئی کی راہیں کھول رہی تھی۔ میں خوفزدہ تو نہیں لیکن گھبرایاہوا ضرور تھا مگر میں نے دشواریوں کے بارے میں بتا کر ماں بہنوں کی خوشی پامال کرنا مناسب نہیں جانا تھا۔ ویسے بھی یہ چند روز کا عارضی قیام پلک جھپکتے میں گز ر گیا تھا۔
باوجود دہریہ ہونے کے بہن کے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے جزدان میں پوشیدہ قرآن کے نیچے سے گزرکر دہلیز پار کی اور بس پر بیٹھ کر ملتان پہنچاتھا اور پھر اسی جہاز میں بیٹھ گیا تھا جواڑنے سے پہلے انگڑائیاں لیتا ہے۔ فوکر کی اِس پرواز کے بارے میں طیارے کی میزبان خاتون نے بتایا تھا کہ اِس پرواز کو وہ لوگ ’’ آؤ بچو سیر کرائیں تم کو پاکستان کی ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ یہ پرواز ملتان سے ڈیرہ اسماعیل خان وہاں سے پشاور اور آخر میں راولپنڈی اسلام آباد پہنچتی تھی۔ کئی گھنٹوں کا یہ تھر تھراتا ہواسفر کرکے ہوائی اڈے سے سیدھے راولپنڈی صدر میں واقع ٹرانزٹ کیمپ پہنچا تھا۔ وہاں آرام دہ کمرہ اور اچھا میس میسر تھا۔ ٹکٹ موجود تھا لیکن گلگت کی پرواز موسم کی خرابی کے باعث مفقو د تھی۔ اِ س ہوائی سفر کو دنیا کا خطر ناک ترین سفر گردانا جاتا تھا۔
فوکر طیارے کو وادی چلاس میں سربفلک پہاڑوں کے بیچ سے گذرنا پڑتا تھا۔گہرے بادل چھا جانے کی صورت میں نہ تو جہاز کو واپس موڑے جانے کا دائرہ وسیع تر تھا اور نہ ہی اِسے اتارا جاسکتا تھا۔ ایک ہی راہ بج رہتی تھی یعنی حادثہ۔یہی وجہ تھی کہ اِس پرواز کے سلسلے میں بے حد احتیاط برتی جاتی تھی۔ بعض اوقات ہفتوں انتظار کرنا پڑجاتا تھا۔ صرف فوج کا مال بردار طیارہ سی تیس ہر کولیس ہی پہاڑوں کی چوٹیوں کے اُوپر سے پرواز کرنے کے قابل ہوتا تھا۔ لیکن مجھے بہت انتظارنہیں کرنا پڑا تھا ۔ صرف ایک ہفتہ گذارنا پڑا تھا جس میں میس کا بل بھی ٹھیک ٹھاک بن گیا تھا ،لیکن یہ ایک ہفتہ میں نے کتابیں خریدتے او ر جیارجیری ابن حسینہ بیگم کے ساتھ ہنستے ہنستے گزار دیا تھا۔ جبار کو دیکھتے ہی مجھے ہنسی آگھیرا کرتی تھی اِس کا باعث یا تو اس کی بے ساختہ گفتگو ہوتی تھی یا پھر اُس کی اپنے آپ پر بعض اوقات زبردستی طاری کردہ سنجیدگی ۔
ایک عرصہ بعد پتہ چلاتھا کہ جبار ایمسٹرڈیم جابسا ہے اور حکومت ہالینڈ سے ملنے والے بے روز گاری الاؤنس کے دوحصے کرلیتا ہے۔ ایک حصہ فاسٹ فوڈ والے کو کھانے کی مدمیں دے دیتا ہے اور ایک حصہ کیفے بار کو دے کرہفتہ بھر چرس کا کوٹہ استعما ل کرتارہتا ہے۔ الاؤنس ہفتہ وار ملتا ہے۔ جب اس کی ماں معروف ایم پی اے تھیں تب وہ اپنی کار پر نشتر آیاکرتا تھا۔ شلوار سالم ہوتی تھی مگر قمیض کمر سے بالکل پھٹی ہوتی تھی۔ اس کی شان تب بھی داغدار نہیں ہوتی تھی۔ اوپر سے اس کی تازی کتے جیسی پتلی کمر اور ہنسوڑ طبیعت ۔ عجب مرد تھا وہ بھی۔
پھر ایک صبح جہاز نے اڑنے سے پہلے تھرتھراتے ہوئے جر أت پرواز مجتمع کی تھی۔ جہاز میں صرف اٹھارہ بیس مسافر تھے۔ مجھ سے دو نشستیں آگے مخالف سمت میں ایک نوجوان بیٹھا تھا جس کی ہلکی ہلکی داڑھی تھی اور وہ غالباََ پہاڑی علاقے سے کسی مذہبی مدرسے میں طالب علم تھا۔ جونہی جہاز اڑا اور خاصی دیر تک عمودی پرواز کرتا رہا تو نوجوان نے گلا پھاڑ پھاڑ کر اور مٹھی بند باز و لہرالہراکر ’’ اے مرد مجاہد جاگ ذرا اب وقت شہادت ہے آیا‘‘گانا شروع کردیا تھااور سب کے لیے مرکز توجہ بن گیا تھا مگر جونہی جہاز سیدھا ہوکر افقی پرواز کرنے لگا تھا وہ ایسا شانت ہوکر بیٹھ گیا تھا جیسے شہید کے عہدے سے تنزلی کرکے اُسے غازی کا درجہ دے دیاگیا ہو۔
گلگت تک کا سفر متحیرکن بھی تھا اور دہشت ناک بھی۔ دونوں طرف خالی پہاڑجن کے پیچھے برف سے ڈھکے اور پہاڑتھے ۔ندیاں نالے ، تیزی سے اڑتے ہوئے بادل ، جہاز کی مسلسل گھاں گھاں اور کبھی کبھار دل دہلادینے والا جھٹکا۔ جب جہاز نیچے اترنا شروع ہوا تو نظارہ خاصا دلکش تھا۔ جہاں جہاز نے پہیے رن وے پر جمانے تھے وہیں سے ایک نوے درجے کی گہری گراوٹ شروع ہوتی تھی لیکن پائلٹ نے ڈیڑھ دو فٹ کی بھی غلطی نہیں کی تھی ۔تب تک گلگت کا ہوائی اڈہ رن وے کی ایک پٹی پر مشتمل تھا اور بس۔ کوئی حفاظتی انتظامات نہیں تھے۔ تین اطراف میں خاردار تاروں کی ایک باڑ تھی اور چوتھی جانب وہ قعرعمیق۔ جہاز سے نکلتے ہی مجھے لگا تھا جیسے میں پریوں کے دیس میں پہنچ گیا ہوں۔
بہار آچکی تھی بادام ،بہی اور شفتالوکے درخت پھولوں سے پٹے پڑے تھے، پتہایک بھی نہیں تھا۔ میں نے اِس سے پہلے ایسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شکر ہے جہاز خیر خیریت سے اتر گیا تھا،تبھی میں خود کو ہواؤں میں محسوس کررہا تھا ۔کہتے ہیں کہ ایک بار ایسا بھی ہوا تھا کہ جہاز کو صحیح بریک نہیں لگ سکی تھی او ر وہ تیسری جانب کی خاردار باڑ پھلانگتا ہوا شہرمیں جاگھسا تھا البتہ تب تک بریک لگ چکی تھی اور نقصان نہیں ہوا تھا۔ پھولوں بھرے درختوں کے نظارے سے مانوس ہوکر میں نے ٹھکانے کی فکر کرنی شروع کی تھی۔ وردی پہنی ہوئی تھی میں جونہی ایک طرف بنی عارضی سی عمارت سے باہر گیا تو ایک لانس نائیک ڈرائیور نے سلیوٹ کیا تھا اور میرا سامان ایک جیپ میں رکھ کے میرے لیے دروازہ کھول دیا تھا۔ پانچ منٹ کے بعد ہم سی سی ایس میں تھے۔
گلگت میں تب تک کمبائنڈ ملٹری ہسپتال نہیں تھا،فقط کایلٹی کلیرنگ سٹیشن تھا۔ ڈرایؤر نے میرا سامان نکال کر مجھے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا تھا۔ پتھروں سے بنے کمروں کی قطاروں کے پیچھے کی جانب گئے ہی تھے کہ سامنے سے کیپٹن شمیم وردی گیا تھا مگر جونہی جہاز سیدھا ہوکر افقی پرواز کرنے لگا تھا وہ ایسا شانت ہوکر بیٹھ گیا تھا جیسے شہید کے عہدے سے تنزلی کرکے اُسے غازی کا درجہ دے دیاگیا ہو۔
گلگت تک کا سفر متحیرکن بھی تھا اور دہشت ناک بھی۔ دونوں طرف خالی پہاڑجن کے پیچھے برف سے ڈھکے اور پہاڑتھے ۔ندیاں نالے ، تیزی سے اڑتے ہوئے بادل ، جہاز کی مسلسل گھاں گھاں اور کبھی کبھار دل دہلادینے والا جھٹکا۔ جب جہاز نیچے اترنا شروع ہوا تو نظارہ خاصا دلکش تھا۔ جہاں جہاز نے پہیے رن وے پر جمانے تھے وہیں سے ایک نوے درجے کی گہری گراوٹ شروع ہوتی تھی لیکن پائلٹ نے ڈیڑھ دو فٹ کی بھی غلطی نہیں کی تھی ۔تب تک گلگت کا ہوائی اڈہ رن وے کی ایک پٹی پر مشتمل تھا اور بس۔ کوئی حفاظتی انتظامات نہیں تھے۔ تین اطراف میں خاردار تاروں کی ایک باڑ تھی اور چوتھی جانب وہ قعرعمیق۔ جہاز سے نکلتے ہی مجھے لگا تھا جیسے میں پریوں کے دیس میں پہنچ گیا ہوں۔
بہار آچکی تھی بادام ،بہی اور شفتالوکے درخت پھولوں سے پٹے پڑے تھے، پتہایک بھی نہیں تھا۔ میں نے اِس سے پہلے ایسا نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ شکر ہے جہاز خیر خیریت سے اتر گیا تھا،تبھی میں خود کو ہواؤں میں محسوس کررہا تھا ۔کہتے ہیں کہ ایک بار ایسا بھی ہوا تھا کہ جہاز کو صحیح بریک نہیں لگ سکی تھی او ر وہ تیسری جانب کی خاردار باڑ پھلانگتا ہوا شہرمیں جاگھسا تھا البتہ تب تک بریک لگ چکی تھی اور نقصان نہیں ہوا تھا۔ پھولوں بھرے درختوں کے نظارے سے مانوس ہوکر میں نے ٹھکانے کی فکر کرنی شروع کی تھی۔ وردی پہنی ہوئی تھی میں جونہی ایک طرف بنی عارضی سی عمارت سے باہر گیا تو ایک لانس نائیک ڈرائیور نے سلیوٹ کیا تھا اور میرا سامان ایک جیپ میں رکھ کے میرے لیے دروازہ کھول دیا تھا۔ پانچ منٹ کے بعد ہم سی سی ایس میں تھے۔
گلگت میں تب تک کمبائنڈ ملٹری ہسپتال نہیں تھا،فقط کایلٹی کلیرنگ سٹیشن تھا۔ ڈرایؤر نے میرا سامان نکال کر مجھے اپنے ساتھ چلنے کے لیے کہا تھا۔ پتھروں سے بنے کمروں کی قطاروں کے پیچھے کی جانب گئے ہی تھے کہ سامنے سے کیپٹن شمیم وردی میں ملبوس آتا دکھائی دیاتھا اور آکر میرے گلے لگ گیا تھا۔ شمیم ہم سے ایک سال آگے تھا لیکن سال چہارم میں ایک سال ضائع کرکے ہمارے ساتھ آملا تھا جب کہ اُس کا چھوٹا بھائی نسیم ہم سے آگے ہی رہا تھا۔ شمیم نے ٹریننگ بھی ہمارے ساتھ کی تھی اورمجھ سے ہفتہ پہلے ہی سی سی ایس میں ڈیوٹی جوائن کی تھی۔ ہم دونوں بہت خوش تھے۔ شمیم کی نیلی آنکھیں جگمگارہی تھیں۔
وہ چونکہ ڈیوٹی پر جارہا تھا اس لیے میرے لیے چائے وغیرہ کا حکم دے کر چلا گیا تھا۔ حکم و حکم آوری۔
حاکم ومحکوم کا ورطہ شروع ہو چکا تھا۔ میں چائے پی کر فارغ ہوگیا تو باہر جاکر نظارہ کرنے لگا تھا۔ کمرے کے سامنے تھوڑی دور شہر کی واحدبڑی سڑک تھی جس کے عقب میں پہاڑ او ر کچھ عمارات تھیں جہاں fwo کا بورڈ دکھائی دے رہا تھا۔ گاہے گاہے کوئی کار ویگن یا جیپ بھی دکھائی دے جاتی تھی یا فوجی ٹرک لیکن کار او ر بس بالکل بھی دکھائی نہیں دی تھی۔ کمروں سے نکل کر دائیں ہاتھ پر خاصی دور اونچے درختوں کے نیچے شہر کی ایک منزلہ عمارتیں نظرآرہی تھیں۔ کمرے کی چھت کی جانب سے پہاڑوں کے اوپر والے حصے دکھائی دیتے تھے او ر بائیں جانب دور دور تک پہاڑ ہی پہاڑ ۔
میں وردی سمیت آرام کی خاطر تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گیا تھا لیکن جب سگریٹ پینے کے لیے سیدھا ہواتھا توایک ڈاکٹرصاحب داخل ہوئے تھے۔ یہ سفید رنگت والا کیپٹن بٹ تھا جس نے کنگ ایڈورڈ سے ایم بی بی ایس کی تھی او ر ہم سے پہلے والے بیج میں ٹریننگ کرکے یہاں تعینات ہو ا تھا۔ہم گپیں ہانکتے رہے تھے۔ کھانے کا وقت ہوگیا تھا ۔ ایک کمرے میں میس تھا جہاں ہم تینوں ہینے بیٹھ کر کھانا کھایا تھا۔ شمیم مجھے میرے جائے تعیناتی سے خوفزدہ کرتا رہاتھا۔ اب بٹ بھی خوب کھل گیاتھا۔ دلچسپ آدمی تھا۔ دونوں اپنے ccs کی ساخت کے بارے میں بتاتے رہے تھے، پھر ہم باہر جاکر چہل قدمی کرنے لگے تھے۔جب تیسری چوتھی بارچہل قدمی کرتے ہوئے کمروں کے بائیں طرف کے آخری سرے پر گئے اور مڑ کے دیکھاتھا تو پہاڑ پر بل کھاتی ہوئی سڑک سے ایک عجیب سی گاڑی آتی دکھائی دی تھی ۔میرے منہ سے یک لخت نکلا:
’’یار شمیم یہ کیا ہے بھئی؟‘‘
شمیم نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہاتھا،’’ یہ تمہیں لے جانے کے لیے آرہی ہے‘‘۔ میں ششدر سا تھا، مگر شمیم نے بتایاتھا کہ پہاڑوں پر بنی ہوئی پتھروں والی سڑک اتنی تنگ ہے کہ وہاں مریضوں کی منتقلی کی خاطر عمومی ایمولینس کا سفر ناممکن ہے اِس لیے عام وِلی جیپ کی اگلی نشتوں کے پیچھے ایک سڑیچر مضبوطی سے نصب کرکے اس کو ایک ڈھلوانی ترپال سے ڈھانپ کر یہ ایمبو لینس بنائی جاتی ہے۔ ذرا غور سے دیکھوتو اُس کے اطراف میں کراس کا سرخ نشان بھی بناہوا ہے۔ آدھے گھنٹے کے بعد وہ گاڑی واقعی کمروں سے دور آکر رکی تھی۔ تب ہم کمروں کے آگے صحن میں کرسیاں ڈال کر چائے پی رہے تھے۔ ایک نائب صوبیدار نے آکر سلیوٹ کیاتھا ،اپنا تعارف کرایا تھا جب کہ اُس کا نام ولی محمد اُس کے سینے پر لگی نیم پلیٹ پر درج تھا اور اطلاع دیتے ہوئے اجازت مانگی تھی کہ جیپ کا کوئی پرزہ بدلوانا ہے، پھر ہم ’’آگے‘‘جائیں گے۔’’ پیچھے ‘‘ کا راستہ تو فی الحال مسدد د ہوچکا تھا۔ میں نے فوجی انداز میں ’’ ٹھیک ہے ’’ کہہ کر دوبار اس کا سلیوٹ سہا تھا۔ ایک گھنٹے بعد وہ آگے جانے کے لیے آگئے تھے۔
میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا تھا۔ میرا سوٹ کیس، کتابوں سے بھر ا ہوا بیگ اور ہولڈال سڑیچرپہ رکھ دیے گئے تھے ۔ نائب صوبیدار سڑیچر کے سامنے کی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ کیپٹن شیمم او ر کیپٹن بٹ نے الوداعی طور پر خداحافظ کہنے کے لیے ہاتھ بلند کیے تھے اور میں نے سیلوٹ کے انداز میں جواب دیا تھا۔ شیمم اور بٹ دونوں ہی کی آنکھیں اور چہرے مذاق بھری مسکراہٹ سے مزین تھے ۔یوں ہمارا سفر شروع ہوگیا تھا۔ گلگت سے نکل کر ہم شاہراہ ابریشم پہ آگئے تھے۔ سڑک خاصی اچھی تھی ۔ ایک طرف سنگلاخ پہاڑ اور دوسری طرف عمیق کھڈ تھے ، جنہیں دیکھ کر ہول آتا تھا۔ ہم واپس راولپنڈی کی جانب رواں دواں تھے۔ آبادی والا ایک علاقہ بوُنجی آیا جسے شہر ،قصبہ ، گاؤں کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ نائب صوبیدار ولی محمد نے کہا’’ سر رات ہمیں یہیں گذارنی ہوگی سورج پہاڑوں کے نیچے جلدہی غروب ہوجائے گا۔
اگرچہ رات کو احتیاط سے ڈرائیونگ کی جاسکتی ہے لیکن آپ کا اِس علاقے میں پہلا سفر ہے اِس لیے ہم صبح چلیں گے۔ ‘‘میں نے پوچھا تھا کہ گلگت میں ہی کیوں قیام نہیں کیا۔ نائب صوبیدار نے مختصر سا جواب دیا تھا،’’ سر کرنل صاحب کا یہی حکم ہے۔‘‘ اوہ میرے خدا! یہ حکموں و کموں کے چکر میں تو میں کبھی تھا ہی نہیں تا حتی( نعوذ باللہ) اللہ کے احکام سے بھی روگردانی کی تھی اور دل پر نہیں لیا تھا چہ جائیکہ انسان کا حکم، لیکن اب تو پھنس گئے تھے۔ جیپ ایک طر ف کو مڑگئی تھی اور پتھروں سے بھری سڑک پر کھڑکھڑکرتی تھوڑی دور بنے ایک بڑے سے چبوترے کے پاس جار ہی تھی جس پر تین چار کمرے بنے ہوئے تھے جن کے باہر ایک بڑی عمر کا گلگتی شخص فوج کی وردی میں ملبوس کھڑا تھا۔ ولی نے مجھے پہلے ہی بتادیا تھا کہ وہ میجر سلطان ہیں اور بونجی میں میڈیکل ڈیٹ(
Detachment) کے انچارج ہیں۔ میں نے اتر کر انہیں سلیوٹ کیاتھا۔ دعاسلام ہوئی تھی۔
نائب صوبیدار سلیوٹ کرنے سے پہلے’’ سر صبح 9 بجے چلیں گے‘‘ کہہ کر دوسرے عملے کے ساتھ رات گذارنے چلاگیا تھا۔ میجر صاحب نے باورچی کو چائے لانے کے لیے کہا تھا اور مجھے قیام کرنے کی خاطر کمرہ دکھاکربولے تھے’’ کیپٹن مرزا، کپڑے تبدیل کرلیں ۔ کمرے کے پیچھے غسل خانہ ہے۔ وہاں ٹب میں پانی ہے ۔ ہاتھ منہ وغیرہ دھولیں ۔ پھر ساتھ والے کمرے میں چائے پینے کے یے آجائیں۔‘‘میں نے وردی سے آزادی حاصل کی تھی۔ ہاتھ منہ دھویاتھا۔ پتھروں سے بنے غسل خانے میں ایک لکٹری کا بنا کموڈ رکھا ہواتھا۔ پیشاب کرنے کی خاطر کموڈ پر چڑھا تو وہ بری طرح ڈگمگانے لگا تھا۔ میرا موڈ خراب ہونے لگا تھا کہ کس قسم کے ناگفتہ بہ حالات میں آپھنسا تھا۔ خیر چائے پینے کے لیے چلاگیا تھا۔
میجر سلطان محمود بے حد سادہ اور اچھے آدمی تھے۔ خود وہیں کے رہنے والے تھے اِس لیے مجھے تسلی دیتے رہے تھے پھر اپنی داستان بھی سنائی تھی کہ ڈوگرہ راج سے آزادی کی خاطر وہ نوجوانی کے دور میں انہیں علاقوں میں جہاں مجھے کل جاناتھا ،وہ کس طرح جنگ کرتے رہے تھے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے فقروں پر مبنی دلچسپ گفتگو میں رات کا اندھیرا پھیل گیا تھا اور رات کے کھانے کا وقت ہوگیا تھا۔ باورچی نے ان کے بیٹ مین کے سا تھ مل کر کھا نا لگا دیا تھا۔بھوک چمکی ہوئی تھی اور کھانا بھی اچھا تھا۔ تھوڑی دیر مزید بیٹھے رہے اور پھر قہوہ پی کر میجر صاحب نے مجھے کہا تھا کہ آپ سفر سے آئے ہیں اِس لیے آرام کر لیںآپ کو صبح پھر چار گھنٹے کا سفر کرنا ہو گا۔
ان کا بیٹ مین ایک لالٹین روشن کر کے میرے کمرے میں رکھ آیا تھا۔ میں میجرصاحب کو شب بخیر کہہ کے کمرے میں پہنچا تھا۔ لکڑی کے تخت پر صاف ستھرا بستر لگا دیا گیاتھا اور ایک کرسی بھی رکھ دی گئی تھی۔ہو کی خاموشی تھی۔ کبھی کبھار کہیں بہت دور سے ایک آدھ کتے کا بھونکنا سنائی دے جاتا تھا۔ خنکی خاصی بڑھ چکی تھی۔ پہلے تو میں نے فوراً بستر میں گھس جانے کاسوچا تھا لیکن اتنی جلد سونے کی عادت نہیں تھی۔ میں نے بیگ میں سے ایک کتا ب نکالی اور لالٹین کی روشنی میں پڑھنا شروع کر دی تھی۔ خاصی دیر پڑھتا رہا تھا۔ سونے سے پہلے ٹوائلٹ جانے کی عادت خاصی پرانی ہے لیکن کموڈ تو ڈگمگا تا تھا۔ بہر طور اسی ڈگمگاتے کموڈ سے ہی کام چلانا تھا۔ خاموشی، لالٹین، بغیر فلش کے ٹوائلٹ ،مجھے علی پور یاد آرہا تھا۔
اگرچہ 1965میں ہی علی پور میں بجلی آ گئی تھی لیکن ہمارے گھر میں ابھی تک بجلی نہیں تھی۔ میری ضدی اور وہمی ماں کا کہناتھا کہ کچے کمرے میں بجلی سے آگ لگ جائے گی۔ بے تکی بات تھی لیکن اماں کی کہی ہوئی تھی اِس لیے کسی کو سرتابی کی مجال نہیں تھی۔ میں علی پور، اماں اور زندگی پر غور کرتا ہوا بالآخر سو گیا تھا۔ شروع ہی سے تکیے پر سر رکھتے ہی سوچوں کابھونچال آنے لگتا ہے۔ بعض اوقات تو نیند یکسرغارت ہو جاتی ہے لیکن نیند نے آنا تو ہوتا ہی ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply