اس برس کی آخری شام ہے۔ دنیا اپنی روانی میں بہتی چلی جا رہی ہے۔ اور میں سوچ رہا ہوں کیا اک اور برس اپنے اختتام کو پہنچا ؟
مگر یہ برس ہوتا ہی کیا ہے ؟
ہم انسانوں کے بنائے ہوئے قاعدوں کے سوا تو یہ کچھ بھی نہیں۔ ہمیشہ وہی دن ہوتے ہیں، وہی راتیں۔ وہی مشرق سے نکلتا سورج مغرب میں ڈھلتا چلا جاتا ہے اور ہم مشینوں کی طرح صبح کو شام کرنے میں جتے رہتے ہیں۔
پھر بھی دنیا کے بنائے گئے اس برس میں تین سو پینسٹھ خوبصورت صبحیں تھیں اور تین سو پینسٹھ اداس شامیں لیکن میں نے کتنی دیکھیں ؟
میں تو من چاہے سپنوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے کسی روبوٹ کی طرح دنیا کے قاعدوں پہ پورا اترنے کو بھاگتا چلا گیا۔ میں تو رزق کمانے ، مستقبل بنانے کی چاہ میں ہر ابھرتے دن میں چھپی کتنی ہی خوبصورت ساعتوں سے محروم ہوتا رہا اور ان محرومیوں کا ادراک بھی نہ کر سکا۔
میں نے صبح کے رنگ دیکھے نہ راتوں کے سناٹے میں اپنے آپ سے باتیں کیں۔ نہ ہونٹوں پہ کھل کر مسکراہٹ سجانے کا موقع ملا نہ پلکوں پہ موتی بسانے کا۔ میں پورا برس بے لگام دوڑتا چلا گیا ، وہ دوڑ جس کا حاصل کچھ بھی نہیں۔
مادی زندگی کی مادیت پرستی کو خود پہ اوڑھے اس دوڑ میں زندگی کے رنگوں سے محرومیاں میرے اندر اکٹھی ہو کر مجھے کھوکھلا کرتی رہیں اور میں ان محرومیوں میں اپنی ذات راکھ کرتا رہا۔ میں نے اک اور برس اپنی تمناؤں کا لہو دے کر خود کو دنیا کے رواجوں میں ڈھالے رکھا۔
اس سال بھر میں کتنے نئے لوگ مجھ سے شناسا ہوئے ، کتنے ہی نئے لوگوں سے میں روشناس ہوا لیکن سب اپنی اپنی راہوں پہ آگے بڑھتے گئے ، ملتے رہے بچھڑتے گئے۔ نہ ہمیں ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کے دکھوں کا مداوا کرنے کا خیال آیا نہ ہی کسی کے گالوں پہ خوشیوں کی لالی بکھیرنے کی مہلت ملی۔ ہم اپنے اپنے دائروں میں دوڑتے صبح سے شام ، شام سے صبح کرتے رہے، اپنے اپنے دکھوں میں جلتے رہے۔
مصنوعی رنگوں ، مصنوعی خوشیوں کے حصول کے لیے لاحاصل تگ و دو کرتے رہے۔ اور اسی تگ و دو میں زندگی کے اصل رنگ ، اصل خوشیاں ہمارے ہاتھوں سے پھسلتی رہیں۔ رشتوں کی ڈور ڈھیلی ہوتی گئی۔ محبتیں ڈھلتی رات میں جلتے چراغ کی لَو کی طرح تھرتھراتی رہیں ، دھیرے دھیرے اپنا وجود کھونے لگیں اور برس گزرتا چلا گیا۔
جو ابھی پلٹ کر دیکھوں تو گزرے برس نے میری جھولی میں چند مادی سکے گرانے کے سوا کچھ بھی نہیں دیا۔ دنیا کا مزاج میرا مزاج نہیں ہے اور میں خود کو دنیا کے مزاج میں ڈھال بھی نہیں سکا۔ میں انجانے رنگ میں رنگنے کی کوشش میں اپنے رنگوں سے محروم ہوتا گیا۔

اب دیکھیے نیا برس کیا لائے گا ؟ کیا مجھے میرے رنگ لوٹا پائے گا یا میرے پاس جو بچی کھچی تمنائیں ہیں انھیں بھی نوچ کھائے گا۔
یا شائد برس بدلنے سے کچھ بھی نہیں بدلے گا۔ وہی سورج نکلے گا اور چاند چمکے گا اپنے مدار کے چکر پورے کرنے کو ، انسانوں کا سمندر نکلے گا مشینوں میں ڈھلنے کو۔ نہ ہم اپنے رنگ بچا پائیں گے نہ اپنی تمنائیں۔ بس یونہی دن بہ دن مشینوں میں ڈھلتے جائیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں