• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نیل کے سات رنگ (مورنی میں نائٹ لائف، الجنینہ کی فتح، افریقن ڈانس)-قسط13/انجینئر ظفر اقبال وٹو

نیل کے سات رنگ (مورنی میں نائٹ لائف، الجنینہ کی فتح، افریقن ڈانس)-قسط13/انجینئر ظفر اقبال وٹو

اغبش نے بتایا کہ آج دوپہر کو جب ہم اس جگہ سے سائٹ کے لئے روانہ ہوئے تھے تو اس کے بعد انٹیلیجنس والے یہاں پہنچ گئے تھے اور انہوں نے “ہالہ ” سے سوال جواب شروع کر دئے تھے کہ وہ ہم غیر ملکیوں کے ساتھ اتنی دیر کیا بات چیت کرتی رہی تھی –اسی اثنامیں اس کا نشئی خاوند بھی ادھر پہنچ گیا تھااور اس نے آتے ہی انٹیلیجنس والوں کے ساتھ تو تکار شروع کردی تھی۔وہ شاید اپنے حواس میں نہیں تھا اس لئے ان سے لڑ پڑا جس کے بعد انہوں نے ‘ہالہ’ کے ‘ٹھئے’ کو الٹا دیا تھا اور ان دونوں کو پکڑ کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔شاہ جی کا دل ایک دفعہ پھر ‘خفا ‘ہو گیا تھا۔اس مظلوم لڑکی پر ہماری وجہ سے ایک مصیبت آ پڑی تھی۔ انسان اپنی مٹی سے کٹ کر کتنا بے وقعت ہو جاتا ہے۔ یہی واقعہ اگر دریسا گاؤں میں پیش آتا تو کتنے لوگ اس بے چاری کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوتے۔

شاہ جی سکیورٹی آفس میں جا کر ‘ہالہ’ کے لئے کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن ہمارے میزبان اس کے لئے بالکل تیار نہ ہوئے۔وہ مورنی کے مرکزی اسکوائر میں رات کے اس وقت کسی اور جذباتی انڈین مووی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ہم پہلے ہی بہت لیٹ ہو چکے تھے اور ہمیں جلد از جلد یہاں سے نکل جانا چاہیے تھا۔مورنی میں کوئی ایسی مناسب اور محفوظ سرکاری جگہ نہ تھی کی وہاں غیر ملکیوں کو ٹھہرایا جا سکے۔اگر مورنی واپس آکر سکیورٹی والوں کے پاس ہماری واپسی کی رجسٹریشن نہ کروانی ہوتی تو ہم یہاں رُکے بغیر ہی سیدھے ‘الجنینہ’ نکل جاتے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ مغرب کے بعد گورنمنٹ کی رٹ آبادیوں کے باہر ختم ہو جاتی تھی جبکہ ہم لوگوں نے واپسی کا سفر کرنا تھا جس میں کئی قسم کے خطرات موجود تھے۔ مورنی رکنا بھی بذات خود ایک بہت بڑا خطرہ تھا۔ ہمارے میزبان اسی مخمصے کا شکار تھے کہ کیا کیا جائے ؟ادھر سے سکیورٹی دفتر والے ہماری کلئیرنس نہیں دے رہے تھے ۔ وہ شاید اغبش اور حماد لوگوں سے ڈالر مانگ رہے تھے۔

شاہ جی نے سگریٹ کا ایک گہرا کش لیا اور مجھے کہا کہ یہ ان لوگوں کا مسئلہ ہےآؤ ذرا ہم ‘ہیری پوٹر” کی سرائے کے اندر جاکر ‘مورنی” کی نائٹ لائف کا مزہ لیتے ہیں۔ ہم لمبی سفید داڑھی والے بابے کو ایک دفعہ پھر سلام کرتے ہوئے سرائے کے اندر داخل ہو گئے۔شاہ جی کہنے لگے وٹو صاحب مجھے تو یہ بابا بھی کوئی انٹیلیجنس والا ہی لگتا ہے۔دیکھو کیسے صبح سے لاٹھی ٹیکے ایک آنکھ کھولے کھڑا ہے۔

سرائے کے اندر کا ماحول دن سے تھوڑا مختلف تھا۔زیادہ تر نوجوان لوگ ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے تاش کھیل رہے تھے ۔ایک طرف سنوکر ہو رہا تھا۔ایک چھوٹے چبوترے کے اوپر ایک نوجوان ہاتھ میں مائیک لئے دارفوری موسیقی پر کچھ گا رہا تھا اور سامنے بیٹھے لڑکے شور مچا رہے تھے۔ ہم نے ‘خروف’ کا آرڈر دیا اور چرس اور شیشے کے دھوئیں سے بھرے ہوئے ماحول میں خود کو جذب کرنے لگے۔گہرے رنگ والے کپڑے پہنے ایک نسبتاً کم عمر ملازمہ نےمسکراتے ہوئے ہمارے سامنے ‘کرکدے” کےگلابی رنگ والے مشروب کے ویلکم ڈرنکس رکھ دیے تھے تاکہ ہم’ خروف ‘کی تیاری تک بے صبرے نہ ہوں۔

ہم لوگ کھانا کھا کر ‘گہوا’ پی ہی رہے تھے کہ ہمارے مقامی دوستوں نے بتایا کہ سکیورٹی والوں نے رجسٹریشن کردی ہے اور اب ہم روانہ ہو رہے ہیں۔اگرچہ یہ ایک خطرناک فیصلہ تھا لیکن ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ہمیں مورنی کے قصبے میں رات گزارنے یا پھر ‘ڈیتھ روڈ” پر رات کو سفر کرنے میں سے کسی ایک خطرے کا انتخاب کرنا تھا۔ہم خود بھی اب ‘الجنینہ” ہی جانا چاہتے تھے۔

ایک دفعہ پھر ہماری گاڑیاں ‘جبل مورنی” کے قدموں کا بوسہ لیتے ہوئے رات کے دس بجے وہاں سے روانہ ہوئیں۔یہ ایک دن میں اس مغرور ممی کے قدموں کا ہمارا چوتھا بوسہ تھا۔میں نے “جبل مورنی” کو ہاتھ کے اشارے سے الوداع کہا ۔ہم اس کے نسوانی وجود سے دور ہونے لگے جو کہ رات کے اندھیرے میں آہستہ آہستہ چھوٹا ہوتا جا رہا تھا۔ایک دفعہ پھر ہم صحرائے صحارا کے لامحدود سینے پر دوڑ نے لگے تھے۔آج کا دن بہت سنسنی خیز گزرا تھا لیکن ہم سب کچھ بھول کر اس وقت جلد ازجلد ‘الجنینہ” تک پہنچ جانا چاہتے تھے۔ گاڑی کے رکنے پر لگتا تھا جیسے جنجوید والوں کی چین پر شائد گاڑی روک لی گئی ہے یا پھر اندھیرے میں وہ اپنے گھوڑوں پر ہمارا پیچھا کرتے ہوئے ہم تک پہنچ گئے ہیں۔

چاند کی آخری تاریخیں ہونے کی وجہ سے اندھیرا تھا اور کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔آسمان پر چمکدار ستاروں نے رونق لگائی ہوئی تھی۔حماد نے چوکنا ہو کر اپنی گن سنبھالی ہوئی تھی۔ہمارے ڈرائیور کا موڈ بہت خراب تھا۔وہ ‘مورنی’ میں رات کرنے کے حق میں تھا۔وہ باربار کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ہماری گاڑی میں صرف شاہ جی ہی پرسکون بیٹھے تھے۔ وہ مجھے کہنے لگے کہ “وٹو صاحب کچھ نہیں ہوگا ۔ مولا پاک ہمیں خیر سے ‘الجنینہ پہنچا دے گا” –

شاہ جی گاڑی میں ‘ہالہ” کا ذکر لے بیٹھے جو اس وقت شاید کسی ‘ٹارچر سیل” میں بند اس کے روشندان کی سلاخوں کے پیچھے سےآسمان پر چمکتے ان ستاروں کو دیکھ رہی ہو گی جنہیں ہم اس وقت صحرائے صحارا میں دوڑتی اپنی گاڑی کے شیشوں کے پیچھے سے دیکھ رہے تھے۔ اگر وہ خوش قسمت ہوئی تو اس وقت ‘جبل مورنی ‘ کے دامن میں سرکنڈوں سے بنی اپنی جھونپڑی میں اپنے نشئی شوہر کی باقی دو بیویوں کے ساتھ سوئی ہوئی ہوگی۔قدرت کے راز کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں۔میرے خیال میں تو ‘دریسا” کی چوٹی پر بیٹھا وہ جنجوید بھی اب نیچے آگیا ہوگا اور’وادئی ازووم’ کے ریت کے دریا میں اپنی گن پر سر رکھ کر سو رہا ہوگا تاکہ اگلے دن کی ڈیوٹی کے لئے تیار ہوسکے۔وہ ابھی تک کنفیوز ہی ہوگا کہ آج اس نے سیدھے بالوں اور موٹی آنکھوں والےجس گندمی رنگ کے انسان کو ‘دریسا” پہاڑ کی چوٹی پر دیکھا تھا وہ جن بھوت تھا یا کہ اس کا واہمہ تھا۔اسے پتہ نہیں تھاکہ گندمی رنگت والا وہ انسان اس ویرانے کو یہ خبر دینے آیا تھا کی عنقریب یہاں پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ وجود میں آنے والا ہے جس کے بعد ہر جنجوید گن بیچ کر ٹریکٹر خریدنےپر مجبور ہو گا۔ اگر اسے یہ پتہ ہوتا تو شاید وہ مجھ پر گولی چلانے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہ کرتا۔

رات کے ایک بجنے والے ہوں گے جب دور سے ‘الجنینہ’ کے داخلی راستے پر بنا لوہے کے گارڈروں والا پل دور سے نظر آنا شروع ہو گیا ۔اسے دیکھتے ہی گاڑی میں جوش وخروش بڑھ گیا تھا۔حماد نے نعرے لگانا شروع کردیے تھے۔ہمیں یوں محسوس ہورہا تھا جیسے ہم سٹوڈنٹس کے کسی جتھے کے ساتھ”پل چرخی’ عبور کرنے جا رہے ہوں جس کے بعد ‘الجنینہ ‘ پر ہماری امارت قائم ہوجائے گی۔پل پر موجود سکیورٹی والے رات کے اس وقت تیزی سے اپنی طرف بڑھتی گاڑیوں کو دیکھ کر الرٹ ہوچکے تھےتاہم ہمارے ساتھ موجود سکیورٹی والوں سے تھوڑی بہت بحث مباحثے کے بعد انہوں نے ساری گاڑیوں کی تلاشی لی اور ہمیں ‘الجنینہ’ میں داخلے کا پروانہ دے دیا۔

‘الجنینہ” سویا ہوا تھا لیکن ریسٹ ہاؤس میں موجود ہمارے خدمت گار باہر کھڑے ہماری واپسی کی راہ تک رہے تھے۔وہ بہت پریشان تھے۔ جیسے ہی ہماری گاڑیاں ریسٹ ہاؤس والی سڑک پر آئیں وہ گاڑیوں کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ وہ زور زور سے ہاتھ لہرا کر اونچی آواز میں نعرے لگا رہے تھے۔ یہ  خوشی کے اظہار کا ایک مقامی انداز تھا۔رات کے اس پہر کی خاموشی میں ان کے نعروں نے ایک سماں باندھ دیا تھا جیسے ہم دہلی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرا کر آ رہے ہوں۔ شاہ جی کے بقول ہم اس سے بھی بڑا کام کر کے آرہے تھے۔ جہاں مقامی سٹاف بھی ہیلی کاپٹر پر جاتا تھا ہم ان علاقوں کو اپنے قدموں کا لمس دے کر آئے تھے۔ ہمارے خدمت گار اب روایتی افریقن قبائلی ڈانس کر کے ہماری بخیریت واپسی کا جشن منا رہے تھے۔وہ منہ سے عجیب وغریب اونچی اونچی آوازیں نکال رہے تھے۔

ہم آتے ہی بستروں پر ڈھیر ہو گئے تھے۔ حفاظت اور آرام کا احساس پاتے ہی ہمارا انسانی دماغ اپنے روایتی ‘ٹھنڈ’ ماحول میں چلا گیا تھا۔میرا جسم درد سے دکھ رہا تھا۔ یہی حال باقی سب لوگوں کا تھا۔ہم جلد ہی سو گئے۔پتہ نہیں ہم اگلے دن کب تک سوتے رہے۔ باہر شور کی آواز سے میری آنکھ کھلی تھی ۔ میں نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو سورج سوا نیزے پر آیا ہوا تھا۔ باہر سکیورٹی ادارے والوں کی گاڑی آ کر کھڑی ہوئی تھی اور وہ لوگ اغبش لوگوں سے زور زورسے بحث کر رہے تھے۔بالآخر وہ ہمیں انٹیلیجنس دفتر میں ‘مورنی’ سے واپسی کی حاضری لگوانے کاکہہ کر چلے گئے۔میں نے شاہ جی کو جگایا۔  بھوک زوروں پر تھی اور ہم نے رات کو ہی پروگرام بنالیا تھا کہ صبح لنچ یہاں کے واحد ‘برگر کیفے’پر کریں گے۔ آج ہمارا ‘ٹھنڈ دن ‘ تھا اور ہم واپسی سے پہلے ‘الجنینہ ‘ کو ایکسپلور کرنا چاہتے تھے۔ اسی دوران خرطوم سے عدیل شہزاد کا فون آگیا۔۔۔

جس کے پاس ہمارے لئے ایک بہت بڑا’سرپرائز” تھا  ۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply