بات کسی فرد، کسی مخصوص فرد یا افراد کی نہیں ہے، بات کسی مذہب، مسلک اور جماعت و جمعیت کی بھی نہیں ہے۔ بات نیک و بد کی بھی نہیں ہے اور نہ ہی عابد و فاسد، ظالم و مظلوم اور زانی و زانیہ کی ہے۔ اور ہاں بات کسی اور کی آڑ میں اپنا کوئی بغض نکالنے کی بھی نہیں ہے۔ اس پردۂ ژنگاری میں صرف ایک معشوق ہے اور وہ میں خود ہوں۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ بات یقین و گمان کے درمیان ڈولتے مبہم سائے کی بھی نہیں ہے، بات ایقان و امکان کے درمیان کسی موجود مکان کی نہیں ہے، نہیں ہم نے یہاں ایسی کوئی گنجائش ہی نہیں رکھی ہے۔ یا تو یقین ہے یا گمان ہے، درمیان کوئی اور مکان نہیں ہے۔ اور یہ گمان، امکان اور مکان سب میرے شعبدہ گر کے دست ہنر میں ہیں، یہ دست ہنر چاہے تو تینوں کو الگ الگ خانوں میں رکھے یا انہیں اعتقاد کے کوزے میں یوں آمیز کر دے کہ مستفسر ملعون قرار پائے۔ تو بات یقین و گمان میں سے گمان کو لینے کی ہے کیوں کہ ایقان کے در تک پہنچنے کا کٹھن راستہ نہ تو آپ نے طے کیا ہے اور نہ ہی کسی اور نے اس کی شہادت دی ہے اور یہی قرین عقل بات بھی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ گمان آپ کہاں تک رکھیں گے، اس کا دائرہ کار کیا ہوگا اور یہ گمان کن معاملات میں رکھا جا سکتا ہے۔ ‘ ان بعض ظن اثم ‘کے مطابق چونکہ آپ کو گناہ سے بچنا ہے سو منطقی و شرعی اعتبار سے آپ کو نیک گمان ہی رکھنا ہوگا۔
اب دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ حسن ِ ظن رکھیں تو کس بنیاد پر رکھیں؟ آخرحسن ظن رکھنے کا بھی تو کوئی سلیقہ ہوگا؟ مثلاً منافقوں، یہودیوں، نصرانیوں اور کفار و مشرکین کے بارے میں حسنِ ظن نہیں رکھ سکتے اس لیے کہ یہ اللہ کے کھلے دشمن ہیں۔ اب بات سمٹ کر اہل ایمان تک آگئی ہے۔ اب ان فروعی سوالات سے قطع نظر کہ اہلِ ایمان کن مسالک و مذاہب و عقائد میں بستے ہیں، بنیادی سوال یہ ہے کہ اہل ایمان کے ساتھ حسن گمان کا تعلق ظاہر سے ہے یا باطن سے؟ یعنی ان کے ظاہری معاملات ہمارے سامنے ہیں پھر بھی حسن ِ گمان لازم ہے، اگر لازم ہے تو کس حد تک؟ یہ سوال یوں اہمیت کا حامل ہے کہ اسلام ظاہر پر حکم لگاتا ہے باطن پر نہیں۔
اب دوسرا سوال یہ ہے کہ گمان کی وجہ سے پہنچنے والے نقصان کو کس زمرے میں رکھا جائے گا۔؟ کیوں کہ حسنِ گمان کا بنیادی نقصان یہ ہو رہا ہے کہ اس کی وجہ سے احتساب ساقط ہوا جاتا ہے اور اگر ساقط نہ بھی ہو تو کروا دیا جاتا ہے۔
معاملے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے آئیے ہم ایک صورت ِ حال فرض کر لیتے ہیں۔ فرض کر لیں کہ ہمارے درمیان ایک شخص ہے جس کا ظاہر سب پر عیاں ہے (باطن تو اللہ کو ہی بہتر معلوم ہے)، مالی طور پر بالکل کنگال تو نہیں ہے لیکن خوش حال بھی نہیں ہے، سماجی درجہ بندی میں منافق کی طرح درمیان میں معلق ہے، جوڑ توڑ کا ماہر ہے، وہ حسنِ کلام سےحسنِ گمان کا فائدہ اٹھاتا ہوا ایک مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں عوام کا جذباتی سرمایہ استحصال کئے جانے کا منتظر ہوتا ہے، یوں چشم زدن میں وہ شخص دولت مند ہو جاتا ہے۔ اس شخص کی ترقی کی بابت چہ میگوئیاں شروع ہونے لگتی ہیں اور اس سے قبل کہ سوال احتساب تک پہنچے حسنِ ظن کے نام پر مستفسرین کو خاموش کر دیا جاتا ہے۔ چونکہ اسلام ظاہر پر حکم لگاتا ہے اور اس بنیاد پر حکم لگنا چاہیے، یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ شیخ یہ دفعتاً اتنی دولت، اتنے پروجیکٹس، اتنی بلڈنگیں اور اتنی مسجدیں آپ کے پاس کہاں سے آگئیں؟۔۔
لیکن ہم نہیں پوچھ سکتے، کیوں کہ ہمیں حسنِ ظن سے کام لینے کے لیے کہا گیا ہے، کیوں کہ شیخ کے برہمن حواری ہمیں ایمانی دلیل دیتے ہیں کہ اللہ والوں کا احتساب اللہ رب العزت کرے گا، آپ جیسے فتنہ پرور مفسدین نہیں۔ اور وہ مزید ارشاد فرماتا ہے کہ فکر نہ کریں بڑے لوگوں کا احتساب بھی بڑا ہی ہوگا ،آپ غم نہ کریں، رنجیدہ نہ ہوں اللہ کی نکیر زبردست ہے۔ شیخ کا برہمن ساتھ میں طنز بھی کرتا ہے کہ جہاں تک مجھے یاد ہے آپ نے اب تک صرف ایک بار فلاں مد میں جماعت کو پانچ سو روپیہ دیا ہے اگر اس کا حساب چاہیے تو اس کی رسید ہم آپ کو پہلے ہی دے چکے ہیں۔ جب وہ یہ کہہ رہا ہوتا ہے تو اس وقت مجھے نہ تو سیدنا عمر فاروقؓ یاد آتے ہیں اور نہ ہی کوفہ سے سال بھر تجارت کرنے کے بعد لوٹنے والا ان کا فرزند ارجمند۔ اسلام جس احتساب کی تلقین کرتا ہے وہ یہاں دو تاویلات میں جاں بلب ہوتا ہے۔ ایک کہتا ہے کہ میں احتساب دینے کے دائرے سے باہر ہوں اور دوسرا کہتا ہے کہ تم احتساب لینے کے لائق نہیں ہو۔
حسنِ ظن دینی امر ہے، یقیناً رکھنا چاہیے لیکن جب یہ حسن ِ ظن دل پر بوجھ بننے لگے تو اسے اتار پھینکنا چاہیے، پھر سوال پوچھنا چاہیے کہ یہ ماجرا کیا ہے، استفسار ہونا چاہیے کہ امر واقعہ کیا ہے۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ ہم نے اسے مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ شیخ چشم زدن میں امیر ہوگیا۔کوئی بات نہیں۔حسنِ ظن رکھو، اللہ نے غیب سے امداد فرمائی ہوگی! بھکمنگوا اچانک کروڑ پتی ہوگیا۔ کوئی بات نہیں، حسنِ ظن رکھو اور ممکن ہو تو مسجد کے لیے چندہ لے لو! مولوی زانی نکلا، لاحول ولا قوۃ، استغفراللہ، نعوذ باللہ۔حسنِ ظن رکھو، یہ دشمنوں کی سازش ہے، معاملہ شرعی معیار پر اور شرعی عدالت میں ثابت نہیں ہوا ہے! شرعی معیار تو سمجھ میں آتا ہے، یہ شرعی عدالت کہاں ہے؟
بحران کا ایک فائدہ یہ ہے کہ یہ احتساب ذات کے مواقع عطا کرتا ہے۔ یہ کیسا احتساب ذات ہے جو ہمیں بے چین نہیں کرتا؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں