پوٹھی تا لال کوٹھی(سفرنامہ-قسط1) کبیر خان

’’عجائباتِ فرنگ ‘‘ ۔۔۔ کہ سفرنامہ ہے پہلا اُردوئے معلّیٰ کا اور تصنیف ہے ایک خان کمبل پوش کی۔ لگتا ہے نام سے بندہ اپنی ذات ذوات کا۔ فرمایا ہے بیچ اس تصنیف کے فاضل مصنّف نےیوں :
’’  یکبارگی 1836ء میں دل میرا طلبگارسیاحیِ جہان بالخصوص ملک  انگلستان کا ہوا ۔ شاہ سلیمان جاہ سے اظہار کرکے رخصت مانگی ، شاہ گردوں بارگاہ نے بصد عنایت وانعام اجازت دی ۔ عاجز تسلیمات بجا لایا اور راہی منزل مقصود ہوا۔ تھوڑے دنوں میں دارالامارہ کلکتہ پہنچا ۔
پانچ چھ مہینے وہاں کی سیر کی بعد ازاں جمعرات کے دن تیسویں تاریخ مارچ کے مہینے میں سن اٹھارہ سو سینتیس عیسوی جہاز میں سوار ہوکر بیت السلطنت انگلستان کو چلا۔ ‘‘

ہونے کو ہم بھی اس کے ایک خان بھائی ہیں لیکن کسی زاویہ سے یوسف ہیں نہ کہیں کے کمبل پوش ۔ ہم تو بس یہیں کے ہیں۔۔۔’’ایویں‘‘ہی سے  ۔۔۔ عام شام بندوں جیسے ۔ ہماری سوچ سمجھ ، دیکھ پرکھ ، سیان پرت بھی ویسی ہی ہے۔  دیکھا دیکھی دیکھنا،اور تاکتے تاڑتے چلے جانا ۔ دل بڑا کرتا ہے کہ ہم بھی بیت السلطنت انگلستان کی سیر کریں لیکن کوئی شاہ گردوں بارگاہ ہماری دسترس میں نہ کلکتہ ہماری پہنچ میں ۔ دُور کیوں جائیے ، تب تلک تو ہم اپنے پھجّڑ اور پڑاٹ کو بھی پردیس جانتے مانتے تھے۔ اور ہر دو مقامات ہمیں پردیسی ۔ چُناں چہ طائرِ خیال کبھی پنڈی پوٹھوارتک بھی نہیں گیا۔۔ عروس البلاد کراچی کو بھی ہم نے بچشم خود نہیں دیکھا، اپنے یار بیلی یوسف چاچا کی دور بین نگاہوں سے دیکھا۔۔۔ ’’اینسے نئیں اینسے ۔ ۔۔  منہ مینچ کے، اکھّاں چِیر کے ۔ ‘‘

چاہیں تو آپ بھی اُس دور کی ’’کرینچی‘‘ کو اِس دور کی ’’ننگی آنکھ ‘‘سے دیکھ سکتے ہیں ۔ لیکن اس کے لئے آپ ’’اک بات چنگے سے پلّے باندھ چھنگ لواور پائنچے اُڑنگ لو۔ ۔۔ وہ یہ کہ مشافروں کو پردیس لے جانے والی کسی بس لاری پر بھروسہ نئیں کرنا،حیوان مال ہے ۔ کہیں بھی کاہ پتر دیکھ کرڈھاکے ، رنگڑ،بیلے جنگل کو جھپٹ سکتی ہے۔ جب بھی لاری میں بیٹھو ڈنڈا ، دندا کسّ کے پکڑے رکھو۔ چاہے کہیں بھی، کتنی ہی کھاج کھُرک کیوں نہ لگی ہو،صبر کا دامن ہاتھ سے نئیں چھوڑنا۔ کھُرک ڈسلے سے ’’پوچنے‘‘ یا کھرکھرے سے کھُرکنے والی ہو توزیادہ سے زیادہ اپنے پیندے سے لاری کی سیٹ ، پھٹّے یا ٹین ڈبّے پر کھورو کرلو اور بس۔ جان ہے تو جہان ہے۔۔  سمجھ آئی کہ نئیں ؟ ‘‘۔

لو جی ! تم نے کبھی پوہڑیاں والے پُل سے اپنے پیروں تلے کانپتا تھرکتا ’’ڈل ڈل کرتا‘‘پنڈی پوٹھوار دیکھا ہے۔ ؟،نئیں ناں ۔۔؟؟ تواپنی چشم دید آنکھوں سے بقلم خود دیکھ لو:

’’ اَیّدھر ریل گڈّی پر ریل گڈّی چڑھی ہوئی ۔ اُدھررشکے کے پیچھے کھوتا جُتاہوا۔ ریڑھا ریڑھی سے بھِڑ رہا ہے، خوچا خوانچے سے چِڑ رہا ہے۔ اِس طرف قُلی قُلی سے گراہک ہتھیا رہا ہے، اوس پاسے کہ متالی ماڈل مورس والا پیدل ٹبّر ٹِیرپرخصموڑ جمارہا ہے۔ ۔ جس نے ماں کا دُدّھ پیا ہے، میری کسی سواری کو ہاتھ لگا کردکھائے ۔۔۔۔، اڈّی مار کے دھرتی نہ ہلا دی تو میرا نام بھی آسوُ بِلّا نئیں اوئے ۔۔  ۔ سواریاں کچھ کہنا چاہتی ہیں ،آسوُ بِلّا کسی کوبولنے کا موقع ہی نہیں دیتا۔ آخرایک مائی ہمت کرتی ہے ۔۔ ہم نے سنگولہ ٹوپی والی ریل گڈّی پکڑنی ہے،پَدّرپوٹھی والی بگھی نئیں ۔۔۔۔
’’ تو پہلے بولنا تھا ناں ، ایویں ہی آسوُ بِلّے کا پینڈا کھوٹا کرا مارا۔۔۔‘‘ آسوُ بِلا اُن کی جان چھوڑ کہیں اورا ڈّی مار دھرتی ہلانے چل پڑتا ہے۔

اِدھروں کالے چاچا کی طرح لنڈورا انجن خواہی مخواہی ہوکے بھرتا آ رہا ہے، اُدھروں ٹانگے میں جُتے دونوں جناورغیر پارلیمانی بولی میں کھُل ڈُل کے بھڑاس نکال رہے ہیں ۔ کوئی پرواہ نئیں کہ آس پاس پردہ دار لیڈیاں آجا رہی ہیں ۔ ٹانگے والے کی چلم سے بھی وہی دھواں نکل رہا ہے جو ریل کے اگالے سے۔ کہتے ہیں ریل والا کوئلہ ہیک واری بھخ جائے تو ساری حیاتی بھختا  ہی رہتا ہے ۔ جانے اوپر والا، سنی سنائی سنی سنائی ہی ہوتی ہے۔ فیر وی دِل کرتا ہے ہیک ادّھ کوئلہ مل جائے تو راکھ میں داب دیکھا جائے۔۔۔۔ بچاری بھابی کو روز گوانڈیوں سے ادھار آگ مانگنا پڑتی ہے۔ اس کی بھی خیر ہے لیکن باہر چومونہی جھُل رہی ہو یا برف کی گّگی بندے کے موہنڈے موہنڈے چڑھی ہوتو بھابی بھی گیلی تھاں پیر نئیں دھرتی۔۔۔۔، مجھے اٹھاتی ہے۔۔۔ اُٹھ میرے شیر! مرد بن، دوڑ کے جا اگّ لے آ ۔اسی کوئلے سے ریل گڈّی توچلتی ہے مگرچولہا جلتا ہے کہ نئیں؟، ربّ کی ربّ جانے۔

اس طرف سے تیج گاں کوُکتی شوکتی اُسی پٹڑی پر آرہی ہے،جس پر دوسری طرف مال گڈّی سُتّی پڑی ہے۔ راجے بزار کے پسنجر ریل گڈّیوں کا ٹکّرٹاکرا ، مفت تماشہ دیکھنے کی بجائے بھاگم بھاگ پُل سے اُترتے ہیں ۔ ’پہجّ اوئے پہاپا ! سنڈوں کی لڑائی میں جنڈوں کی تباہی ۔ کسی کی پاسیڑ، چِھڑی ٹوٹ چھوٹ کے آ لگی تو پسلی موہنڈے ، جانگھ بانہہ کا نُشقاں الگ ، نوکری روزگار کا حرج لاحدہ  ۔ ‘‘

منیا گویا پنڈی پوٹھوار اپنی جگہ شہر بزارہے ۔ کباڑی بزار میں کباڑ بزاری مچی ہوئی ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں ، کھوّے سے کھوّا چھِلتا ہے۔ ۔  سچّی نے یہ کھوّا ہوتا کیا ہے؟ اور چھِلتا کیسے ہے۔  ؟ کوئی کتابی گلّ ہونی ۔؟؟۔ خیر راجہ بزار، گوالمنڈی، ڈھوکاں، جوکاں ،مریڑھاں ، چیڑھاں یہاں بھی ڈھیروں ڈھیر۔ اِسّے مارے پنڈی میں بھی ایک سے بڑا ایک بیوپاری ، بڑے سے بڑا مداری پڑا ہے۔ ہر بڑے کی پٹاری میں ایک آدھ کالا ہے۔ دوجی طرف ایک سے بڑا ایک پنساری ۔ فُٹ پیری پر سر عام نراسوں کو آسوں کی پُڑیاں دے رہا ہے۔ من سے من موہنے کا ڈھنگ بیچ رہا ہے۔ لیکن کرینچی کی بات ہی کچھ اور ہے۔۔۔۔۔ یہاں سے شروع ہوئی تو نہ نہ کرتے مرگوں سے دُور ، بلکن اس سے بھی تہوُر نکل گئی ۔ وہ بابو لوگ جو بڈالی کی ڈھنڈ کنارے بیٹھ ، چارے پاسے نکّیوں کودیکھ اُنہیں مرگے سمجھ لیتے ہیں، بھانویں لِخ کے رکھ لیں کہ:
پرے سے پرے سے پراں اور بھی ہیں
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

کرینچی پرے سے پرے پراں تیکر پھیلی ہوئی ہے۔ اور روز دیہاڑے افواہ اور کھُرک کی وبا سمان پھیلتی ہی جا رئی ہے ۔ کھُرک کھُرک کے کھر کھرے اور ڈسلے مُک گئے، کھُرک چُک کے نہ دی ۔ اُلٹا کل سے آج زیادہ ۔ متے کل کلاں ہم موضع پوٹھی مکوالاں سے ریل گڈّی دیکھنے پوہڑیاں والے پُل جائیں اور شام ویلے لوٹیں تووہیڑے میں کرینچی پھسکڑا مار، گھرپر قبضہ مخالفانہ جما کر بیٹھی ہو۔

ہاں تو بتا میں یہ رہاتھا کہ کرینچی ستاروں سے آگے والے جہان تک پھیلی ہوئی ہے۔ اور اُس جہان کے لوگ کچھ اوراور سے ہوتے ہیں ۔ مثلاً میرا سیٹھ ، خالی پیلی سیٹھ نئیں ہے ۔ وہ ایک دم نخالص اور بھلا آدمی ہے۔ روزینہ دو ٹیم سلوٹ کا جواب بقلم خود مُنڈی ہلا کر دیتا ہے ۔۔۔۔ اور گیٹ کھولنے سے پہلے دیتا ہے۔ پہلی تریک کو البتّ جد کد جواب میں مُنڈی کے ساتھ تھوڑی مُسکان بھی ہلا ملا دے تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ اس مہینے کی تنخواہ بھی گئی اگلی پہلی تک ۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ سیٹھ لوگ بیروں، چوکیداروں ، خانساموں کی تنخواہوں پر کتنے دن گذارا کرتے ہوں گے۔ لیکن واری واری جاؤں ، کرینچی کرینچی ہے ۔ وہ کیا کہتے ہیں خروُس البلاد ۔ جد تیکر گوانڈن کو دیکھ ، پرپُرزے سنوار کے ٹھیک کلّے ویلے بانگ نہ دے،آوانڈیوں گوانڈیوں کی آنکھ نہیں کھُلتی۔اور ایک بار کرینچی جاگ جائے ، کوئی اور سو نئیں سکتا۔

کرینچی کی بات ہی کچھ اور ہے۔۔۔۔ بندر روڈ پر مکرانی ڈریول جب گدھا گاڑیوں کی ریس میں خود بھی سج کے آتے ہیں تو چھاننا پچھاننا اوکھا ہوجاتا ہے کہ گدھاگاڑی کہاں سے شروع ہوتی ہے، ڈریول کہاں ختم ؟۔ ایمان نال ایسی سج سجاوٹ گراں موہڑے میں تب دیکھی تھی جب لمبڑداروں نے اپنی دھی پہلی بارڈولی چاڑھی تھی ۔ روپ سروپ ایسا لشکے کہ ہشکے وائی ہشکے ۔ توُ نے تو ابھی وہ دن بھی نہیں دیکھے جب ماں کے تپّڑ تھپڑ کھا کر لڑکا لوگ دوشاخہ آواز میں روتے ہیں ،اور روتے روتے پھر ماں کے گِٹّوں گوڈوں میں بیٹھ جاتے ہیں ۔ میں نے خود اپنی ان گنہگار آنکھوں سے بڑے بڑے رونق میلے دیکھے ہیں ۔ ایک ایک حرف یاد ہے، جس دیہاڑے پرلا بھیّا حقّی چُٹھی آرہا تھا، اُس دیہاڑے ساوی دیدی کا ٹوہر ٹہکا تم نے اپنی گنہگار آنکھوں سے خود دیکھا تھا ناں۔۔۔۔؟، میں نے بھی ۔ باچھاؤ چھِینٹ کی سُتھن،لیلن کی ہٹو بچوکرتی کُرتی۔۔۔۔، رتّی ی ی لال ۔ سر پر نری کا بہہ جا بہہ جا کرتا جوڑا(کھسّہ؟) ۔ موٹی موٹی آنکھوں میں لپّ لپّ سُرمہ ،چِٹّے شمیت لشکاں مارتے دند ۔ دنداسے بھرے ہونٹوں سے چھنّ چھنّ ڈُ لتے، مٹّی میں رُلتے ہاسے۔ جہاں جہاں تیکر بانہہ دِکھتی ، وہاں وہاں تیکر ڈُلاں ڈُلاں کرتی مہندی ۔ چہوچ نیلی پیرہنی سے جھلاکے مارتی بجوری ۔ یعنے کہ سِر سے لے کر پیر تیکر جھوٹھیاں سچّیاں قسماں کھا تی چھوری۔۔۔۔‘‘
*
ہم ٹھہرے نِرے کوتاہ چشم ، مبیّنہ ساوی دیدی کومکرانی گدھا گاڑی پر سوار کر سکے نہ گدھا گاڑی کو ساوی دیدی پر منطبق کرپائے ۔ لیکن کھیت کی منڈیر پر ٹانگیں پسارچاچا کی زبانی کراچی اور کراچی کی بتیاں دیکھنے کا سواد ہی کچھ اور تھا:
’’وہ نئیں اپنا چوکی والا چاچا۔۔۔۔؟ کوئی ایویں کیویں نئیں ، بڑا پڑھا پڑھایا ، سیانا بیانہ بندہ ہے۔ اتوار کے اتوار دور دور سے غرض مند اُس کے پاس پیروں کے گھوڑوں کا کچّا چِٹّھا پوچھنے آتے ہیں ۔ اس کے بعد ہی سوچ سمجھ کر ریس کورس میں پیر دھرتے ہیں ۔ اپنا نئیں ہے وہ کالا پہائی ، جس کا لال کوٹھی میں چِٹّا بنگلہ ہے؟ اُس نے بھینسوں کا باڑا اسی ریس کورس سے کمایا ہے۔ اس کے پیچھے بھی چوکی والا چاچا تھا۔ کبھی روزی روٹی کمانے کرینچی جاؤتو چاچے سے ضرور ملنا ۔ لیکن جد کد جاؤ دوانی والا اخبار ضرور لے جانا۔ پنواڑی کی دُکّان سے ملتا ہے۔ چاچا اخبار کا عاشق ہے۔ اس میں ریس کورس کی سُر سُری خیزخبروں کے علاوہ گھوڑوں کے ساتھ اپنے اپنے وقت کی فرح گوگیوں کے فوٹو بھی چھپتے ہیں ۔ اخبار میں گھوڑوں کے گلے لگی ان میموں کو دیکھ کر چاچا کا ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ کہتا ہے، دُنیا کی ساری رونق ان کے کُھروں اور ’’ کھُریوں ‘‘میں ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

تُو جہاں ناز سے قدم رکھ دے
وہ زمین آسمان ہے پیارے
اک دوانی ہی کی تو بات ہے ، چاچا خوش ہو جائے گا ۔ اتنے تھوڑے میں تو ربّ بھی راضی نئیں ہوتا ، بّب راضی ہو جائے تو کون سا گھاٹا ہے۔۔۔ِ ، سمجھ آئی کہ نئیں۔۔۔؟‘‘
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply