• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • حضرت مسیح ؑ، قرآن مجید کے آئینے میں/سیّد ثاقب اکبر

حضرت مسیح ؑ، قرآن مجید کے آئینے میں/سیّد ثاقب اکبر

قرآن حکیم نے جن عظیم ہستیوں کا ذکر بڑی عظمتوں کے ساتھ کیا ہے، ان میں حضرت عیسیٰ ابن مریمؑ بہت نمایاں ہیں۔ ان کی جو خصوصیات قرآن مجید نے بیان کی ہیں، وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپؑ کی نبوت اور اُن خصوصیات پر ایمان لائیں، جن کا تذکرہ اللہ کی اس آخری کتاب میں موجود ہے۔ یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آپؑ کی کون سی خصوصیت سب سے اہم ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی اعجاز آمیز ولادت نہایت حیران کن ہے۔

ولادت مسیح ؑ:
آپ کا حضرت مریمؑ کے بطن مبارک سے اللہ کی منشا سے پیدا ہونا جب کہ آپ کی والدہ کنواری تھیں اور پھر آپ کا اپنی والدہ کی پاک دامنی کی گواہی دینا ایک بڑے معجزے کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ نے اپنی والدہ کے لیے جس طرح گواہی دی، اسے قرآن حکیم نے یوں بیان کیا ہےيَآ اُخْتَ هَارُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِيًّا Oفَاَشَارَتْ اِلَيْهِ ۖ قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِى الْمَهْدِ صَبِيًّا Oقَالَ اِنِّـىْ عَبْدُ اللّـٰهِۖ اٰتَانِىَ الْكِتَابَ وَجَعَلَنِىْ نَبِيًّا O(مریم:28تا30) “لوگوں نے کہا: اے ہارون کی بہن! نہ تمھارا باپ برا تھا اور نہ تمھاری ماں تجاوز کرنے والی تھی(یہ تمھیں کیا ہوا) مریم نے اس بچے کی طرف اشارہ کیا، تو ان لوگوں نے کہا: ہم اس سے کیسے بات کریں، جو ابھی پنگھوڑے میں ہے اور بالکل بچہ ہے(ایسے میں اچانک) وہ (بچہ) بول اٹھا، میں اللہ کا بندہ ہوں، کتاب لے کر آیا ہوں، اللہ نے مجھے نبی بنایا ہے۔”

چند اہم نکات
ان آیات سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوتے ہیں:
۱۔ حضرت عیسیٰؑ اللہ کے بندے ہیں۔ اس اعلان سے ان کی الوہیت اور اللہ کا بیٹا (نعوذباللہ) ہونے کی نفی ہو جاتی ہے۔
۲۔ حضرت عیسیٰؑ صاحب کتاب نبی تھے، جیسا کہ دیگر کئی ایک آیات میں آیا ہے کہ ان پر اللہ تعالیٰ نے انجیل نازل کی تھی۔
۳۔ اللہ نے ان کو نبی بنا کر بھیجا تھا۔
تھوڑا سا مزید غور کریں تو ان آیات سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انبیاء کے ماں باپ پاک و پاکیزہ اور باکردار ہوتے ہیں، کیونکہ بات ہو رہی تھی حضرت مریمؑ کی کہ بغیر نکاح کے انھوں نے اس بیٹے کو کیوں کر جنم دیا اور یہ کہا جا رہا تھا کہ تمھارا باپ برا تھا، نہ ماں، گویا ان پر ایک تہمت لگائی جا رہی تھی تو حضرت عیسیٰ کا گہوارے میں اپنے نبی ہونے کا اعلان کرنا حضرت مریم کی پاکدامنی کو ثابت کرنے کے لیے تھا۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ نبی کے ماں باپ پاک باز ہوتے ہیں۔ ورنہ یہ اعلان اس امر پر کس طرح سے دلالت کرسکتا ہے۔؟

پنگھوڑے اور بچپن میں حضرت عیسیٰؑ کا یہ کہنا کہ اللہ نے مجھے کتاب دی ہے، حالانکہ وہ کتاب ابھی نازل نہیں ہوئی تھی، یہ بھی بہت معنی خیز ہے۔ اسی طرح آپ کا یہ کہنا کہ اللہ نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے، اپنے اندر مزید پیغام رکھتا ہے، اسی لیے عربی میں یہ بات ضرب المثل بن گئی ہے: النبی نبیا ولوکان صبیاً،نبی نبی ہوتا ہے، چاہے وہ دودھ پیتا بچہ کیوں نہ ہو۔”

حضرت عیسیٰؑ کی ستائش
قرآن حکیم میں حضرت عیسیٰ کی عظمت کو کئی انداز سے بیان کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انھیں تحسین و ستائش سے نوازا ہے۔ اس مقصد کے لیے ان آیات پر غور کیجیے: إِذْ قَالَتِ الْمَلَائِكَةُ يَامَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِنْهُ اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيهًا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ O  وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَمِنَ الصَّالِحِينَO (آل عمران:45و46) “جب ملائکہ نے حضرت مریم سے کہا کہ بے شک اللہ آپ کو اپنی طرف سے ایک کلمہ کی بشارت دیتا ہے، جس کا نام مسیح عیسی ابن مریم ہے، جو دنیا و آخرت میں بڑے مرتبے والا ہے اور مقربین میں سے ہے، وہ انسانوں سے گہوارے میں اور ادھیڑ عمر میں کلام کرے گا اور وہ صالحین میں سے ہے۔”

ان آیات سے حضرت عیسیٰؑ کی یہ خصوصیات ظاہر ہوتی ہیں:
۱۔ وہ اللہ کا ایک خاص کلمہ ہیں، چنانچہ انھیں کلمۃ اللہ کہا گیا ہے۔ بعض لوگوں نے اس مقام پر کلمہ کے مختلف معنی کیے ہیں، لیکن دیگر مقام پر انھیں کلمۃ اللہ کہا گیا ہے، اس لیے مناسب یہی ہے کہ یہاں بھی یہی معنی کیا جائے۔
۲۔ ’’وجیھاً‘‘ اردو میں ہم ’’وجاہت‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، ’’وجیھاً‘‘ کا معنی بھی صاحب وجاہت ہے، یعنی جو اللہ کے حضور وجیہ اور صاحب وجاہت، یعنی عزت و مرتبے والا قرار پایا ہے اور اللہ نے اسے دنیا و آخرت میں وجاہت و عظمت سے سرفراز کیا ہے۔
۳۔ پروردگار نے حضرت مسیح ؑکو اپنے مقربین میں سے قرار دیا ہے، یعنی جنھیں اللہ کی قربت حاصل ہے۔ ایک مومن ساری عمر تمنا کرتا ہے کہ مجھے اللہ کی قربت حاصل ہو، پروردگار نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ حضرت مسیح کو اللہ کی قربت حاصل ہے۔
۴۔ حضرت عیسی ابن مریمؑ کو اس مقام پر صالحین میں سے بھی قرار دیا گیا ہے۔ ہم ہر نماز میں کہتے ہیں: اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ، “سلام ہو ہم پر اور اللہ کے صالحین بندوں پر۔” گویا ہم سب مسلمان ہر نماز میں جن لوگوں پر خاص طور پر سلام بھیجتے ہیں، ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شامل ہیں۔

ایک اہم نکتہ
قرآن حکیم کی ان آیات پر مزید غور کیا جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے حضرت عیسیٰ ؑ نے لوگوں سے گہوارے میں اپنی ماں کی صداقت اور پاکیزگی کو ثابت کرنے کے لیے بات کی تھی، اسی طرح وہ ادھیڑ عمر میں بھی بات کریں گے۔ گویا وہ بڑی عمر پائیں گے اور لوگوں سے بات کریں گے۔ کیا یہاں یہ امر واضح نہیں ہوتا کہ وہ پھر لوگوں سے بات کریں گے، پھر وہ کسی کی سچائی کی گواہی دیں گے، روایات میں آیا ہے کہ وہ آسمان سے آخری دور میں اتریں گے اور وہ حضرت امام مہدیؑ کی امامت و صداقت کی گواہی دیں گے۔ اس سلسلے میں ایک اور آیت بھی حضرت عیسیٰؑ کے حوالے سے قابل غور ہے کہ جس میں فرمایا گیا ہے کہ سب اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے تو ظاہر ہے کہ وہ وقت ابھی نہیں آیا، گویا وہ وہی وقت ہوگا، جب عیسیٰؑ تشریف لائیں گے تو ایک معمولی سی تعداد کے علاوہ جن کے خلاف وہ جہاد کریں گے، اہل کتاب ان کی نبوت پر اور ان کے اللہ کا بندہ ہونے پر ایمان لے آئیں گے۔

حضرت عیسیٰؑ کے معجزات
قرآن مجید میں حضرت عیسیٰؑ کے بعض تعجب خیز معجزات بیان کیے گئے ہیں، مثلاً یہ کہ:
* آپ گارے سے پرندے کی شکل بناتے تھے اور اس میں پھونک مار کر اللہ کے حکم سے اسے زندہ کر دیتے تھے۔
اسی طرح آپ مادر زاد اندھے کو بینا کر دیتے تھے۔
برص کے مریض کو اللہ کے حکم سے شفا دیتے تھے۔
مُردوں کو اللہ کے حکم سے زندہ کرتے تھے۔
آپ لوگوں کو بتا دیتے تھے کہ انھوں نے گھر میں کیا کھایا ہے اور کیا گھر میں بچا کر رکھ آئے ہیں۔
آپ کی دعا سے آسمان سے خوان نعمت نازل ہوا۔
ان تمام معجزات کا ذکر اس آیہ مجیدہ میں موجود ہےوَرَسُولًا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُم بِآيَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُم مِّنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ ۖ وَأُنَبِّئُكُم بِمَا تَأْكُلُونَ وَمَا تَدَّخِرُونَ فِي بُيُوتِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آل عمران:49)

آخری رسول کی بشارت
حضرت عیسیٰؑ نے جہاں حضرت موسیٰ ؑ پر نازل ہونے والی کتاب توراۃ کی سچائی کی شہادت دی، وہاں انھوں نے آنے والے آخری رسول کی بھی بشارت دی، چنانچہ قرآن حکیم نے اس بات کو یوں بیان کیا ہے: وَإِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُم مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرًا بِرَسُولٍ يَأْتِي مِن بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ ۖ۔۔۔” (صف۔6) اس آیہ مجیدہ کا ترجمہ ہم تفہیم القرآن سے نقل کرتے ہیں: “اور یاد کرو عیسیٰؑ ابن مریمؑ کی وہ بات، جو اس نے کہی تھی کہ “اے بنی اسرائیل، میں تمھاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں، تصدیق کرنے والا ہوں، اُس توراۃ کی جو مجھ سے پہلے آئی ہوئی موجود ہے اور بشارت دینے والا ہوں، ایک رسول کی جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہوگا۔۔۔”

Advertisements
julia rana solicitors

عصر حاضر کے لیے چند گذارشات
دنیا میں آسمانی مذاہب کے اعتبار سے مسیحی اور مسلمان سب سے زیادہ ہیں۔ حضرت مسیح دیگر کئی ایک امور کے ساتھ ایک مشترکہ میراث اور مرکز عقیدت و محبت ہیں۔ اس کی بنیاد پر دونوں ادیان کے ماننے والے آپس میں قربت اور محبت پیدا کرسکتے ہیں۔ مسیحیوں کے بارے میں اور بھی کئی ایسی آیات موجود ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے زیادہ قریب ہیں اور ان میں اہل اللہ موجود ہیں۔ اہل کتاب کو ویسے بھی کلمہ سوا کی بنیاد پر اتفاق و اتحاد کی دعوت دی گئی ہے۔ قرآن کی یہ دعوت دائمی ہے اور آج بھی موجود ہے۔ مسلمانوں کو بھی چاہیے کہ اس دعوت اور اس کی روح کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں۔ استعماری قوتیں دونوں مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہمیشہ نفرتیں ایجاد کرنے اور انھیں ایک دوسرے سے دور رکھنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں۔ ظالم سرمایہ داری نظام کے کار پردازان دنیا بھر میں اپنے مفادات کے حصول اور انسانوں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے لیے نفرتوں کا یہ بازار گرم رکھتے ہیں۔ عامۃ الناس کو ان کے ہتھکنڈوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

مسیحی اور مسلمان دونوں حضرت عیسیٰؑ کے بار دیگر نزول پر بھی اعتقاد رکھتے ہیں۔ یہ اعتقاد بھی انھیں اکٹھا کرنے کا پیغام دیتا ہے، تاہم مسلمانوں کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ وہی رسول جس کے آنے کی بشارت حضرت مسیح  ؑ نے دی تھی، ان کی اولاد میں سے ان کا ایک ہمنام فرزند دنیا میں تشریف لائے گا، جسے مسلمانوں کی اصطلاح میں امام مہدی کہا جاتا ہے اور حضرت مسیحؑ ان کے ساتھ مل کر دنیا سے ظلم و جور کا خاتمہ کریں گے اور دنیا میں عدل الٰہی کا نظام قائم کریں گے۔ یہ ارمان سب مستضعف، کمزور، حق پرست اور عدل خواہ انسانوں کا ہونا چاہیے کہ دنیا سے ظلم کا خاتمہ ہو اور عدل کی حکمرانی ہو۔بشکریہ اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply