انڈونیشیا (5) ۔ بغاوت/وہاراامباکر

یکم اکتوبر 1965 انڈونیشیا کی تاریخ کا رخ موڑنے والا اہم دن تھا۔
انڈونیشیا میں اختیارات اور نظریات کی بنیاد پر کشمکش جاری تھی۔ یہ بابائے قوم سوئیکارنو، افواج اور کمیونسٹ کے درمیان کی سہہ فریقی کشیدگی تھی جس میں کوئی فریق دوسرے پر اعتبار نہیں کرتا تھا۔ جب سوئیکارنو نے فوج کے اثر کو روکنے کیلئے  مزدوروں اور کسانوں کو مسلح کرنے کا اعلان کیا تو اسے کمیونسٹ نواز قدم سمجھتے ہوئے جنرلوں نے اس کو روکنے کیلئے کونسل بنائی۔ لیکن انڈونیشیا کی افواج اس بارے میں متفق نہیں تھیں۔

افواج میں دونوں کیمپ پائے جاتے تھے۔ وہ بھی جو سوویت بلاک سے ہمدردی رکھتے تھے اور وہ بھی جو مغربی بلاک سے۔ خاص طور پر فضائیہ میں سوویت حامیوں کی زیادہ تعداد تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یکم اکتوبر 1965 کو یہ کشمکش اپنے عروج پر پہنچ گئی جب رات کو سوا تین بجے، آرمی کے دو یونٹ اور دو ہزار فوجیوں نے بغاوت کر دی۔ یہ کمیونزم سے ہمدردی رکھنے والے گروپ کی طرف سے لیا گیا قدم تھا۔ انہوں نے سات جنرلوں کو گرفتار کرنے کے لئے سکواڈ روانہ کر دیا گیا۔ ان میں وزیرِ دفاع اور آرمی چیف بھی تھے۔ ارادہ یہ تھا کہ انہیں زندہ پکڑ کر سوئیکارنو کے سامنے پیش کیا جائے اور ان کی بنائی کونسل کو ختم کروایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انڈونیشیا میں کمیونسٹ انقلاب لانے کی کوشش کرنے والے انڈونیشیا آرمی کے یونٹ تھے۔ انڈونیشیا ریڈیو پر قبضہ کر لیا گیا۔ یہاں سے اعلان کیا گیا کہ جن سات جنرلوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، یہ امریکہ اور برطانیہ کے آلہ کار ہیں اور کرپشن میں ملوث ہیں۔ دوپہر دو بجے تک چار مرتبہ اعلان کئے جا چکے تھے اور پھر یہ ختم ہو گیا۔
لیکن یہ بغاوت بری طرح پلان کی گئی تھی۔ جنرلوں کو اغوا کرنے کیلئے بھیجے جانے والے تربیت یافتہ نہیں تھے۔ انہوں نے تین جنرلوں کو ان کے گھروں میں ہی قتل کر دیا۔ چوتھے جنرل پچھلی دیوار پھلانگ کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے۔ غلطی سے ان کی پانچ سالہ بیٹی کو مار دیا گیا اور ان کے سٹاف افسر کو بھی۔ تین جنرلوں کو زندہ پکڑنے میں کامیابی ہوئی لیکن بعد میں ان کو بھی قتل کر دیا گیا۔
بغاوت کے لیڈروں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ سوئیکارنو کہاں پر ہیں۔ (وہ اپنی چار بیویوں میں سے ایک کے گھر پر تھے)۔ ان کے پاس واکی ٹاکی نہیں تھے اور فون کا نظام اس دوران میں بند ہو گیا تھا۔ آپس میں رابطہ ہرکاروں کے ذریعے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس دوران میں آرمی سٹریٹجک ریزرو کے کمانڈر نے چارج سنبھال لیا۔ یہ کمانڈر انڈونیشیا کی تاریخ کی ایک اور غیرمعمولی شخصیت تھے۔ ان کا نام سوہارتو تھا۔ سیاسی لحاظ سے ماہر سوہارتو ملک کے صدر سوئیکارنو سے بیس سال چھوٹے تھے۔ باغی افسران حلیم ائیربیس پر جمع تھے۔ فضائیہ میں کمیونزم کا اثر سب سے زیادہ تھا۔ سوہارتو نے پہلے ٹیلی کمیونیشن بلڈنگ چھڑوائی اور پھر حلیم ائیربیس۔ رات نو بجے تک سوہارتو ملک کا کنٹرول سنبھال چکے تھے۔ انہوں نے ریڈیو پر اعلان کیا کہ باغیوں کا تیاپانچہ کر دیا جائے گا اور صدر سوئیکارنو کی ہر صورت میں حفاظت کی جائے گی۔ بغاوت دم توڑ گئی۔ ملک میں اب بڑے قتلِ عام شروع ہونے کا وقت تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکتوبر 1965 کی ناکام بغاوت میں صرف بارہ لوگ ہی مارے گئے تھے۔ لیکن اس کا ردِ عمل سرعت سے اور بڑے پیمانے پر آیا۔ جبکہ اس کا بدلہ لینے کے لئے مارے جانے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس سب کی وجہ کیا تھی؟ یہ سیاسی مفاہمت اور جمہوریت کے ختم ہو جانے کا نتیجہ تھا۔ اس کی جگہ اقتدار کی جنگ نے لے لی تھی۔ کمیونسٹ پارٹی فوج کی سیاسی طاقت کے لئے خطرہ تھی۔ مزدور اور کسان کو مسلح کرنے کا اعلان اس کے لئے خطرناک تھا۔ سوئیکارنو نے یہ اس لئے کیا تھا تاکہ فوج کی طاقت کو لگام ڈالی جا سکے۔ جبکہ فوج خود منقسم تھی۔ ہونے والی بغاوت نے یہ موقع فراہم کر دیا تھا کہ اب فوج اپنی طاقت کے خلاف اٹھنے والے خطرات کو سختی سے کچل سکے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply